Published On: Thu, Dec 15th, 2011

پارلیمنٹ میں بیٹھے کس شخص کے منصور اعجاز سے رابطے ہیں؟

Share This
Tags

وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی سینیٹ سے خطاب کے دوران کچھ ایسے اشارے بھی دئیے جن کی وجہ سے اب کئی روز تک قیاس آرائیاں رہیں گی کہ’’ اس ایوان میں بیٹھا ہوا‘‘ وہ شخص کون ہے جس کے منصور اعجاز سے رابطے ہیں، اگر چہ وزیراعظم نے نام تو نہیں لیا لیکن بادی النظر میں ان کا اشارہ اسحاق ڈار کی طرف لگتا تھا جو میمو کیس میں سپریم کورٹ میں پٹیشنز بھی ہیں۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں بھی زیر بحث ہوتے ہیں اس لئے اگر کوئی معاملہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں زیر بحث ہوتو کیا اسے سپریم کورٹ میں لے جانا کسی قاعدے کلیے اور ضابطے کی خلاف ورزی ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کی کھل کر وضاحت کی جانی چاہئے۔ اصل سوال تو میمو کے معاملے کی تہہ تک پہنچنا ہے۔ اگر پارلیمنٹ وہاں تک پہنچتی ہے تو بہتر لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرپاتی اور سپریم کورٹ میں اس معاملے کا دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجاتا ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ جہاں تک منصور اعجاز کے ساتھ رابطوں کا تعلق ہے ہوسکتاہے سینیٹر اسحاق ڈار نے ان سے رابطہ کیا ہو اور انہیں کہا ہو کہ وہ بیان کے لئے پاکستان آجائیں۔ اب وہ آتے ہیں یا نہیں آتے لیکن اگر وہ آنے کا فیصلہ کرلیں تو ظاہر ہے خاصی ہلچل مچ جائے گی۔ منصور اعجاز اب تک اس مؤقف پر قائم ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں وہ درست ہے تاہم انہیں یہ بھی گلہ ہے کہ میڈیا ان کے بیانات کو توڑمروڑ کر پیش کررہاہے۔ منصور اعجاز میمو کیس کی درخواست میں ایک مدعا علیہ ہیں جن سے جواب طلب کیا گیاہے۔ حسین حقانی اپنا جواب داخل کراچکے ہیں۔ اگر چہ انہیں سپریم کورٹ نے طلب نہیں کیا صرف جواب مانگا ہے لیکن جوں جوں مقدمہ آگے بڑھے گا اور کچھ نئی باتیں سامنے آئیں گی تو کچھ بعید نہیں کہ انہیں بھی طلب کرلیا جائے۔ اس مقدمے کے حوالے سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی معلومات ظاہر ہے کافی زیادہ ہوں گی اس لئے اگر انہوں نے یہ کہا ہے کہ اس ایوان میں بیٹھا ایک شخص منصور اعجاز سے مل کر پارلیمنٹ اور صدر کے خلاف سازشیں کر رہا ہے تو انہیں ممکن ہے بعض کلاسیفائیڈ معلومات حاصل ہوں۔ظاہر ہے انہیں تو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ وہ شخص کون ہے جو منصور اعجاز سے رابطے میں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ رابطہ لازما کسی سازش کی طرف جاتاہے۔ یا خواہ مخواہ معاملے کو سازش کا رنگ دیا جارہا ہے۔ جہاں تک منصور اعجاز کے ساتھ رابطوں کا تعلق ہے تو ابھی کل تک بہت سے لوگوں کا ان سے رابطہ تھا اور اس میں کوئی برائی نہیں سمجھی جارہی تھی۔ خود منصور اعجاز نے اس سلسلے میں جو دو مضمون لکھے ہیں ان میں روابط کی غلط یا صحیح تفصیل بیان کی گئی ہے۔ لیکن اب چونکہ یہ شخص ناپسندیدہ ہوچکا ہے اور اس کی کہی ہوئی باتیں داستان سرائی نظر آتی ہیں ۔ اسلئے اس کے ساتھ رابطے میں اب سازشوں کا تابہ بانہ نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔ اب وزیراعظم کی تقریر کے بعد جوں جوں بات آگے بڑھے گی ، اگر کوئی سازش ہے تو اس کی پرتیں بھی کھلتی جائیں گی لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے بقول اگر وہ استعفا دے دیں تو اپوزیشن حکومت نہیں بناسکتی یہ بات بھی درست ہے کہ حکومت اتنی مضبوط ہے کہ کوئی دوسری جماعت متادل حکومت نہیں بناسکتی تو پھر خواہ مخواہ سازشی تھیوریاں کیوں پیش کی جارہی ہیں؟ پھر ایک شخص جو غیر ملکی شیری ہے اتنا اہم کیسے ہوگیا ہے وہ ایک جمی جمائی اور مستحکم حکومت کے خلاف سازش میں کامیاب ہوجائے؟ سینیٹر اسحاق ڈار کا تعلق جس جماعت سے ہے اس کے سربراہ میاں نواز شریف تو بار بار یقین دلاچکے ہیں کہ وہ نہ تو اس حکومت کو غیر آئینی طور پر مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور نہ کسی غیر آئینی تبدیلی کا حصہ بنیں گے۔ چند روز قبل لاہو رمیں سینئر اخبار نویسوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے اپنا یہ مو قف ایک بار پھر دہرایا۔ چیف جسٹس آف پاکستان بھی ایسے ہی ہر اقدام کو جو حکومت کے احکامات کے تابع نہ ہو، غیر آئینی کہہ چکے ہیں اور یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اب سپریم کورٹ کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ کسی غیر آئینی اقدام کو سند جواز عطا کرے ۔ جب حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت جو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکمران بھی ہے ان کا سربراہ کسی غیر آئینی تبدیلی کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سربراہ بار بار کہہ رہا ہے کہ وہ آئین وقانون کی محافظت کا کردار ادا کرے گا تو پھر ان حالات میں اور اتنی بڑی بڑی ضمانتوں کے باوجود اگر ایک شخص کے منصور اعجاز کے ساتھ رابطے کسی بڑی سازش کا پتہ دیتے ہیں تو بھی حکومت کے لئے خوف کا مقام نہیں۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ کھل کر اس شخص کا نام لیں اور یہ بھی بتائیں کہ منصور اعجاز سے رابطہ رکھنا کب سے جرم ہوگیا ؟ جب اس کا اٹھایا ہوا میمو ایشو پارلیمنٹ کی کمیٹی اور ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیر بحث ہے۔ یہ شخص بھلے سے ناپسندیدہ ہو، بے شک اس کے پھیلائے جال کی وجہ سے ایک سفیر کو استعفا دیناپڑا، بے شک اس کی الزام تراشیوں کا سلسلہ بڑے بڑے ایوانوں تک پھیلا ہوا ہو لیکن مجبوری یہ ہے کہ ابھی بہت عرصے تک اس شخص کی جھوٹی سچی کہانیوں کی صدائے بازگشت ہمارے بڑے بڑے ایوانوں میں اور میڈیا میں گونجتی رہے گی۔
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

Displaying 4 Comments
Have Your Say
  1. Ali Athar says:

    Bhai aap ka analysis apni jaga but wo shakhs Ishaq Daar nai bulkay Tariq Azeem hy

  2. nasreen says:

    chosar machy shor. ya agar chor nahee han tho ethna dar keun rahy han.chay mansoor ijaz sa kohi b mily.sach janny k ley tho mansoor sa milna pary ga.allah ke lati ba hawaz ha.ya jab b parthee ha tho asy he parthee ha

  3. Shabana Rahil says:

    haqeeqat tou yaa haa k pori kom koo Mansoor ijaz ka shokar guzar hona chahyaa………… jis kaa zariyaa makrooh charaa zardari oor hussain hakani samnaa ayaa. Thanks Mansoor

  4. Anonymous says:

    True thing in short;

    1- PPP had Already separated Bangladesh from PAK.

    2- Now they are running Govt, and are afraid they won’t be chosen again and planned to be in power forever through USA support, for this greedy and kutoon wali soch; they proposed usa to handle PAK state by appointing PPP in their (USA)feet to lick and offered USA to control PAK and give them money.

    This is awful but seems true!
    If you understand point#2 you will see the memo revolved around this thing! ISI should be seriously acting on this to save PAK sovereignty and ARMY should take hold till we do not find any HONEST leader!

    SPREAD THE WORD

Leave a comment