Published On: Thu, Aug 18th, 2011

شام لہو لہان، لیبیا میں کہرام، مصر میں بھونچال، پاکستان میں قتل عام

Share This
Tags

سیاسی چالوں اور سازشوں کا دور تھمنے کا نام نہیں لے رہا ، صرف سات ماہ کے دوران 800افراد کی ہلاکت نے کراچی کو بغداد کا بل اور قاہرہ کی صف میں لاکھڑا کیا، سیاسی سازشوں کے جال کا سلسلہ نہ روکا گیا تو جلد ہی کراچی بھوتوں کا شہر ہوگا‘ جہاں صرف موت کی حکمرانی ہو گی

 

فیکٹ رپورٹ
یہ کیا عالم ہے عالم اسلام کا ؟
جہنم کا سماں ہے ۔ ماہ رمضان یں عبادت پر حاوی ہے جنگ۔ روحانیت پر حاوی ہے حیوانیت۔ امن پر حاوی ہے تشدد۔ بھائی چارہ پر سوار ہے خونریزی ، اتحاد پر حاوی ہے قتل وغارت گری۔
یہ کیا ہورہاہے ! کون کر رہا ہے ! کیوں مررہے ہیں۔ ایک دوسرے کے ہاتھوں مسلمان آخر یہ رمضان المبارک کیوں ہے لہولہان؟ لیبیاہو‘ شام ‘ عراق ہو یا افغانستان یا پاکستان ہو یا ایران ۔ ہر جانب ہے اذانوں کی صدا سے زیادہ بمبوں ‘ راکٹوں اور میزائلوں کی گونج سنائی دیتی دے رہی ہے۔ بغلگیر ہونے کے بجائے ایک دوسرے کی پیٹھ میں خنجر گھونپے جارہے ہیں۔ نماز شکرانہ کے بجائے نماز جنازہ ادا کی جارہی ہے۔ عالم اسلام میں عجیب وغریب ماحول ہے۔ برکت کا مہینہ شروع ہونے کے باوجود جنگ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ جنگ کا بھوت کسی کے دماغ سے اترنے کو تیار نہیں۔ بس خون بہہ رہا ہے ۔ لاشیں بکھری ہیں۔ آہ وبکا مچی ہے۔مسجدوں میں نمازیوں سے زیادہ اسپتالوں میں زخمیوں کی تعداد ہے ۔ قبرستانوں میں ہلچل ہے ۔ نئی قبریں کھد رہی ہیں۔ اور پل بھر میں آباد ہورہی ہیں۔ یہ ہے عالم ‘ عالم اسلام کا ۔
کہیں جہاد کے نام پر کہرا م برپا ہے تو کہیں بغاوت کے نام پر ۔ کہیں آسمان سے آگ برس رہی ہے تو کہیں زمین پر باردود کی چادر بچھی ہے۔ کہیں فوج عوام کی دھنائی کر رہی ہے تو کہیں مسلکی نفر ت لاشوں کے ڈھیر لگارہی ہے۔ جہاں نظر ڈالئے ،بدامنی اور تشدد کا بول بالا ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ رمضان ا لمبا ر ک کے آغاز کے باوجود تباہی کا دور تھما نہیں ہے۔ شام میں بشارالاسد ایک خونی حکمران بنے ہیں‘ جو لاشوں کے ڈھیر لگا رہے ہیں ۔ لیبیا میں کرنل معمر قذافی کی باغیوں کے خلاف جنگ شیطان کی آنت بن گئی ہے ۔ جس نے رمضان المبارک کے در ان کوئی سستی دکھائی نہ و قفہ ۔ خون بہہ رہا ہے لوگ مررہے ہیں‘ بچے یتیم ہورہے ہیں ‘ مگر اس وقت عالم اسلام میں رمضان المبارک کا کوئی اثر نہیں۔ افغانستان میں بم پھٹ رہے ہیں، طالبان دشمن اور غداروں کو مت بانٹے رہے ہیں۔ حالانکہ امریکا کو امید تھی کہ رمضان المبارک کے دران طالبان کے تشدد میں کمی آجائے گی‘ مگر اب طالبان نے دشمن کو دنگ کر دیا ہے۔ عراق میں القاعدہ زندہ ہے۔ بغداد ہر روز دہل رہاہے۔ مصر میں حسنی مبارک کا خاتمہ ہو گیا ۔ مگر اب عوام اور فوج آمنے سامنے ہیں ۔التحریر اسکوائر پر ایک بار پھر عوام کا سیلاب ہے ۔ سروں کا سمندر ہے ۔ نعروں کی گونج ہے ۔ جو عوام تانا شاہ حسنی مبارک کے خلاف جنگ لڑچکے تھے ‘ اب فوج سے دوہاتھ کرنے کو تیار ہیں۔ عالم اسلام میں رمضان المبارک کی رونق ہے مگر اس کی روح غائب ہے۔ 11فروری کو جب حسنی مبارک دور کا خاتمہ ہوا تھا ‘ تو عوام نے سوچا تھا کہ انہوں نے نئی تاریخ مرتب کردی‘ مگر اس کے بعد مصر میں فوج کا دبدبہ ہے۔ فوج اسلام پسندوں کی لہر کے سبب مصر میں انتخابات کرانے میں گبھراہٹ کا شکار ہے۔ عوام نے 40سال تک حکمرانی کرنے والے حسنی مبارک کو ٹیلی ویژن پر بستر مرگ سے اپنا دفا کرتے ہوئے دیکھا اور ان کے دونوں بیٹوں کو جیل کے لباس میں سلاخوں کے پیچھے ۔
سخت گرمی میں رمضان المبارک کا آغاز ہوا تو جمہوری آندھی کے انجام سے پریشان عوام کو مہنگائی نے بوکھلا دیا ہے ۔ مصر کے سیاسی تجزیہ کار محمودا لعلسی کے مطابق ‘ جولوگ سمجھتے ہیں کہ انقلاب یاسمین نے مصر کو بدل دیا ہے ‘ وہ غلط ہیں۔ ملک اب بھی بحران کا شکار ہے ۔ عالم اسلام اور عالم عرب رمضان المبارک کے دران خونی جدوجہداور گرانی کی مار سے حیران وپریشان ہے ‘ کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ رمضان المبارک میں عوام کی پریشانی اب سڑکوں پر مظاہرہ کی شکل میں سامنے آرہی ہے۔ عرب ممالک میں اقتصادی بحران ہے ۔ عوام اب حکمرانوں کے جھوٹے وعدوں سے مایوس ہو گے ہیں، یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک سے قبل ہی اس بات کا اشارہ مل گیا تھا کہ عبادت کا مہینہ تناؤ بھرا ہوگا۔ پہلی مرتبہ ایسانظارہ ملا ہے کہ عرب ممالک اقتصادی پریشانیوں کے سبب بوکھلا گئے ہیں۔ بحرن ہو‘ قطر‘ اردون ہو یا متحدہ عرب امارات‘ ہر حکومت پر دباؤ ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے لئے حالات جہنم جیسے ہیں‘ مغربی کنارہ میں عام کے سا منے مہنگائی ایک عذاب بن گی ہے‘ جبکہ غزہ پٹی کے فلسطینیوں کے لئے زندگی دن بدن سخت ہورہی ہے۔ ایک فلسطینی نے کہا کہ ہم ہر سال رمضان المبارک کا انتظار کرتے ہیں کہ عبادت کا مہینہ آئے گا ‘ برکت لائے گا‘ مگر ہر سال رمضان المبارک ایک آزمائش ثابت ہوتاہے۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں طالبان کا بھی موت کا کھیل جاری ہے۔ امریکی فوج نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ رمضان المبارک کے دوران ہوسکتا ہے کہ طالبان تشدد سے پرہیز کریں ، مگر فی الحال کوئی بات دعویٰ کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں کراچی اب بھی جل رہا ہے ۔ مسلکی تشدد نے عبادت کی راتوں کو کالا کر دیا ہے ‘ جہاں مسلمان ‘ مسلمان کے خون کاپیا سا ہے۔ رمضان المبارک کے آغاز پر ہی 34افراد کی ہلاکت اس بات کا ثبوت ہے کہ اس شہر میں کسی رمضان المبارک کی آمد کا احساس ہی نہیں‘ ورنہ خون کی ایسی ندی نہیں بہتی۔ عالم اسلام کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ آخر کیا ہے اس کا علاج کیا ہے اس مسئلے کا حل‘ آخر رمضان المبارک کے دوران جنگ حاوی کیوں ہے؟ عبادت کا مہینہ کیا اسی طرح جنگ کے نام ہو جائے گا۔
***
کراچی میں جنگل کا قانون، رمضان خون میں تر بتر
کراچی میں سڑ کوں پر لاشیں پڑی ہیں‘ زخمی کراہ رہے ہیں مگرپولیس ہے نہ فائربریگیڈ اور نہ ایمبولینس‘ کیونکہ کراچی پر حکمرانی ہے موت کی ۔ چپہ چپہ پر موت‘ جس نے کراچی کو بنا دیا ہے موت کا شہر۔ شرمناک بات یہ ہے کہ سیاسی چالوں اور سازشوں کا دور تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے جس نے کراچی کو میدان جنگ بنا دیا ہے۔ صرف سات ماہ کے دوران 800افراد کی ہلاکت نے کراچی کو بغداد کا بل اور قاہرہ کی صف میں لاکھڑا کیا ہے ۔ 1995ء کے بعد2011 کراچی کیلئے سب سے خو نی سال ثابت ہوا ہے ۔ جبکہ پچھلے ایک ہفتہ کے دوران 60 افراد موت کی وادی میں پہنچ گئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاست اب اس قدر حاوی ہے کہ لوگ رمضان المبارک کا احترام بھی بھول چکے ہیں ۔ انہیں اس کی کوئی فکر نہیں کہ شب قدر کا مہینہ شروع ہو چکاہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے کے باوجودکراچی میں تشدد کا دور تھما نہیں ہے ۔ سیاستدانوں کی زبان ہے کہ تلوار کی طرح چل رہی ہے۔ زبان کی مار ہے ‘ جو کراچی شعلوں میں گھرا ہے۔ جولائی2011ء میں 300 افراد کی جانیں تلف ہوئی ہیں۔ عوام کو امید تھی کہ رمضان المبارک کا آغاز ہوگا تو تشدد تھم جائے گا، فسادی آرام کریں گے تو امن کا بول بالا رہے گا، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے گروپ ایک دوسرے سے بھڑرہے ہیں۔
صدر آصف علی زرداری سیاستدانوں کے ساتھ تین بڑی میٹنگیں کرچکے ہیں‘ مگر کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے ۔ کیونکہ سیاسی اختلافات کی خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ حکمراں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی ) کا دعویٰ ہے کہ پارٹی کراچی کے مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے ۔ مگر متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) کے لیڈر الطاف حسین اشتعال انگیز بیانات جاری کرہے ہیں ‘ جس سے حالات خراب ہورہے ہیں۔ الطاف حسین نے حال ہی میں کہا تھا کہ پاکستانی حکومت بے قصور عوام کی جان ومال کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے ۔ اس لئے فوج کو آگے آنا چاہئے تاکہ عوام کی جانوں کی حفاظت ہو سکے۔ الطاف حسین نے یہ بھی کہا ہے کہ ’ ’موجودہ حالات میں مہاجر کیا کریں گے ‘ انہیں ہندوستان واپس جانا چاہئے‘‘۔
کراچی پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا دنگل ہے‘ جس کے سبب کراچی کو بھاری قیمت چکانی پڑرہی ہے۔ شہر میں رمضان المبارک شروع ہونے کے باوجود کرفیو کا ماحول ہے۔ مساجد میں سناٹااور نمازی جان بچانے کے لئے گھروں میں قید ہوگئے ہیں۔ شہر میں ماحول کا عالم یہ ہے کہ کب کہاں سے کون گولی چلا دے ‘ کچھ کہنا مشکل ہو گا۔ شہر میں بھیانک آتش زنی ہورہی ہے۔ دوکانیں نذر آتش کی جارہی ہیں۔ مکانات جلائے جارہے ہیں ۔ سرکاری دفاتر بھسم کر دئیے گئے ہیں ۔ پولیس کا نام و نشان نہیں ہے۔ مساجد سے اذان کی آواز گونج رہی ہے ‘ مگر نمازی غائب ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ کراچی میں پاکستانی سیاست کے ہر خونی کھیل کو انجام دیا جارہاہے‘ اگر یہ کہا جائے کہ شہر کو سیاست کا اکھاڑہ بنا دیا گیا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ پی پی اور ایم کیو ایم کی سیاست نے کراچی کا دم نکال دیاہے ۔ اب ایم کیو ایم لیڈر الطاف حسین نے صدر آصف زرداری کو وارننگ دی ہے کہ اگر حالات قابو میں نہیں ہوئے اورپولیس نے سختی نہیں کی ‘ تو عوام سڑکوں پر انتقامی کارروائی کیلئے اتر جائیں گے ۔ یہ اس بات کاصاف اشارہ ہے کہ کراچی میں خانہ جنگی چھڑ جائے گی۔ الطاف حسین کے مطابق اب عوام کو اپنی زندگی کا تحفظ خود کرنا ہوگا‘ کیونکہ پولیس اور انتظامیہ کی بے حسی نے فسادیوں کے حوصلے بلند کئے ہیں۔ مگر اب حالات ایسے ہیں کہ اگر آپ گھروں میں دبک کر بیٹھ جائیں گے تو بھی مارے جائیں گے ‘ اس لئے بہتر ہوگا کہ پولیس حرکت میں نہیں آئی تو عوام کو سڑکوں پر اترنا پڑے گا۔ کراچی کے تشدد نے پاکستان کا سر شرم سے جھکا دیا ہے‘ جہاں مہاجروں کی اکثریت ہے ‘ مگر اب پختون برادری کی آبادی کو منظم طور پر بڑھایا جارہا ہے‘ جس کے سبب کراچی میں مہاجروں اور پختون ٹکراؤ معمول بن گیا ہے۔ مہاجروں کا الزام ہے کہ پی پی پی نے نئے الیکشن کیلئے اس طرح حد بندی کی ہے ‘ جس سے مہاجر ووٹ بے معنی ہوجائیں گے‘ جس کے سبب مہاجروں کی سیاسی طاقت گھٹ جائے گی۔ اس کے خلاف ٹکراؤ اب خونی رنگ ے رہا ہے۔
کراچی میں حالات کا یہ عالم ہے کہ پاکستانی بحریہ نے اپنے جنگی بیڑے مہران نیوی بیس سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ کیونکہ حکومت کو خدشہ ہے کہ اب جنگی بیڑوں پر حملے ہو سکتے ہیں‘ ان جنگی بیڑوں کو بلوچستان کے بحری اڈہ پر روانہ کر دیا گیاہے۔ کراچی کے میران نیوی بیس پر ایک مرتبہ خوفناک حملہ ہو چکا ہے ‘ اس لئے بحریہ نے یہ فیصلہ احتیاطی طور پر کیا ہے ‘ مگر اس سے کراچی کے تشدد کے پیمانے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ کراچی کے بد سے بد ترحالت کے بعد اب حکو مت دلدل میں ہے۔ ایک جانب طالبان اور القاعدہ کا عتاب ہے تو دوسری جانب سیاسی جنگ امریکا کے ساتھ تعلقات میں تلخی ہے ‘تو اقتصادیات میں گراوٹ آرہی ہے ۔ جبکہ کراچی میں حالات خراب ہونے سے ملک کی اقتصادی حالت مزید گرتی ہے ۔ کراچی میں مہاجروں اور پختون ٹکراؤ کے ساتھ سیاسی سازشوں کے جال کا سلسلہ نہیں روکا گیا تو آنے والے دنوں میں کراچی بھوتوں کا شہر ہوگا‘ جہاں موت کی حکمرانی میں زندگی کی روپوشی میں ہے۔
رمضان المبارک میں شام کے خونی سب وروز

شام کی ہرصبح خون میں ڈوبی ہے ‘ ہر شام سے شرابور ہے اور ہر رات خون میں ترتر بتر ہے ۔ یہ شام ہے ‘ جس کی اب تک کوئی صبح نظر نہیں آرہی ہے۔ پچھلے چار ماہ سے انقلاب کی آگ نے شام کو بھون کر رکھ دیا ہے۔دو ہزار لاشوں کے ساتھ عوام کی بغاوت میں ہرروز شدت پیدا ہو رہی ہے اور حکمران بشار الاسد پر بھی اس شدت کے ساتھ حیوانیت کا دورہ پڑ رہاہے۔ اس وقت شام میں جو کچھ ہورہاہے‘ وہ شاید اسرائیل نے فلسطینیوں کے سا تھ نہ کیا ہو۔ مظالم بربریت‘ حیوانیت اور جنون کا ایسا نمونہ دکھائی دیا ہے کہ انسانیت بھی پناہ مانگے۔ حما ٹاؤن میں شام کی فوج کے حالیہ قتل عام میں 200 افراد کی جانیں تلف ہوئی ہیں ۔ دینا چیخ رہی ہے ‘ مگر بشارالاسد پر کوئی اثر نہیں ‘ ان کی نظر صرف اور صرف اقتدار پر ہے۔ وہ سیاسی حقوق دینے کی بات کر رہے ہیں ۔ اختیارات کا خواب دکھارہے ہیں ‘ مگر اقتدار چھوڑنے کے بارے میں ایک لفظ سننے کو تیار نہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مغرب چھوڑئیے عالم اسلام بھی شام کو قابو میں کرنے میں ناکام ہے ۔ حکمران بشارالاسد نے طاقت کا ایسا استعمال کیا ہے کہ عوام حیران ہیں کہ یہ انسان ہے یا درندہ‘ مگر بشیر الاسد پر اس کا کوئی اثر نہیں ‘ کیونکہ ان کا صرف ایک مقصد ہے مخالفوں کو کچلنا۔ شام میں بغاوت کی آگ نے پورے ملک کو جھلسا دیاہے ۔ پچھلے چار ماہ سے جاری حکمران بشارالاسد کے خلاف بغاوت نے شام کو لہولہان کر دیا ہے اور سب سے درد ناک بات یہ ہے کہ انقلاب کے نعرے بلند کرنے والوں کو مل رہی ہے موت‘ غائب ہو رہے ہیں نوجوان ‘ اسپتالوں میں زخمیوں کو دی جارہی ہے موت‘ بچوں کو دی جارہی ہے اذیت‘ مظالم کی انتہا کا یہ عالم ہے کہ رمضان المبارک کے آغا پر حما ٹاؤن میں شام کی فوج نے 140افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ شام میں حالات سب سے بدترہیں۔ کیونکہ مخالفوں کے نام پر بشارالاسد نے صرف اور صرف موت بانٹنے کا فیصلہ کیا ہے اور فوج کو مظاہروں پر اندھا دھند فائرنگ کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بغاوت نے شام میں کہرام برپا کر دیا ہے۔ ملک کا بچہ بچہ اب بشارالاسد کی رخصتی چاہتا ہے۔دنیا حیران ہے عالم عرب اب دنگ ہے ۔ شام کا حکمران جنونی ہو چکا ہے ۔ بغاوت کی آگ آسمان چھورہی ہے۔ مگر بشارالاسد کا تختہ الٹنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ ان کے والد حافظ الاسد کا سکیورٹی نظام جو اب تک ناقابل شکن ثابت ہوا ہے ‘ مگر حیرت اس بات کی ہے کہ لیبیا پر حملہ کرنے والے ناٹو اور امریکا نے شام کے معاملے پر آنکھیں موندلی ہیں۔ اس وقت شام میں دو ہزار شہری مارے جا چکے ہیں۔ عوام چیخ رے ہیں ۔ رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں ، اور بچوں کو بچا رہے ہیں ‘ مگر حکمران بشار الاسد ہیں کہ ان کے سر پر خون سوار ہے ۔ وہ کسی قیمت پر اقتدار چھوڑنا پسند نہیں کر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بشارالاسد نے بغاوت یا انقلاب کو کچلنے کے لئے پوری طاقت لگادی ہے ۔ انکے سامنے مصر کے حسنی مبارک کا انجام ہے ۔ ان کو تیونیس کے زین العابدین بن علی کا حشر بھی یاد ہے ‘ مگر اس کے باوجود انقلاب برپا کرنے والوں کو موت کی وادی میں دھکیل دہے رہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکا چیخ رہا ہے کہ شام میں انسانیت کا خون ہو رہاہے۔ عوام کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے ۔ لاشوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ نے شام کو جہنم قرار دیاہے۔جہاں حکومت مخالفوں کو صرف اور صرف موت دینے پر اٹل ہے۔ امریکا ہو یا اقوام متحدہ صرف دباؤ کی بات کررہے ہیں۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کیمون کے مطابق’’ بغاوت بھڑکنے کے بعد میں نے کئی مرتبہ بشارالاسد سے بات کی اور انہیں اس مسئلے کو پرامن طور پر حل کرنے کا مشورہ دیا ‘ مگر حما ٹاؤن میں جو کچھ ہوا اس نے دنیا کو ہلا دیا ۔اس واقعہ نے ثابت کر دیا کہ بشارالاسد حیوان بن چکے ہیں اور انکی نظر میں انسانی جانون کی کوئی قیت نہیں ہے ۔ وہ اقتدار کو بچانے کے لئے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ۔ بات صرف سڑکوں پر خون بہنے کی نہیں ‘ بلکہ حیوانیت کی ہے ۔ بشارالاسد کی فوج نے بچوں تک کو نہیں بخشا‘ مخالفوں کو ایسی اذیتیں دی ہیں کہ روح کانپ جائے۔
امریکا نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حما ٹاؤن قتل عام کے بعد جو تصویریں سامنے آئی ہیں اس سے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے ۔ وائٹ ہاؤ س کے ترجمان نے تسلیم کیا ہے کہ حالات بد سے بد تر ہوچکے ہیں اور بشارالاسد کو اب ہر قیمت پر اقتدار سے دستبردار ہونا پڑے گا‘ جبکہ شام پر دباؤ بڑھانے کے لئے امریکا نے مزید پابندیوں کو ہتھیار بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے‘ مگر ایک بات مغرب کو اب تک سمجھ میں نہیں آئی ہے کہ شام کے حالات پابندیوں سے قابو میں نہیں آئیں گے ‘ بلکہ مداخلعت آخری راستہ ہوگا۔
دوسری جانب بشارالاسد شطرنجی چالیں کھیل رہے ہیں ۔ اب انہوں نے شام میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور چناؤ لڑنے کی اجازت دی ہے ‘ جس پر فوری طور پر عمل درآمد شروع ہو گا۔ اس کا مقصد صرف یہی ہے کہ بین الاقوامی برادری کو یہ پیغام ملے کہ شام کی حکومت جمہوری حقوق بحال کررہی ہے ‘ مگر جو بشارالاسد کو جانتا اور سمجھتا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ یہ صرف ایک دھوکہ ہے۔
Displaying 6 Comments
Have Your Say
  1. Waqar Ali says:

    Why are you hiding the israeli and american consipirancy in syira. The fact is that Syria is in the front line against israel. After the fall of American allys in egypt and upcoming revolutions in bahrain and yemen. America need another ally in Arab. So now Israel and America need their new ally government in Syria.

  2. Mohamed says:

    I could watch Sc’lrdienhs List and still be happy after reading this.

  3. Animal,From what I can tell, he used the residual approach in testing all his models. So all of his tests are incorrect. Jason (as usual) is correct. This paper needs to undergo peer review. Once it does that, it will either be rejected (and then forgotten) or accepted. If it is accepted, I will write a detailed response.

  4. naturally like your web site however you need to take a look at the spelling on quite a few of your posts. Many of them are rife with spelling problems and I find it very troublesome to tell the reality on the other hand I¡¦ll surely come back again.

  5. ஜோஸ், நாங்கள் சொல்லும் தீர்வு குறித்து கூடிய விரைவில் கட்டுரையாக எழுதுகிறோம். உங்களுக்கு இயலுமாயின் நேரிலும் சந்தித்து உரையாடலாம். ஆà001000®©à®¾à®²à¯ இந்த அரசியல் அமைப்பு சரியானதில்லை, அதை இனிமேலும் திருத்த முடியாது, மாறாக அதை அப்புறப்படுத்த வேண்டும் என்பதில் உங்களுக்கு உடன்பாடா? இல்லையென்றால் ஏன்?

  6. Willie says:

    BION I’m imspersed! Cool post!

Leave a comment