Published On: Fri, Apr 22nd, 2011

صوبائی حکومتیں 3 کھرب روپے کی کرپشن کے باوجود کارروائی پر تیا ر نہیں

آڈٹ رپورٹیں کارروائی کیلئے صوبائی حکومتوں کو بھیج دی

گئیں مگرسیاسی مصلحتوں کی وجہ سے صوبائی حکومتوں

نے کیسز پر کارروائی کو نظرانداز کر دیا

 

سیاسی مصلحتوں کی شکار صوبائی حکومتوں نے سابقہ دور کے ناظمین کی 2کھرب روپے سے زائد کرپشن پر کارروائی کو نظرانداز کردیا ہے اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی بار بار یاد دہانیوں کے باوجود کسی بھی وزیراعلیٰ نے کارروائی کیلئے مثبت ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔سرکاری دستاویز کے مطابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان تنویر آغا چاروں وزرائے اعلیٰ کو چار مراسلے بھیج چکے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ 2001۔11تک پرویز مشرف دور میں ضلع حکومتوں کی آمدنی و اخراجات کے تفصیلی آڈٹ سے ایک عشرے کے دوران ناظمین کی جانب سے کرپشن، عوامی منصوبوں میں ٹھیکیداروں کو زائد ادائیگی، مالی بے قاعدگیوں اور سرکاری خریداریوں میں بھاری کک بیکس کے 17 ہزار 330 انتہائی سنگین کیسز کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے قومی خزانے کو 2 کھرب 77 ارب 53 کروڑ 11 لاکھ 91 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ کالعدم مقامی حکومتوں کا آڈٹ سال رواں میں مکمل کر لیا گیا ہے۔ 714 آڈٹ رپورٹیں کارروائی کیلئے گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کے توسط سے صوبائی حکومتوں کو بھیج دی گئیں مگر سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے صوبائی حکومتوں نے کرپشن کیسز پر کارروائی کو نظر انداز کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے آڈیٹر جنرل کی مرتب کردہ رپورٹس اب تک کسی بھی صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں زیر غور نہیں لائی جاسکیں۔ ذرائع نے تصدیق کی کہ آڈیٹر جنرل صوبائی وزرائے اعلیٰ کو چار خطوط لکھ چکے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور کوئی صوبائی حکومت ماضی کے کرپشن کیسز ری اوپن کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ذرائع نے کہا کہ پونے تین کھرب سے زائد کی کرپشن پر اگر کوئی ایکشن نہ ہوا تو یہ قومی المیہ ہوگا اور گڈگورننس اور شفافیت کی باتیں محض زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہوں گی۔ آڈیٹر جنرل تنویر آغا کے لیٹر میں صوبائی وزرائے اعلیٰ کو تجویز کیا گیا ہے کہ کالعدم مقامی حکومتوں کے مشکوک منصوبوں پر آڈٹ اعتراضات کے جائزے کیلئے حکومت اور اپوزیشن نمائندوں پر مشتمل ایوان کی خصوصی پارلیمانی کمیٹیاں قائم کی جائیں تاکہ ذمہ دار افراد کی نشاندہی ہوسکے اور کرپٹ افراد کو سزائیں دی جاسکیں۔ سرکاری دستاویز سے پتا چلتا ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام میں سب سے زیادہ کرپشن سندھ میں ہوئی جہاں دس برسوں میں مقامی حکومتوں میں 3 ہزار 368 مالی بدعنوانیوں کے کیسز میں ایک کھرب 27ارب 6 کروڑ 14 لاکھ 56 ہزار روپے غبن کیے گئے۔ پنجاب میں 8814 کیسز میں ایک کھرب 16ارب 35 کروڑ 62 لاکھ 64ہزار روپے کی بدعنوانیوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ خیرپختونخوا میں 3942 کیسز میں 25 ارب 56کروڑ 43 لاکھ 92 ہزار روپے کی مالی بے قاعدگیاں ہوئیں جبکہ دستاویز کے مطابق بلوچستان میں 1206 سرکاری منصوبوں میں 8ارب 54 کروڑ 90 لاکھ 79 ہزار روپے خوردبرد کیے گئے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ صوبائی وزرائے اعلیٰ کی جانب سے عدم تعاون کے بعد اب یہ معاملہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی چوہدری نثار علی خان کے نوٹس میں لایا جائے گا تاکہ وہ اس ضمن میں کوئی واضح فیصلہ کرسکیں۔ اگر اس حوالے سے حکومت نے بروقت فیصلہ نہ کیا تو پونے تین کھرب روپے کی وصولی ناممکن ہوجائے گی اور ساری رقم ڈوب جائے گی۔
Displaying 1 Comments
Have Your Say
  1. asghar says:

    nice

Leave a comment