Published On: Wed, Sep 21st, 2011

لشکرجھنگوی نے مستونگ میں 26شیعہ زائرین کو بس سے اتار کر قتل کردیا

Share This
Tags
سٹاف رپورٹ/
بلوچستان کے ضلع مستونگ میں فائرنگ کے واقعہ میں ایران جانے والے 26زائرین جاں بحق اور 6زخمی ہوگئے ، زائرین کو بس سے اتار کر چن چن کر گولیاں کا نشانہ بنایا گیا ،بس میں45افراد سوار تھے جن میں سے کچھ نے بھاگ کر جانیں بچائیں ،میتیں لانے کیلئے جانے والی زائرین کے لواحقین کی گاڑی پر بھی فائرنگ کی گئی جس میں 3افراد جاں بحق اور ایک زخمی ہوا، کالعدم لشکر جھنگوی نے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرلی۔حکام کے مطابق واقعہ صوبائی دار الحکومت کوئٹہ سے جنوب کی جانب تقریباً 35کلو میٹر دور کوئٹہ تفتان شاہراہ پر غنچہ ڈھوری کے مقام پر پیش آیا۔نامعلوم مسلح افراد نے کوئٹہ کے علاقے کرانی روڈ سے زائرین کو لے کر ایران جانے والی بس کو اسلحہ کے زورپرروک لیا۔ مسلح افراد نے بس میں گھس کر اسلحہ کے زور پر تمام مسافروں کو نیچے اتار نے کے بعد قطار میں کھڑا کرکے ان پر خود کار ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ کردی۔ فائرنگ کے نتیجے میں 26افراد جاں بحق اور 6سے زائد زخمی ہوگئے۔ اسسٹنٹ کمشنر مستونگ صلاح الدین نورزئی نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے زائرین نہیں بلکہ مزدور تھے جو مزدوری کے لیے ایران جارہے تھے۔انہوں نے بتایا کہ مستونگ کی حدود میں اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔بس کے ڈرائیور خوشحال خان نے بتایا کہ حملہ آور وں کی تعداد 8سی10تھی جن کے پاس کلاشنکوف ،راکٹ اور دیگر خود کار اسلحہ بھی تھا ، حملہ آور 2 گاڑیوں میں سوار تھے ، ایک گاڑی بس کے آگے آکر اچانک رک گئی اور دوسری ایک طرف کھڑی ہوگئی ، چند مسلح افرا دنے بس میں گھس کر زائرین کو نیچے اتارا ، مزاحمت کرنے والوں کو بس میں ہی سروں میں گولیاں مار کر قتل کیاگیا اور باقی تمام افراد کو نیچے اتار کر ان پر گولیاں برسائی گئیں،میں نے بھاگ کر جان بچائی۔ڈرائیور خوشحال نے بتایا کہ بس میں45افراد سوار تھے جن میں سے کچھ نے بھاگ کر جانیں بچائیں۔ویران علاقہ ہونے کی وجہ سے ملزمان اطمینان سے واردات کے بعد کوئٹہ کی طرف فرار ہوگئی، بس کی سیکورٹی کے لیے حکومت کی جانب سے انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔عینی شاہدین کے مطابق بس میں ہزارہ قبیلے کے علاوہ دیگر لوگ بھی سوار تھے تاہم حملہ آوروں نے صرف ہزارہ قبیلے اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایااور باقی کو چھوڑ دیا جو خوف کے مارے موقع سے بھاگ گئے۔ لیویز فورس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار واقعہ کے ڈیڑھ گھنٹے بعدموقع پر پہنچے اور علاقے کا محاصرہ کرلیا جبکہ واقعہ کے بعد کوئٹہ تفتان شاہراہ 2 گھنٹے تک آمدروفت کے لیے بند رکھی گئی۔لاشوں اور زخمیوں کو نجی گاڑیوں اور ایمبولینسوں کے ذریعے کوئٹہ کے بولان میڈیکل اسپتال منتقل کیاگیا جہاں ایمر جنسی نافذ کردی گئی۔اسپتال ذرائع کے مطابق مقتولین کو سروں اور سینوں میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا جبکہ زخمی ہونے والے افراد کی حالت بھی تشویشناک بتائی جاتی ہے۔جاں بحق ہونے والوں میں اکثریت کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے بتایا جاتا ہے۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی مقتولین کے لواحقین اور ہزارہ برداری سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد بولان میڈیکل اسپتال پہنچ گئی۔دریں اثناء4 واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد میتیں لانے کے لیے مستونگ جانے والے مقتولین کے لواحقین کی ایک گاڑی کو کوئٹہ کے علاقے مغربی بائی پاس پر اختر آباد کے قریب نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں گاڑی میں سوار 3 افراد مہدی، عزیز اللہ اور موسیٰ موقع پر ہی جاں بحق جبکہ عزیز احمد زخمی ہوگیا۔تینوں افرا دکی لاشیں اور زخمی کو بھی بولان میڈیکل اسپتال منتقل کردیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد بولان میڈیکل اسپتال میں بھی سیکورٹی انتظامات سخت کردیے گئے۔ سیکرٹری داخلہ بلوچستان نصیب اللہ بازئی نے بتایا کہ ایرا ن جانیوالے زائرین کو حفاظت کرنا حکومتی پالیسی کا حصہ ہے تاہم بس کی روانگی کی پیشگی اطلاع انتظامیہ کو نہیں دی گئی جس کے باعث اسے سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی اور یہ بس عملے کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ ادھر تحفظ عزاداری کونسل نے واقعی کی شدید مذمت کرتے ہوئی آج بدھ کو کوئٹہ میں شٹر ڈاون ہڑتال اور 7 روزہ سوگ منانی کا اعلان کیا ہی جبکہ شیعہ علماء کونسل ، مجلس وحدت المسلمین اور جعفریہ الائنس پاکستان نے بھی واقعی کی شدید مذمت کرتے ہوئے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا اور واقعی کو حکومت کی کمزوری اور سیکورٹی اداروں کی ناکامی قرار دیا۔ دوسری جانب صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئی جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت اور زخمیوں سے دلی ہمدردی کااظہار کیا ہے۔ مستونگ واقعہ کے خلاف بلوچستان کے مختلف علاقوں اور کراچی میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ۔

بلوچستان میں 230سے زائد افراد فرقہ واریت کانشانہ بنے

بلوچستان میں 2007ء سے اب تک فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں 230سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ریموٹ کنٹرول حملوں اور خودکش بم دھماکوں میں بھی درجنوں افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بلوچستان میں فرقہ ورانہ دہشتگردی کے واقعات گزشتہ 10 سال سے رونما ہورہے ہیں تاہم اس میں شدت 2003ء میں آئی۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یکم جنوری 2011ء سے 31جولائی2011ء4 تک فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے صرف 10واقعات میں41افراد ہلاک اور26زخمی ہوئے۔منگل کومستونگ میں بس پر فائرنگ کے نتیجے میں ہونے والی 26ہلاکتوں کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد67ہوجاتی ہے جبکہ اس دوران 31اگست 2011ء4 عید الفطر کے دن کوئٹہ کے گلستان ٹاون میں ہزارہ عیدگاہ پر خودکش حملہ بھی ہوا جس میں 10سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔گزشتہ سال فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے 17واقعات میں81افراد ہلاک اور192زخمی ہوئے۔ 2009ء4 میں 26واقعات میں39افراد ہلاک اور17زخمی ہوئے۔2008ء4 میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے 12واقعات میں 15افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ، 5افراد زخمی بھی ہوئے۔ 2007ء4 میں ٹارگٹ کلرز نی15واقعات میں32افراد کو گولیوں کا نشانہ بناکر قتل کیا ،36افراد زخمی ہوئے۔ مجموعی طور پر یکم جنوری2007ء4 سے 31 جولائی 2011ء4 تک فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں 230افرادہلاک اور252زخمی ہوئے۔

Leave a comment