Published On: Wed, Nov 5th, 2014

ججوں کا ’’مرسڈیزکلب‘‘

سابق چیف جسٹس نے صرف 25لاکھ میں سرکاری مرسڈیز خریدلی

ایسا نظر آتا ہے کہ عدلیہ کے اعلیٰ عہدیداران دیگر حکومتی مشینری کے مقابلے میں اپنے اسٹیٹس کے بارے میں زیادہ شعور رکھتے ہیں جب ہی گزشتہ چند ماہ کے دوران دو سابق چیف جسٹس صاحبان اور ایک لاء آفیسر نے اپنے لیے مرسڈیز گاڑی کے حصول کی کوشش کی۔
اب اس مرسڈیز کلب میں نیا اضافہ سابق وفاقی شرعی عدالت(ایف ایس سی) کے چیف جسٹس آغا محمد رفیق احمد خان کی شکل میں ہوا ہے جو ایک آفیشل مرسڈیز کے حصول میں کامیاب ہوگئے ہیں جو درحقیقت اہم شخصیات کی پروٹوکول ڈیوٹی کے لیے وقف تھی۔
دستاویزات کے مطابق اس اٹھارہ سو سی سی مرسڈیز جو آغا رفیق کے زیراستعمال ہے، کی قیمت ساٹھ لاکھ روپے ہے، تاہم شرعی عدالت کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کرنے والے آغاز رفیق اسے محض پچیس لاکھ روپے کے عوض خریدنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
وزارت قانون و انصاف نے حال ہی میں ایف ایس سی سے کہا تھا کہ وہ وضاحت کرے کہ کس طرح سابق چیف جسٹس آفیشل گاڑی کی خریداری کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
قبل ازیں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دسمبر 2013 میں اپنی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل اپنی آفیشل بلٹ پروف مرسڈیز کے حصول کی کوشش کی تھی تاہم کابینہ ڈویڑن نے ا س درخواست کو مسترد کردیا تھا کیونکہ اس کے حقدار نہیں تھے، جس پر سابق سی جے پی کے ایک قریبی دوست نے اسلام آباد ہائیکورٹ(آئی ایچ سی) میں درخواست دائر کرکے جسٹس ریٹائرڈ افتخار چوہدری کو بلٹ پروف گاڑی کی فراہمی کا مطالبہ کیا، کابینہ ڈویڑن نے عدالتی احکامات کے تحت رواں برس جنوری میں سابق چیف جسٹس کے لیے یہ گاڑی فراہم کردی تھی۔
اس کے بعد اگست میں وزیراعظم نواز شریف نے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کے لیے ایک بلٹ پروف مرسڈیز خریدنے کی منظوری دی، حالانکہ قوانین کے تحت وہ اس کے مستحق نہیں تھے، تاہم بعد میں سلمان بٹ اس درخواست سے دستبردار ہوگئے۔
جسٹس ریٹائرڈ آغا رفیق کے معاملے میں وزارت قانون نے گیارہ ستمبر کو ایف ایس سی رجسٹرار سے یہ وضاحت طلب کی\’اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ کیا وفاقی شرعی عدالت نے کابینہ ڈویڑن کی منظوری سے آفیشل گاڑی (رجسٹریشن نمبر) ایف ایس۔007 کم قیمت میں شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس آغا رفیق احمد خان کو فروخت کی ہے یا نہیں۔
ریٹائرڈ چیف جسٹس نے ایف ایس سی میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر چار جون 2014 تک خدمات سرانجام دیں، اپنے کنٹریکٹ کی مدت ختم ہونے سے پہلے انہوں نے آفیشل مرسڈیز کم لاگت پر اپنی ملکیت میں لینے کی منظوری کی درخواست دی تھی۔agha-m-rafiq
ایف ایس سی کے ایڈیشنل رجسٹرار نے آٹھ جنوری 2014 کو ایک خط وزارت قانون کو ارسال کیا اور اس معاملے پر رائے طلب کی۔
وزارت قانون کے قانونی مشیر اعظم وڑائچ نے21 مارچ کو جواب میں کہا کہ اگرچہ جسٹس آغا رفیق کو ایف ایس سی چیف جسٹس کے عہدے پر کنٹریکٹ کی بنیاد پر تعینات کیا گیا ہے، تاہم چیف جسٹس یا وفاقی شرعی عدالت کا کوئی اور جج ریٹائرمنٹ کے بعد کسی قسم کی مراعات کا حقدار نہیں، جس میں کم لاگت پر گاڑی کی خریداری بھی شامل ہے\”۔
اس کے بعد تین اپریل کو لکھے جانے والے ایک اور خط میں وزارت قانون کے ایک سیکشن آفیسر نے واضح طور پر کہا کہ کم قیمت پر آفیشل مرسڈیز خریدنے کی درخواست کسی بھی طرح منظور نہیں کی جاسکتی۔
اس اثناء میں جسٹس رفیق نے یہ معاملہ ججز کمیٹی کے پاس بھجوا دیا جو جسٹس فدا محمد خان اور جسٹس شیخ احمد فاروق پر مشتمل ہے۔
اس کمیٹی نے غور کرنے کے بعد کہا:’’ وفاقی شرعی عدالت کا ہر جج اس کی مدت ملازمت سے قطع نظر کم قیمت میں ایک آفیشل گاڑی خریدنے کا حق رکھتا ہے۔‘‘
سترہ جولائی کو وزارت قانون نے ایف ایس سی رجسٹرار کو ایک خط ارسال کیاجس میں کہا گیا کہ’’ بادی النظر فل کورٹ میٹنگ میں کیا جانے والا فیصلہ نہ صرف مستقل احکامات کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ اس وزارت کی قانونی ذمہ داری کو رد کرنا بھی ہے جو تین اپریل کو اپنے ایک خط میں واضح کرچکی ہے۔‘‘
ایف ایس سی ذرائع نے بتایا کہ ابتدا میں 2009 میں ایک چوبیس سو سی سی مرسڈیز کو پروٹوکول گاڑی کے طور پر خریدا گیا تھا۔ان کا دعویٰ تھا کہ اس حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے گاڑی کو کم لاگت میں فروخت نہیں کیا جاسکتا۔
ایف ایس سی کے موجودہ چیف جسٹس سردار محمد رضا خان نے بھی اس معاملے سے آگاہ ہونے کے بعد تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ کو آڈٹ کرانے کا کہا ہے۔ رابطہ کرنے پر جسٹس ریٹائرڈ آغا رفیق نے کہا کہ وہ اس معاملے پر بات نہیں کرسکتے تاہم انہوں نے تفصیلات کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے رجسٹرار سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ ایف ایس سی رجسٹرار بنیامین سے کئی بار کوشش کے باوجود رابطہ نہیں ہوسکا، تاہم عدالت کے ڈپٹی رجسٹرار جاوید اقبال نے بتایا کہ بطور چیف جسٹس آغا رفیق کے پاس’’ اختیارات‘‘ تھے کہ وہ کم لاگت پر ایک مرسڈیز گاڑی خرید سکیں۔
لاہور: نیوز ڈیسک

Leave a comment