Published On: Thu, Oct 27th, 2011

تیرا کیا ہو گا ڈاکٹر؟رینٹل پاورپراجیکٹس میں تاخیر کے بابر اعوان ذمہ دار

Share This
Tags

سپریم کورٹ نے نندی پور اور چیچو کی ملیاں رینٹل پاور پراجیکٹس میں تاخیر اور کرپشن کی تحقیقات کے لئے بدھ کو جسٹس (ر) رحمت حسین جعفری پر مشتمل ایک عدالتی کمیشن بنا دیا ہے اور توقع ہے تاخیر پر وزارت قانون پر توجہ مرکوز ہو گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف پہلے ہی 27 اگست 2011ء کو ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ وزارت قانون نے متعلقہ چینی کمپنیوں سے خوش کرنے کا مطالبہ کیا اور رشوت نہ ملنے پر پنجاب کے خلاف سازش کے طور پر مذکورہ دونوں منصوبوں کی فائلیں روک لیں۔وہ کہہ چکے ہیں کہ ان دونوں منصوبوں کے حوالے سے وزارت قانون کی مجرمانہ غفلت کے باعث قوم کو اندھیرے میں دھکیل دیا گیا ہے ورنہ قومی گرڈ میں تقریباً 9 سو میگا واٹ بجلی کا اضافہ ہو جاتا۔ دستاویزات کے مطابق نندی پور پاور پراجیکٹ اپریل 2011ء میں مکمل ہونا تھا اور اس کی تکمیل کے بعد چیچو کی ملیاں پاور پراجیکٹ کی تنصیب کا کام ہونا تھا جو کہ اندازاً آئندہ سال مکمل ہو جاتا۔تاہم وزارت قانون کی غیرقانونی مداخلت کے باعث دونوں منصوبوں پر کام روک دیا گیا اور ان کی مشینری کراچی اور قاسم پورٹس پر پڑی رہ گئی۔ متعلقہ ماہرین کے مطابق وزارت قانون کے تاخیری حربوں سے نہ صرف مشینری کو نقصان پہنچا بلکہ لوڈشیڈنگ میں اضافے‘ برآمدات اور صنعت کو اربوں روپے کے نقصان کے علاوہ ان منصوبوں کی لاگت بھی 20 ارب تک بڑھ گئی۔ متعلقہ وزارتوں اور وزیراعلیٰ پنجاب کے شدید احتجاج پر وزیراعظم نے وزارت قانون کو 11 اگست 2011ء کو مذکورہ منصوبے کلیئر کرنے کا حکم دیا اور خود بھی 27 اگست کو نندی پور پراجیکٹ کی منظوری دے دی مگر اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی اور منصوبے کی لاگت ناقابل برداشت سطح تک پہنچ چکی تھی۔ وفاقی وزارت قانون کی طرف سے اچانک کئے جانے والے غیرمنطقی اعتراضات 950 میگا واٹ بجلی کے پیداوار کے ان منصوبوں کے کام میں رکاوٹ بن گئے‘ وزارت پانی وبجلی کے حکام نے مئی 2011ء میں بتایا تھا کہ وزارت قانون کنٹریکٹر کو وزارت خزانہ کے ذریعے خود مختار گارنٹی کے اجرا کی کلیئرنس نہیں دی جس کے نتیجے میں کام معطل ہے۔ حکام بتا چکے ہیں کہ نندی پور پاور پراجیکٹ (لاگت 329 ملین ڈالر) اور چیچو کی ملیاں کمبائنڈ سائیکل پاور پلانٹ (لاگت 354.5 ملین ڈالر) کی تکمیل سے قومی گرڈ میں بالترتیب 425 میگا واٹ اور 525 میگا واٹ بجلی کا اضافہ ہو گا۔ یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ نومبر 2010ء میں وزارت قانون کی گزشتہ مدت کے ٹھیکے سے اتفاق کرنے سے انکار کے نتیجے میں تعطل کے باعث فنڈز کی کمی سے منصوبہ معطل ہو گیا نتیجتاً کراچی اور قاسم پورٹس پر 6 کنسائنمنٹس رک گئیں‘ ایکسپورٹ کریڈٹ معاہدوں کے ذریعے فارن کرنسی لون غیر موثر ہو گئے۔ ڈونگ فینگ کارپوریشن لمیٹڈ چائنا (DEC) اور جنرل الیکٹرانکس (GE) کی طرف سے پیپکو کو کام کے تعطل پر نوٹس مل چکے ہیں اور وہ نومبر 2010ء سے اپنے آپ کو غیر متحرک کر چکے ہیں۔حکام نے یہ بھی کہا تھا کہ پیپکو‘ ڈی ای سی اور جی ای کے تقریباً 4 سو کارکن فارغ بیٹھے ہیں اور آلات کی کسٹم کلیئرنس کے منتظر ہیں۔ سامان پورٹ پر کھلے آسمان میں پڑا ہے اور اسے نقصان ہو سکتا ہے‘ معاہدوں کی عدم تکمیل‘ ٹھیکیداروں کے کلیمز ،نقصان اور پورٹ پر تاخیر کے دیگر اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ حکام نے بتایا کہ غیر ملکی بینکوں کی کی طرز پر وزارت پانی وبجلی نے قرضے کے حصول کے لئے ای پی سی کے نام پر وزارت خزانہ کی خود مختار گارنٹی کے مینڈیٹ کے اجراء کی تصدیق کے لئے وزارت قانون کے سامنے گزشتہ مدت میں منظوری کے لئے پیپکو کے کیس وکالت کی ہے۔ 28 مئی 2011ء کو یہ بھی رپورٹ ہو چکا ہے کہ پیپکو اور ڈونگ فینگ الیکٹرک کارپوریشن لمیٹڈ اورپیپکو کے درمیان نندی پور پراجیکٹ کے لئے معاہدے کے 28 مئی 2011ء کو دستخط ہوئے‘ منصوبے پر عمل درآمد میپکو کی مجموعی مینجمنٹ کے تحت جن کو III کے ذریعے عمل درآمد ہو گا۔ 329 ملین ڈالر (0.3 ملین فی میگا واٹ) لاگت پر اتفاق ہوا ہے۔ جنرل الیکٹرانکس کو گیس ٹربائن سپلائر کا ٹھیکہ دیا گیا جس کی مینوفیکچرنگ فسیلٹی بلفورٹ‘ فرانس ہے‘ فارن کرنسی فنانسنگ کے لئے پیپکو نے کوفیس فرانس اور چائنا ایگزم کے ساتھ ایکسپورٹ کریڈٹ ایگریمنٹس کئے۔ ایکسپورٹ کریڈٹ ایگریمنٹس 3 اکتوبر 2008ء کو کئے گئے اور 10 فیصد ایڈوانس ادائیگیاں اسی سال جاری کر دی گئیں۔ نندی پور پاور پراجیکٹ کا لیٹر آف کریڈٹ 16 اکتوبر 2008ء کو عبوری انتظام کے تحت مقامی بینکوں کے سینڈیکیٹ کے ذریعے قائم ہوا۔ گیس ٹربائنیں اور بڑے آلات پہلے ہی بحری جہاز پر روانہ ہو چکے ہیں اور سائٹ پر ہیں۔ وفاقی سیکرٹری قانون مسعود چشتی سے ان کے سرکاری نمبروں پر رابطہ کیا گیا مگر انہوں نے جواب نہیں دیا۔ 21:50 پر ان کے پی اے مسٹر لطیف نے کال اٹینڈ کی ،انہیں معاملے سے متعلق بتایا گیا اور سیکرٹری قانون کے موقف سے متعلق درخواست کی گئی تاہم لطیف نے بتایا ’’صاحب مصروف ہیں اور بات نہیں کر سکتے‘‘ لطیف کو کہا گیا کہ اگر وہ بات نہیں کر سکتے تو آپ (لطیف) کو جواب دے دیں اس پر لطیف نے کہا کہ وہ مجھ سے بھی بات نہیں کر سکتے۔ رپورٹ/احمد نورانی
Displaying 1 Comments
Have Your Say
  1. Artur says:

    An answer from an expert! Thanks for conunibttirg.

Leave a comment