Published On: Sat, Sep 19th, 2015

دہشت گردوں کےخلاف کامیابی کے دعویٰ ٹھیک لیکن بڈبیر میں فضائیہ کے بیس کیمپ پر حملہ کیسے ہو گیا؟سکیو رٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا، کیا فورسز بھی اپنا احتساب بھی کریں گی؟ اہم سوال، جواب ندارد

 پشاور کے نواحی علاقے بڈبیر میں پاک فضائیہ کے ایک بیس کیمپ پر ہونے والا افسوناک حملہ جہاں قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنا ہے، وہیں اس نے ملک میں جاری فوجی آپریشن کی کامیابیوں کے دعوے بھی باطل ثابت کردئیے ہیں۔ گزشتہ دس برس سے اور خصوصاً گزشتہ ایک برس سے جاری آپریشن ضرب عضب کے تناظر میں پاکستانی حکام اور ریاستی اداروں کی جانب سے یہ بات پورے تسلسل کے ساتھ کہی جارہی تھی کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک تباہ کردیا گیا ہے اور ان کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پچھلے چند ماہ میں یہ بھی کہا گیا کہ اب دہشت گرد کہیں بڑی کارروائی کے قابل نہیں رہے۔ ایک طرف ریاستی ادارے اپنی کامیابیوں کے راگ الاپ رہے تھے تو دوسری جانب پاکستانی میڈیا کے وہ مخصوص عناصر جو اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے ہیں، یہی کہتے رہے کہ آپریشن ضرب عضب نے حیران کن کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ البتہ جو کچھ حقیقی دنیا میں پاکستان کے ساتھ ہورہا ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اب صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ریاستی ادارے بشمول فوج اپنا احتساب بھی کریں کیونکہ اس نوعیت کے حملے بغیر کسی اندرونی مدد و حمایت کے ممکن نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے عوام بلا شبہ اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں اور اسی محبت کے باعث وہ حکام کے ہر دعوے کو تسلیم بھی کرلیتے ہیں لیکن ملک بھر میں جاری دہشت گردی کی کارروائیوں اور خصوصاً فوجی تنصیبات پر پے در پے حملوں کو بین الاقوامی برادری نظر انداز نہیں کرسکتی۔ گزشتہ چند برسوں میں کامرہ ائر بیس، مہران ائربیس، پولیس ٹریننگ سنٹرز، واہگہ بارڈر اور یہاں تک کہ جی ایچ کیو جیسی حساس تنصیبات کو جس تواتر اور مہارت کے ساتھ نشانہ بنایا گیا وہ اس بات کو ثبوت دینے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک اسی قوت اور حوصلے کے ساتھ کام کر رہا ہے جس کے ساتھ وہ آپریشن سے پہلے موجود تھا۔ اگر پاکستانی حکام کے دعووں کے مطابق یہ تسلیم کر لیا جائے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑی جاچکی ہے تو پھر بار بار انہی دفاعی اور حساس نوعیت کی تنصیبات پر حملے کیوں اور کیسے ہوجاتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ گزشتہ سات آٹھ برسوں میں حملہ آوروں کی تکنیک بھی تبدیل نہیں ہوئی۔ air force base attackتقریباً ہر حملے میں دہشت گردوں کی تعداد جو عموماً 12 سے 15 تک ہوتی ہے، تنصیبات میں داخل ہونے کا ایک ہی انداز جس میں راکٹ حملے سے گیٹ یا دیوار توڑی جاتی ہے، حملے کی تکنیک جس میں زیادہ تر غیر مسلح افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور دوسری تفصیلات جن میں لاجسٹک سپورٹ وغیرہ شامل ہیں، حیران کن حد تک ایک جیسی ہیں۔ ہر بار دہشت گرد کسی بھی حساس مقام کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اگر ہمارے ادارے اپنا کام درست انداز میں کر رہے ہوتے تو حملہ آوروں کو ان تنصیبات سے کم از کم ایک ہزار میٹر دور روک لیا جاتا اور وہیں پر ان کا خاتمہ کردیا جاتا۔ مقام حیرت ہے کہ ایک ہی تکنیک کے باوجود ملک کے دفاعی ادارے ہر بار حملے کا شکار ہوجاتے ہیں اور ہر حملے کے بعد انہی الفاظ میں میڈیا کو بریفنگ دی جاتی ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ بزدل دشمن نے پشت پر حملہ کیا اور ہمارے جری جوانوں نے کمال مہارت سے حملہ ناکام بنادیا۔ مبصرین کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف جان کی قربانی دینے والے محافظوں کی جرات و ہمت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن یہاں اعلیٰ عسکری قیادت سے یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہئیے کہ پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی میں قیادت کی سطح پر وہ کون سی غلطی ہے جس کا ازالہ نہیں کیا جارہا؟ انٹیلیجنس کے میدان میں وہ کون سی خامی ہے جسے دور نہیں کیا جارہا؟ اس سکیورٹی ناکامی کے وہ کون سے ایسے ذمہ دار ہیں جن کا تعین نہیں کیا جارہا یا اگر تعین ہوچکا ہے تو ان کو سزا نہیں دی جارہی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر عسکری حکام پاکستان میں احتساب کی نئی روایت کو جنم دیں جو دنیا میں ہرگز نئی نہیں تو صوتحال کہیں بہتر ہوسکتی ہے۔ اگر کسی حساس ادارے کے اعلیٰ افسران ایسے حملے روکنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرکے استعفیٰ دیں گے تو اس سے ملکی عوام کا ان پر اعتماد کم نہیں ہوگا بلکہ بڑھے گا کیونکہ عوام بھی یہ دیکھیں گے کہ بے رحم احتساب سب کے لیے بلا تفریق ہے۔ دوسری جانب بین الاقوامی دفاعی ماہرین کے لیے بھی پاکستانی فوج کے طرف سے کیے گئے کامیابیوں کے دعوے حیران کن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی فوج اور یہاں تک کہ فضائیہ بھی ملک کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں کامیاب کارروائیاں کر رہی ہیں تو امریکی حکام کو انہی علاقوں میں ڈرون حملوں کی کیا ضرورت ہے؟ اگر پاکستانی فوجی کارروائی درست انداز میں آگے بڑھ رہی ہوتی تو امریکی ڈرون حملوں کی ضرورت پیش نہ آتی۔ مبصرین کے مطابق امریکی ڈرون حملوں کی دو ممکنہ وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستانی فوج اپنا کام درست انداز سے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی یا دوسری ممکنہ وجہ یہ کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی نیت درست نہیں۔ ان میں سے کوئی وجہ بھی درست یا غلط ہو لیکن اس حقیقت کو کسی طور جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ فوجی آپریشن بڑی حد تک ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ ان مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف فوجی آپریشن ہی دہشت گردی سے نمٹنے کا موثر حل نہیں بلکہ ملکی اداروں کو معاشرے کے اندر موجود انتہاپسندی کو تعلیم کے فروغ اور انصاف کی بلا تاخیر فراہمی جیسے بنیادی حقوق کے ذریعے کم کرنا چاہئیے اور اس کام میں فوجی سے زیادہ سیاسی اداروں کو اپنا کردار نبھانے کا موقع ملنا چاہئیے۔

فیکٹ رپورٹ

Leave a comment