Published On: Wed, Jun 22nd, 2011

سلیم شہزاد کے قتل سے زیادہ ان کی ایذارسانی ایک پیچیدہ معمہ ہے

Share This
Tags

شہزاد کے بے رحمانہ قتل کے لیے چاہے کوئی بھی ذمہ دار ہو ، ا یک بات طے ہے کہ شہزاد سچائی کو بے نقاب کرنے والے آخری صحافی نہیں تھے ‘پاکستان میں ایسے کئی صحافی ہیں جن کا عزم ہے کہ ’’سچائی ‘‘ نام نہاد و قومی مفاد سے بالا ترہے۔

عامر میر
پاکستان کی مشتبہ دنیا میں صحیفہ نگاروں کو واجبی طور پر یہ یقین ضرور رہتا ہے کہ وہ دوسرے دن صبح اس وقت زندہ رہیں گے جب تک اخبارات میں ان کے مضامین کے ساتھ ان کے نام نہیں طبع ہوجاتے۔اس کے بعد پتہ نہیں ان کی کونسی رپورٹ یا مضمون سے کوئی اپنی ہتک محسوس کرے اور انہیں اغوا کر لے۔انہیں اذیت پہنچائے اور حتیٰ کہ قتل کر ڈالے۔
سید سلیم شہزاد کی المناک کہانی کی یہی روح ہے ۔جن کی مسخ شدہ لاش31مئی کو اسلام آباد سے 150کیلومیٹر دور ایک نہر کنارے پائی گئی۔شہزاد 29 مئی کی شام اپنے ایک مضمون کی اشاعت کے دو روز بعد جس کا عنوان تھا ’’القاعدہ کی پاکستان پر ضرب لگانے کی دھمکی ‘‘ لاپتہ ہو گئے تھے ۔اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ القاعدہ سے تعلقات رکھنے کے الزام میں بحریہ کے جو افسر قید ہیں ۔ان کی رہائی کیلئے پاکستانی بحریہ سے بات چیت ہو رہی ہے۔شہزاد نے اپنی کہانی میں دعویٰ کیا تھا کہ 22مئی کو کراچی میں واقع مہران بیس پر ہونے والا خوفناک حملہ پاکستانی بحریہ اور القاعدہ کی بات چیت کی ناکامی کا نتیجہ تھا۔جس سے فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان گہرے تعلق کا ثبوت بھی ملتا ہے۔
شہزاد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ جسے ڈاکٹروں کی سہ رکنی ٹیم نے تیار کیا ہے۔اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ شہزاد کو اغوا کرنے کے فوری بعد قتل کر دیا گیا ۔ڈاکتر فرخ کمال جو اس ٹیم کے سربراہ ہیں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ چند گہرے گھاؤ سمیت شہزاد کے جسم پر کم از کم 17زخم تھے ۔داہنی اور بائیں پسلیوں پر ایسا لگتا تھا کہ کسی کند چیز سے پوری طاقت کیساتھ ضرب لگائی گئی ۔ٹو ٹی ہوئی پسلیاں شہزاد کے پھیپڑوں کے آر پار ہو گیں جن سے ظاہر ہے ان کی موت وا قع ہو گئی ۔‘‘سب سے اہم سوال یہ ہے کہ شہزاد کو کس نے اذیت پہنچائی ؟ سوال یہ نہیں ہے کہ انہیں کس نے قتل کیا؟ایک مکتبہ خیال نے آئی ایس آئی پر شہزاد کو ایذا پہنچانے کا الزام لگایا ہے تاکہ ان سے ان کے مضمون کے ماخذ کا ٹھیک ٹھیک پتہ معلوم کیا جاسکے۔تاہم آئی ایس آئی نے اس الزام کی تردید کی ہے اور اس سلسلے میں ایک بیان بھی جاری کیا ہے ۔دوسرے مکتبہ خیال کا کہنا ہے کہ عسکریت
پسندوں نے آئی ایس آئی کو پریشان کرنے کے لیے ہی شہزاد کو شدید زخمی کر دیا ۔بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شہزاد کو ذاتی مخاصمت کے باعث زخمی گیا اور پھر اس کی موت ہو گئی۔سب سے پہلے جس نے آئی ایس آئی پر غصہ اتارا ، وہ ہیومن رائٹس واج کے علی دیان حسن ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بعض معتبر ذریعوں سے انہیں اطلاع ملی ہے کہ آئی ایس آئی نے انہیں حراست میں لیا تھا ۔لیکن آئی ایس آئی کے خلاف علی دیان حسن کی زبانی لڑائی حقیقت میں اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے یہ انکشاف کی اکہ 17اکتوبر2010ء کو شہزاد کو انفارمیشن مینجمنٹ ونگ(آئی ایم ڈبلیو) کی جانب سے اسلام آباد میں آئی ایس آئی کے صدر دفتر میں طلب کیا گیا تھا ۔آئی ایم ڈبلیو ‘شہزاد سے ان کی اس وقت کی ایک رپورٹ پر بحث کرنا چاہتی تھی ۔جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ افغان طالبان کے امیر ملا عمر کے دست راست ملابرادر کو خاموشی کے ساتھ رہا کر دیا گیا ہے تاکہ وہ پاکستانی فوج کے تحت افغانستان کے مذاکرات میں حصہ لے سکیں۔آئی ایس آئی کے صدر دفتر میں اس وقت صرف بحریہ کے دو عہدیدار موجود تھے ۔جنہوں نے نہایت ہی شائستگی کے ساتھ شہزاد سے درخواست کی تھی کہ وہ اس رپورٹ کے ماخذ کا نام بتادیں یا کم از کم اپنی رپورٹ کی تردید کردیں ۔جب انہوں نے انکار کر دیا تو ان میں سے ایک افسر نے شہزاد کو مطلع کیا کہ زیر حراست دہشت گردوں کے پاس سے ایک ہٹ لسٹ برآمد ہوئی ہے اگر اس میں ان کا نام شامل ہو گا تو وہ افسر انہیں اس کی اطلاع دے دے گا۔شہزاد نے اسے ایک دھمکی تصور کیا اور اسے احتیاط کا تقاضہ سمجھ کر ایچ آر ڈبلیو کے نمائندے کو 18اکتوبر2010ء کو ایک ای میل کے ذریعہ مطلع کر دیا ۔یہ افواہیں بھی سرگرم ہیں کہ 2010ء کی اس ملاقات میں دوسرے فوجی عہدیدار کموڈور خالد پرویز تھے۔جنہیں 22مئی کے حملے کے چند ہی دن بعد مہران بیس کا نیا کمانڈر مقرر کیا گیا ۔
معروف صحافی نجم سیٹھی نے ان بھڑکیلی چہ مگوئیوں کو اس وقت ایک نیا موڑ دیا ۔انہوں نے کہا کہ ’’جس انداز میں شہزاد کا قتل کیا گیا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ ایہ ایجنسیوں کی کارستانی ہے ‘‘۔ شیٹھی کا خیال تھا کہ شہزاد کو اغوا کرنے والے ان کے جسم کی کمزوری سے وقف تھا تھے۔شہزاد پر گزشتہ سال گولی چلائی گئی تھی اور ایک گولی ان کی بائیں پسلی کے قریب پیوست ہوگی تھی ۔ان کے اغوا کندگان انہیں سبق سکھانا چاہتے تھے ۔انہیں علم نہیں تھا کہ ان کے زود کوب کرنے سے شہزاد کی قوت برداشت سابق زخم کی وجہ سے جواب دے دے گی ۔وہ انہیں قتل کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ایک اور مکتب خیال کا کہنا ہے کہان شہبات میں دم ہے مگر ان کا مفروضہ غلط ہے ۔شہزاد کو ضروری نہیں کہ آئی ایس آئی ہی ایذا پہنچائے ۔انہیں کوئی بھی اذیت دے سکتا تھا ۔پاکستان کے وزیرداخلہ رحمن ملک کا کہنا ہے کہ ان کا قتل ذاتی دشمنی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے ۔شہزاد پر سال ماضی ایک سکیورٹی گارڈ نے دھینگا مشتی میں گولی چلادی تھی جسے گرفتار بھی کر لیا گیا تھا مگر شہزاد نے اسے معاف کر دیا تھا ۔اور اسے رہا بھی کر دیا گیا تھا ۔ایک تیسرا مکتبہ خیال ہے کہ ا نتہا پسندوں نے آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کے لیے شہزاد کو ہلاک کیا ہوگا۔مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ شہزاد کے انتہا پسندوں کی دنیا سے بہت ہی قریبی تعلقات تھے ۔وہ سوال کرتے ہیں کہ شہزاد کی ہلاکت سے کیا انتہا پسندوں نے ایسا صحافی نہیں کھو دیا جس پر وہ بھروسہ کیا کرتے تھے کہ وہ ان کے خیالات کی رپورٹ دیا کرتا ہے۔جس دن شہزاد کو اغواء کیا گیا تھا اس دن یعنی 29مئی کی شب کو شہزاد کی اہلیہ کو ایک کال موصول ہوئی تھی جس میں انہیں تسلی دی گئی تھی کہ انہیں فکر مند ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ان کے شوہر صبح رہا کر دئیے جائیں گے ۔جو لوگ پاکستانی ایجنسیوں پر شک کرتے ہیں اس گمنام ٹیلی فون کال کا حوالہ دیتے ہیں ۔
شہزاد کے بے رحمانہ قتل کے لیے چاہے کوئی بھی ذمہ دار ہوا یک بات طے ہے کہ شہزاد سچائی کو بے نقاب کرنے والے آخری صحافی نہیں تھے ‘پاکستان میں ایسے کئی صحافی ہیں جن کا عزم ہے کہ ’’سچائی ‘‘ نام نہاد و قومی مفاد سے بالا ترہے۔

Leave a comment