Published On: Sat, Aug 29th, 2015

کرپشن کے الزامات۔۔ صرف سندھ کے سیاستدانوں کیخلاف کارروائیاں کیوں؟

Share This
Tags

مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی

صوبہ سندھ میں جاری رینجرز کے آپریشن کے دوران پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد ایک سوال سیاسی حلقوں میں زیربحث ہے اور وہ یہ کہ کیا بدعنوانی کے الزامات کے تحت سیاستدانوں کے خلاف کارروائی صوبہ سندھ اور پیپلز پارٹی تک محدود رہے گی یا باقی صوبے اور سیاسی جماعتیں بھی اس کا شکار ہو سکتی ہیں؟
معاملات سے باخبر تجزیہ کار اور بعض اہم سیاسی کھلاڑی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ یہ کارروائی صرف سندھ یا پیپلز پارٹی تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پنجاب اور حکمران جماعت مسلم لیگ کے کچھ لوگ بھی بد عنوانی کے خلاف اس کارروائی کے نشانے پر آ سکتے ہیں۔
گویا ’’بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔‘‘
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال سے پی پی پی اور مسلم لیگ ن میں خلیج پیدا ہوگی۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم پر ہاتھ ڈالنے کا مطلب آصف زرداری پر ہاتھ ڈالنا ہے اور آصف زرداری پر ہاتھ ڈالا گیا تو پھر جنگ ہو گی۔ppp-pmln
یہ اعلانِ جنگ کس کے خلاف ہو گا؟اس کی وضاحت کرتے ہوئے پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ نے پاکستانی فوج کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی حکومت کو بھی متنبہ کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے فوج اور رینجرز کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز کی حکومت کو ہدف تنقید بنانے پر بعض سیاسی حلقوں میں یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کی وجہ سے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان خلیج پیدا ہو گی اور دوبارہ دھرنے جیسا سیاسی بحران پیدا ہونے کی صورت میں پیپلز پارٹی دوبارہ نواز حکومت کی حمایت نہیں کرے گی۔
’وفاقی حکومت نے پیپلز پارٹی کو صاف پیغام دیا ہے کہ ڈاکٹر عاصم یا پارٹی کے دیگر لوگوں کے خلاف سندھ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر وفاقی حکومت نے ڈاکٹر عاصم کے خلاف کارروائی کرنا ہوتی تو اس کے لیے نیپ کو استعمال کیا جاتا۔
حکومت کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ جو کچھ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ان کی جماعت کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان جاری مفاہمتی پالیسی ختم نہ ہونے کے امکان کے حق میں ایک دلیل اور بھی دی جا رہی ہے۔ اور وہ یہ کہ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ نواز بھی اسی صورتحال کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس جانب اشارہ خود مسلم لیگ کے اہم رہنما اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ایک نجی ٹیلی وڑن چینل کو انٹرویو میں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کی حکومت کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ جو کچھ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ان کی جماعت کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
عام انتخابات میں صوبہ سندھ تک محدود ہو جانے والی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف ان کارروائیوں کے بعد کہا جا رہا ہے کہ اس جماعت پر برا وقت آیا ہوا ہے۔ تجزیہ کار زاہد حسین اس رائے سے بھی متفق نہیں۔ان کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کا انحطاط بہت پہلے ہی شروع ہو چکا تھا لیکن جب اس کے رہنماؤں پر دہشت گردی کے الزامات لگیں گے تو فوری طور پر تو شاید اسے دباؤ محسوس ہو لیکن طویل مدت میں اس سے پارٹی کو فائدہ ہی ہو گا۔ جب بھی کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف اس طرح کے اقدمات کیے جاتے ہیں تو اس سے اس جماعت کو نئی زندگی ملتی ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات سے نا صرف اس جماعت کو نئی زندگی مل رہی ہے بلکہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان تعلقات اور مفاہمت مزید بڑھے گی۔ کیونکہ بلآخر یہ دونوں جماعتیں ایک ہی کشتی کی سوار ہیں۔

آصف فاروقی

Leave a comment