Published On: Fri, Apr 22nd, 2011

عرب میں انقلاب،القاعدہ کیاسوچ رہی ہے؟تنظیم کی پالیسیوںمیںتبدیلیوںپرغور

القاعدہ کے موجودہ نظریہ ساز اور عسکری حکمت عملی تیار کرنے والے
ابو یحییٰ الیمی اب لیبیا میں القاعدہ کے جنگجوؤں کو یکجا کرنے کی کوشش کر
رہے ہیں
القاعدہ نے شمالی افریقہ کے علاقوں پس منظر میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا
لیکن لیبیا میں سرگرم کردار ادا کرنے کا اس کا ارادہ سابقہ فیصلہ کے برعکس ہے

سید سلیم شہزاد
لیبیا میں ہونے والی سیاسی کشش جو تیزی کے ساتھ خانہ جنگی میں تبدیل ہوچکی ہے اس نے واضح طور پر لیبیا کے معاشرے کو مغرب کو ایک طرف موافق قذافی بلاک اور دوسری طرف بن غازی کے اور اسکے اطراف و اکناف کے باغیوں کے مشرقی علاقہ میں بانٹ دیا ہے۔
لیبیا میں ہونے والی بے چینی کی جڑ حقیقتاً آزاد اور سیکولر ہے جیسے تیونس اور مصر میں پائی گئی تھی۔ اس نے مذہبی سیاسی طاقتوں کے لئے حرکت میں آنے کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔عالم عرب کے اس پرآشوب دور میں القاعدہ صرف ایک تماشہ بین بن کر رہ گئی ہے۔ تا ہم وہ موقع ہی جھپٹ پڑنے کے لئے پر تول رہی ہے تا کہ وہ بھی لیبیا میں ہونے والی سرگرمیوں کا ایک حصہ بن جائے۔ ایک طرح سے لیبیا میں القاعدہ کا موقف بھی مغربی ممالک جیسا بن گیا ہے۔ ان میں سے بعض ممالک لیبیا میں ہمہ تن مداخلت کے لئے اپنے آپ کو تیار کر رہے ہیں۔ چاہے یہ مداخت قذافی کے لڑاکا طیاروں اور بم اندوزوں سے باغیوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ’’عدم پرواز منطقہ‘‘ کے نفاذ کی صورت میں کیوں نہ ہو۔القاعدہ کے لیبیا کے سب سے طاقتور گروپ الجمع المقاتلہ کے عسکریت پسند لیبیائی ارکان کے بیان کے بموجب جو پاکستان کے شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقہ میں خیمہ زن ہیں انہیں اس لڑائی میں نظر انداز کر دئیے جانے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ القاعدہ کو لیبیا کی مسلح حزب مخالف کوایک نظریاتی اساس فراہم کرنے کے لئے یہاں مداخلت کی ضرورت ہے اور اس طرح مغرب نواز احتجاجیوں کے ہاتھوں میں لیبیا کی صورتحال کو جانے سے روکا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت جب کہ مغربی ممالک کسی ایسے موقع کی تلاش میں ہیں کہ جس سے فائدہ اٹھا کر آزاد خیال اور سیکولر طاقتوں کو وہاں مستحکم کر دیا جائے چاہے اس کے لیے لیبیا میں انہیں راست فوجی مداخلت کیوں نہ کرنی پڑ جائے۔الجمع لمقاتلہ کے اکثر ارکان کا تعلق بن غازی علاقہ سے ہے اور افغانستان میں سرگرم القاعدہ کے بعض لڑاکا دستوں کو اس نے چند بہترین کمانڈر بھی فراہم کئے ہیں۔ 2008 ء میں ریڈیائی طیاروں( ڈرون) کے حملے میں شہید ہونے والے ابولیٹ الیمی بھی ان میں شامل ہیں جنہوں نے 1994 ء میں قذافی کے خلاف ناکام بغاوت کی قیادت کی تھی۔عسکریت پسندوں کی کیمپوں میں موجود رابطوں نے بتایا کہ القاعدہ کے موجودہ نظریہ ساز اور عسکری حکمت عملی تیار کرنے والے ابو یحییٰ الیمی اب لیبیا میں القاعدہ کے جنگجوؤں کو یکجا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اس اضطراب انگیز ماحول میں ضرورت پڑنے پر مضطرب گروہوں میں شامل ہو جائیں۔ ابو یحییٰ کا تعلق بن غازی سے ہے اور انہوں نے یمن اور صومالیہ میں القاعدہ کے جنگجوؤں کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حالانکہ اس وقت وہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرگرم تھے۔
یحییٰ 2005 ء میں باگرام میں امریکی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے اور حالیہ عرصہ میں ان کا شمار القاعدہ کے اہم ترین قائدین میں ہونے لگا تھا اور اب وہ اسامہ بن لادن اور ان کے نائب ڈاکٹر ایمن اظواہری کی غیر موجودگی میں اہم فیصلوں کی صدارت کرتے ہیں۔
رواں سال کے اوائل میں شمالی افریقہ کے علاقوں میں جب بے چینی پھیلنے لگی تو القاعدہ نے ایسے موقع پر پس منظر میں رہنے کا ابتداء میں فیصلہ کیا تھا لیکن لیبیا میں سرگرم کردار ادا کرنے کا اس کا ارادہ سابقہ فیصلہ کے برعکس ہے۔القاعدہ نے لیبیا میں اسلام پسند طاقتوں کے مقابلہ میں اسلامی تحریکوں کے موقف کو مستحکم کرنا چاہتی ہے اور جب لیبیا میں پوری طرح خانہ جنگی ناگزیر ہو جائے تو وہ ایسے وقت اپنے آپ کو درکنار کرنا نہیں چاہتی۔لیبیا میں القاعدہ سرگرم رول ادا کرنے کی کوشش ضرور کرے گی اور اسلام پسند جماعتوں کے ساتھ مل کر عوام میں بیداری پیدا کرے گی لیکن اپنی سرگرمیوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو شامل نہیں کرے گی جو گزشتہ برسوں میں اس کی کارروائیوں کا خاصہ رہی ہیں۔اس سے القاعدہ کے فلسفہ میں ایک بنیادی تبدیلی کی نشاندہی ہوتی ہے جس کی ابتداء گزشتہ سال ہوئی جب اس کے نظریہ ساز قائد سلیمان ابو غیث جنہوں نے ’’جہاد کے لئے درکار 20 رہنما یا نہ خطوط‘‘ جیسا کہ مقالہ لکھا جو موافق القاعدہ ویب سائٹ پر شائع کیا گیا۔ غیث نے القاعدہ کی ’’اکیلے آگے بڑھنے کی پالیسی‘‘ پر نکتہ چینی کی۔ انہوں نے 11 ستمبر 2001 ء کو امریکہ پر حملوں پر بھی تنقید کی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دنیا کی دیگر اسلامی تنظیموں سے ناطہ توڑ لینے کے فیصلہ سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ انہوں نے پر زور انداز میں کہا کہ اس فیصلہ سے القاعدہ مسلم معاشرے سے بالکل کٹ گئی۔ یہ مقالہ اس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گیا جب سیف العادل نے اسی ویب سائٹ کے لئے جنوری میں ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے القاعدہ پر زور دیا کہ وہ عالم عرب کی اسلامی سیاسی جماعتوں کی تائید کرے اور انہوں نے اسلامی ماہرین اور علماء سے کہا کہ وہ ایسی جماعتوں پر اعتراض کرنے سے پرہیز کریں۔القاعدہ کے ان دونوں نظریہ سازوں نے عالم اسلام کے سواد اعظم تک القاعدہ کی فوری رسائی پر زور دیا اور اس کے لیے عالم اسلام کے معاشرے، دانشوروں اور اسلامی تحریکات سے استفادہ کی اہمیت بھی اجاگر کی۔عالم اسلام کے زعماء اور اکابرین نے 11 ستمبر کے حملوں کو حق بجانب قرار دینے سے گریز کیا کیوں کہ یہ حملے راست طورپر عام آدمیوں کے خلاف تھے اور دشمنان اسلام کے خلاف جہاد چھیڑ دینے کے اصول و قواعد کے برعکس تھے۔ تا ہم القاعدہ نے وعدہ کیا تھا کہ 1990 ء کی دہائی کے اوائل میں مسلم ممالک کے خلاف مغربی چودھراہٹ کے خلاف غصہ کے اظہار کا یہی ایک راستہ رہ گیا تھا۔ اس کے علاوہ کئی مسلم ممالک بھی اس امریکی کیمپ کا ساتھ دے رہے تھے۔القاعدہ نے افغانستان اور عراق پر امریکہ کی قیادت میں حملوں کے بعد کثیر مسلم آبادی والے ممالک میں مسلمانوں کو مغربی اثرات اور مغربی طاقتوں کی تائید کرنے والے اسلامی ممالک کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی۔ اس مقصد کے حصول کی کوشش میں القاعدہ اس قدر آگے نکل گئی کہ وہ جارح ہو گئی اور اخوان المسلمون، جماعت اسلامی، لشکر طیبہ اور حماس جیسی ہم نظریاتی تنظیموں کی بھی مخالف ہو گئی۔امریکہ کو مختلف جنگوں میں مصروف کر کے اس کے حامی وسائل کو تباہ کرنے کے بعد القاعدہ نے محسوس کیا کہ اب امریکہ مسلم ممالک میں روپیسہ پیسہ کے زور پر اتھل پتھل کرنے کے موقف میں نہیں ہے لیکن القاعدہ کے وسائل محدود ہونے کے سبب القاعدہ امریکہ کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں رہی۔ اس سے ہٹ کر بدلتے ہوئے حالات اس بات کے متقاضی ہو گئے کہ عوام کو امریکہ کے خلاف ابھارنے کے لیے دہشت گردانہ کارروائیوں کے بجائے سنجیدہ سیاسی جدوجہد کی جائے۔ اس لیے گزشتہ سال ایران نے جب القاعدہ کے بزرگ سینئر قائدین کو رہا کر دیا تو وہ سیدھے افغانستان پہنچے اور انہوں نے جہاد کے لیے 20 نکاتی رہنما یا نہ خطوط پر اعلی سطحی مباحث شروع کئے اور بالآخر القاعدہ کے قائدین نے ایک نئی سمت کے تعین پر اتفاق کیا۔حالیہ ہفتوں میں الظواہری نے ماضی میں شہریوں کے خلاف ہر کارروائی کو جائز قرار دیا تھا،یہ بیان دیا کہ بعض کارروائیوں میں جو صحیح یا غلط طریقہ سے مجاہدین سے منسوب کر دی گئی تھیں ان میں مساجد، بازاروں یا مسلمانوں کے ایک جگہ اکٹھا ہونے کے مقامات پر مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ میں اور میرے القاعدہ کے بھائی ایسی کارروائیوں سے اپنے آپ کو بے تعلق بتلاتے ہیں اور ان کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے اس آڈیو ریکارڈنگ میں اس بات کا بھی دعویٰ کیا کہ وہ باتیں اسامہ بن لادن کی ہدایت پر کہہ رہے ہیں۔انہوں نے مجاہدین پر زور دیا کہ وہ شرعی احکامات پر دوبارہ غور و خوض کریں اور مسلمانوں کے مفادات کو بھی پیش نظر رکھیں اور اس کے بعد کوئی جہادی کارروائی شروع کریں۔ القاعدہ کے ارکان بلاامتیاز مسلمانوں یا غیر مسلمین پر حملے کرنے سے گریز کریں۔لیکن اس کے باوجود القاعدہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مل کر اپنی کارروائیوں میں شدت پیدا کرنے کا عزم کر رہی ہے تا کہ امریکی افواج مرحلہ وار یہاں سے روانہ ہونے کے بجائے فوری نکلنے پر مجبور ہو جائیں۔

Leave a comment