Published On: Wed, Sep 14th, 2011

ڈینگی ، بارشیں ، سیلاب ، حکمران نااہل ہوں تو ایسے ہی عذاب آتے ہیں

Share This
Tags

کئی بڑے بادشاہوں اور حکمرانوں کی موت کا سبب مچھر بنا ، کرہ ارض پر ہر دوسرے انسان کی موت کا سبب ملیریا ہے

صابر شاہ
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ننھے مچھروں نے اپنے دور کے بعض طاقتور ترین انسانوں کو قبر میں پہنچا دیا جبکہ بعض لوگ بستر ہی کے ہوکے رہ گئے۔ تاریخ اسلام کے طلباء جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں بابل کے طاقتور بادشاہ نمرود کی موت کا سبب بھی ایک مچھر ہی تھا جو ناک کے راستے اس کے دماغ میں داخل ہوگیا تھا اور اسے برباد کر دیا تھا۔قصص الانبیاء میں ابن عباس کے حوالے سے رقم ہے کہ اللہ نے نمرود کے پاس ایک مچھر کو بھیجا جو اس کے ہونٹ پر بیٹھا اور جب نمرود نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی تو وہ اڑ کر اس کی ناک میں داخل ہوگیا نمرود نے اس سے نجات پانے کی بہت کوششیں کیں لیکن سب ناکام رہیں اور آخر مچھر اس کے دماغ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا خدا اسے 40روز تک ایذا پہنچاتا رہا اور آخر کار اس کی موت واقع ہوگئی۔ حضرت عبداللہ ابنِ عباس، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کزن تھے وہ اسلامی سنہ اور تفسیر القرآن کے حوالے سے مسلمانوں میں باعزت مقام رکھتے ہیں۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت عبداللہ ابنِ عباس کی والدہ ام الفضل لبابہ اسلام لانے والی دوسری خاتون تھیں۔ نیشنل جیوگرافک چینل کی جولائی 2007ء کی ویب سائٹ پر مچھر سے پھیلنے والی بیماری ملیریا کے بارے میں مکمل چیپٹر موجود ہے میں درج ہے مشہور یونانی فاتح سکندر اعظم کی موت بھی مچھر کے کاٹنے سے ہوئی تھی اس طرح تین امریکی صدر جارج واشنگٹن ابراہیم لنکن اور یولیسس گرانٹ بھی اپنی زندگی اس مرض میں مبتلا ہوئے۔ ویب سائٹ کے مطابق مشہور اطالوی شاعر دانتے بھی غالباً ملیریا سے ہی ہلاک ہوا تھا۔اٹھارہویں صدی کے آخر میں واشنگٹن میں ملیریا کے بچنے کیلئے اس وقت کے ایک ممتاز معالج نے شہر کے اوپر جالی کا ایک بڑا غلاف بنانے کی ناکام کوشش بھی کی تھی کہا جاتا ہے کہ امریکی خانہ جنگی میں یونین آرمی کے دس لاکھ افراد ملیریا کے سبب ہلاک ہوئے تھے جبکہ جنگ عظیم دوم میں ملیریا کے سبب ہونیوالی اموات اس جنگ کے سبب ہلاک ہونیوالوں سے زیادہ تھیں۔ بعض سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کرہ ارض پر ہر دوسرے انسان کی موت کا سبب ملیریا ہے۔ تاہم جہاں تک سکندر اعظم کا تعلق ہے تو تاریخ دانوں اور طبی تحقیق کے ماہرین اس کی موت کا سبب بعض دوسرے عوامل کو بھی قرار دیتے ہیں سکندر اعظم کی موت کے اسباب میں اگر چہ ملیریا یا ٹائیفائیڈ بخار کو بھی شامل کیا جا ر ہا ہے برطانیہ کے ا یک طبی جریدے میں 1998ء میں چھپنے والے ایک آرٹیکل میں اس کی موت کا سبب ٹائیفائیڈ بخار کے بگڑ جانے کو قرار دیا گیا ہے جس سے اس کاجسم مفلوج ہوگیا تھا اس کی موت کے دیگر عوامل میں لبلبے کی سوزش اور ویسٹ نائل وائرس کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ طبی جرائد کے مطابق ویسٹ نائل وائرس ایک مخصوص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے اور یہ ڈینگی وائرس کی طرح کا ہی ہوتا ہے علاوہ ازیں کثرت سے شراب نوشی اور دیگر عوامل بھی سکندر اعظم کی موت کا سبب سمجھے جاتے ہیں ان بیماریوں نے سکندر اعظم کو32سال کی عمر میں ہی موت کی راہ دکھائی 2009ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او ) کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سو برس میں ڈینگی وائرس سے 50ملین یعنی 5کروڑ افراد متاثر ہوتے ہیں جبکہ 2010ء میں ملیریا سے متعلق شائع ہونیوالی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال 225ملین افراد ملیریا میں مبتلا ہو جاتے ہیں اس طرح دنیا بھر میں سالانہ شرح اموات کا 2.23فیصد یعنی 7لاکھ 81ہزار افراد ملیریا سے ہلاک ہوتے ہیں 26ستمبر 2010ء کے سڈنی مارننگ ہیرالڈ میں شائع رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 25کروڑ لوگوں کو ملیریا ہوتا ہے ان میں کم از کم 10لاکھ افراد مر جاتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی عالمی ملیریا رپورٹ کے صفحہ نمبر 7پر درج ہے کہ اس بیماری سے 8لاکھ لوگ سالانہ لقمہ اجل بنتے ہیں۔ اسی رپورٹ کے صفحہ 14پر درج ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران انسداد ملیریا پر عالمی اخراجات میں بہت اضافہ ہوا ہے اور 2009ء4 میں انسداد ملیریا پر 1.5ارب امریکی ڈالر خرچ کئے گئے جبکہ 2010ء میں عالمی سطح پر اس مرض کی روک تھام کیلئے 1.8ارب امریکی ڈالر خرچ ہوئے لیکن یہ رقم 6ارب ڈالر کے لگائے گئے تخمینے کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ 2000ء میں ملیریاکیسز کی تعداد 233 ملین تھی جو 2005ء میں بڑھ کر 244ملین ہوگئی تاہم 2009ء4 میں اس میں کمی واقع ہوئی اور یہ کیسز گھٹ کر 255ملین ہوگئے۔ اسی طرح 2000ء میں ملیریا سے 9لاکھ 85ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد 2009ء میں گھٹ کر 7لاکھ 81ہزار ہوگئی ہے۔اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل کا کہنا ہے کہ جب حکمران نکمے ہوں اور ہر طرف لوٹ مار کا عالم ہو تو ایسے ہی عذاب آتے ہیں ۔

Leave a comment