Published On: Wed, Jun 22nd, 2011

سلیم شہزاد کا قتل،پاکستان کی سرزمین پر شیطا ن دندناتے پھر رہے ہیں

Share This
Tags

کبھی کبھار عیاں سچائی اور عریاں حقیقت بہت خطرناک بن جاتی ہے، جنہوں نے سچائی جاننے کی دلیرانہ کوشش کی تھی ان کی ہم نے کوئی قدر نہیں کی،لیکن سچائی اور سلیم شہزاد جیسے جرنلسٹوں کو دفن کردینے سے نہ تو پاکستان محفوظ بنے گا اور نہ ہی مضبوط۔

 

اندھیر اجیسے جیسے پھیل رہا ہے تو جذبات میں بھی شدت پیدا ہورہی ہے ۔سلیم شہزاد ایک خاموش طبع اور اپنے آپ میں گم رہنے والا انسان تھا۔اس لیے اس موقع پر اس کی کوئی مدح سرائی نہیں ہو گی۔اس کی مدح سرائی کیلئے کی موزوں اور مناسب مواقع آئیں گے۔مختصر یہ کہ اس وقت تو ساری فکر مندی اس کے تین کمسن بچوں اوراس کی فیملی کے بارے میں ہے۔
سلیم شہزاد کا قتل ایک شدید صدمہ ہے ۔اس لیے بھی کہ اس کے قتل کی وجوہات بتائی گئی وجوہات سے کہیں بڑھ کر گھناؤنی اور ضرررساں ہیں ۔پہلی بات تو یہ کہ کسی کے بھی شان وگمان میں یہ بات نہیں تھی کہ وہ سلیم شہزاد کوہلاک کر ڈالیں گے۔جب اس کے لاپتہ ہوجانے کی خبر پھیل گئی اور گہری تشویش جرنلسٹ برادری کو ہوگئی تو ابتدائی رد عمل یہ تھ اکہ وہ سلیم شہزاد کو چند دنوں میں اپنی تحویل میں رکھیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس کو زدو کوب بھی کریں اور پھر اس کو رہا کر دیں۔ایسا نہیں تھا کہ ان کے لیے قتل کی کوئی صوابدید نہیں تھی لیکن ایسا نہیں لگتا تھا کہ اسلام آباد کے اہم ترین حصے میں سلیم شہزاد کودبوچ لینے کے بعد وہ اس کا قتل کردیں گے۔ویسے وہ سبھی موت کا نشانہ بنے جنہیوں نے قبائلی اور دیگر خطرناک علاقوں میں اپنی فعالیت کے مظاہرے کئے۔اسلام آباد کے تعلق سے تو تصور تھا کہ وہ ایک اچھا اور نہایت محفوظ علاقہ ہے۔دوسری بات یہ کہ سلیم شہزاد کی مین سٹریم میڈیا سے کوئی وابستگی نہیں تھی۔لیکن وہ اپنی لگن اور دھن کے مطابق کام کرنے میں پکا تھا۔وہ جنگجو ئیت کے ہر پہلو سے بخوبی واقفیت رکھتا تھا۔پھر بھی مین اسٹریم میڈیا سے اس نے کوئی تعلق نہیں رکھا۔وہ یکے بعد دیگرے سنسنی خیز انکشافات کرتا رہا۔اس لیے وہ ایڈیٹرز اور بڑے بڑے میڈیا اداروں کے نیوز ڈائرکٹرز کے ذہنوں پر چھایا رہا۔بسا اوقات اسکی رپورٹنگ کے تعلق سے کچھ شکوک شہبات کا اظہار بھی کیا جاتا تھا۔
سلیم شہزاد نے جو آخری رپورٹنگ کی وہ ایڈیٹرزاور نیوز ڈائریکٹرز کے اظہار کردہ شکوک وشبہات کی آئینہ دار ہے ۔رپورٹ میں یہ بتایا گیا تھا کہ بحریہ کے مہران اڈے پر حملے کے لیے سہولتیں بحریہ نے فراہم کی تھیں ۔یہ بات بہت سوں کو معقول سی لگی کیوں کہ کئی مہینوں سے ایسی افواہیں زوروں سے گشت کر رہی تھیں کہ انٹیلی جنس اداروں نے جہادی گروپوں سے تعلق اور ربط ضبط رکھنے کی بنا پر بحریہ کے کئی ملازمین کو پکڑ لیا ہے۔لیکن راز کا پردہ ایسا سخت تھا کہ جنگجوؤں کے پختہ کار سراغ بھی اس تعلق سے کوئی خاص معلومات حاصل نہ کرسکے۔
شہزاد سلیم کی آخری رپورٹنگ نہایت معقول اور مبسوط تھی ۔اس کی رپورٹنگ کے سبب راز کے کئی پردے چاک چاک ہوگئے ۔جوراز کے مواد سے بخوبی واقف تھے۔ان کی بھنویں چڑھ گئیں۔ اگر چہ پاکستان میں اور بین الاقوامی سطح پر سلیم شہزاد کی اس رپورٹنگ کو کوئی وقعت اور کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور ایک عام تاثر یہ تھا کہ اس رپورٹ کے دوسرے حصے کو بھی کوئی وقعت ‘کوئی اہمیت نہیں ملے گی۔
تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ سلیم شہزاد جسے سنسنی خیز انکشافات کو کبھی کوئی وقعت، کوئی اہمیت نہیں دی گئی تو پھر اس کو آخر کیوں اسلام آباد کے وسطی علاقے میں دبوچ کر غائب کر دیا گیا پھر اس کو شدید اذیتیں دے کر ہلا ک کر دیا گیا ۔کیااس کی رپورٹ کا دوسرا حصہ واقعی ’’دہشت انگیز‘‘ تھا ؟ اگر وہ ’’دہشت انگیز‘‘ نہیں تھا تو کیا وہ ’’تہلکہ انگیز‘‘تھا؟
ہم پہلے ہی یہ جان سکتے ہیں کہ ہم کبھی بھی سلیم شہزاد کو قتل کیے جانے کی وجوہات سے واقف نہ ہوپائیں گے ۔یا یہ کہ سلیم شہزاد کا قتل ارادی تھایا ارادی نہیں تھا۔(آخر قاتلوں کو کیوں شک کا فائدہ دیا جائے) نتائج وعواقب کتنے سنگیں ہوں گے ؟اس کا قیاس آسانی سے کیا جاسکتا ہے ۔تنقید کی آزادی تو برقرار رہے گی ۔شہزاد سلیم کی لاش مل جانے کے بعد کی جانے والی تنقیدوں سے یہ صاف عیاں ہے جہاں تک سکیورٹی کا معاملہ ہے اس کی ہولناک کمزوری اور بے بسی تو دو مئی کوصاف نظر آگئی ۔اس لیے میڈیا میں چھان بین کے لیے بہت کچھ گنجائش نکل آئے گی ۔ان دوستوں کی بھی خیر نہیں جو کہ سیل فونز اور انٹرنیٹ پر بہت گپ شپ کرتے رہتے ہیں۔پھر بھی سکیورٹی کی حالت کا بہت گہرائی سے دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔اگر چہ کہ یہ عمل بڑی ہچکچاہٹ سے کیا جائے گا۔کم سے کم کچھ وقت کے لیے تو عمل ضرور ہو گا۔ایڈیٹرسزاور نیوز منیجرز کے لیے یہ لازم ہو گا کہ وہ اپنے اپنے رپورٹرز کی پھر سے اچھی طرح چھان بین کر لیں کہ کوئی رپورٹر نئے رحجان پر یا سلیم شہزاد کے نقش قدم پر ہے یا نہیں ۔یا سلیم شہزاد کے قتل پر ہی سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو گیا ۔جو زیادہ دلیر اور جیالے ہیں وہ تو اپنی ڈگر پر آگے بڑھیں گے لیکن انہیں شدید غیض وغضب کا نشانہ بننا پڑے گا۔کسی ایڈیٹر کو قائل کرنے کے لئے ذریعہ معلوم کرنے کا ایک ہی حوالہ دینا کافی تھا، اب معلومات کے ذرائع کے کئی حوالے دینے پڑیں گے ۔غیض وغضب سے بچنے کا صرف ایک ہی محفوظ طریقہ یہ ہو گاکہ جو معاملہ عوام کی اکثریت میں بحث کا موضوع بن گیا ہو بس اس معاملے کی رپورٹنگ کر دی جائے۔ بہر کیف چند کہانیوں کی بہت کچھ کانٹ چھانٹ ہوگئی۔اب تو امریکن ڈرون حملوں کی گونج زبردست ہے ۔سیاسی طور پر یہ حملے شاید متنازعہ بن گئے ہیں ،لیکن کوئی بھی یہ کوشش نہیں کررہا ہے کہ وہ ان ڈرون حملوں کی اصل غرض وغائب بتا دے ۔لیکن 2005ء میں ایسا نہیں تھا۔اس زمانے میں حیات اللہ خان نے امریکی ساختہ میزائل کا ایک ٹکڑا عام مشاہدے کے لیے پیش کر دیا تھا۔جس میزائل سے شمالی وزیرستان میں القاعدہ کا ایک رکن ہلاک ہوگیا تھا۔اس واقعہ کے دوسرے دن حیات اللہ خان اغواء ہو گیا۔پھر کوئی چھ مہینے بعد اس کی لاش میران شاہ مارکیٹ میں پڑی ہوئی ملی تھی۔ڈرون طیارے چونکہ میزائل داغتے رہتے ہیں اس لیے طویل عرصے تک کسی واقعہ کو چھپانا ناممکن بن جاتا ہے ۔ذراغور کریں کہ اگر حیات اللہ خان کوئی دوسرا انکشاف او روہ بھی ایسے کہ اس انکشاف کے بعد اس کا کوئی سراغ نہ مل سکے تو پھر کون اس کے لاپتہ ہوجانے کے بعد پاتال میں اتر کر اسے دبوچ لاتا؟
آج کے دن تک حیات اللہ خان کے ساتھی یہ نہیں جان سکے کہ حیات اللہ خان کو کس نے ہلاک کیا ۔جنگجوئیت کے اسباب کا کھوج لگانے والے جرنلسٹ بسا اوقات اپنے آپ کو چکی کے دوپاٹوں کے ییچ پھنسا ہو ا پاتے ہیں ۔ایک پات جنگجوؤں کا اور دوسرا پات سکیورٹی اداروں کا ہوتا ہے ۔جنگجوئیت کی اس گدلی دنیا میں کوئی جتنا نفوذکرے گا اس کے لیے یہ جاننا مشکل ہو گا کہ کون جنگجوؤں کا ساتھی ہے اور کون مخبر ہے اور کیا جنگجوؤں کا کوئی معاون واقعی طور پر معاون ہے ؟
وہ جو کہ حیات اللہ خان اور دیگر کئی لوگوں کی ہلاکت کے بعد رپورٹنگ کے کاروبار میں اب بھی ڈوبے ہوئے ہیں ان کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ جنگجوؤں او رسکیورٹی اداروں دونوں سے ایک فاصلہ برقرار رکھیں۔انفرادی سطح پر دل ودماغ نشانہ بنے لوگوں اور ان کے لوگوں کے خاندانوں کے لیے تڑپ اٹھتی ہے ۔لیکن مملکتی اور سماجی سطح پر میں اور آپ مستقل نقصان سے دوچار ہیں، پاکستان کے عوام مستقل نقصان سے دوچارہیں کیوں کہ سچائی کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ایسے وقت میں جب کہ پاکستانی سرزمین پر فی الواقعی حقیقی شیاطین دندناتے پھر رہے ہیں ہم میں سے زیادہ تر صرف ایسے ان شیاطین کے سایوں کا تعاقب کر رہے ہیں، کیونکہ جنہوں نے سچائی جاننے کی دلیرانہ کوشش کی تھی ان کی ہم نے کوئی قدر نہیں کی۔ہاں کبھی کبھار عیاں سچائی اور عریاں حقیقت بہت خطرناک بن جاتی ہے ۔لیکن سچائی اور سلیم شہزاد جیسے جرنلسٹوں کو دفن کردینے سے نہ تو پاکستان محفوظ بنے گا اور نہ ہی مضبوط۔

Leave a comment