چین،مسلمان شراب،سگریٹ فروخت کرنے پرمجبور
کبھی علحدگی پسندی تو کبھی دہشت گردی کے الزام میں مشرقی ترکستان (زنجیانگ) کے مسلمانوں پر چین کی دہریہ حکومت کے ظلم و ستم کا سلسلہ تھمتا نظر نہیں آرہا ہے ۔ ان مسلمانوں کو خوف و دہشت میں ہمیشہ مبتلا رکھنے کی غرض سے چینی حکومت کبھی ان کو رمضان کے روزے رکھنے سے روکتی ہے کبھی پر دے پر پابندی لگاتی ہے تو کبھی نوجوانوں کو مساجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی ہے ۔ معمولی واقعات پر یہاں کے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان پر دہشت گردی کے سنگین الزامات لگانا عام بات ہے ۔ کئی ملزمین کو موت کی سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ اس ریاست میں مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود یہاں بسنے والے بدھ مت کے پیرو کاروں کو جنہیں کو مقامی زبان میں ہن کہا جاتا ہے مراعات اور آزادیاں دی جاتی ہیں اور مسلمانوں سے کمتر درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس ریاست کی سرحد پڑوسی ملک پاکستان سے ملتی ہے اور یہ ملک چین کو اس ظلم و ستم سے روکنے کے بجائے اس کے صدر کی آمد پر سرخ قالین استقبال کرتا ہے کروڑ روپئے کے معاہدے کرتا ہے ۔ چین کو اپنی سرحدوں‘ سڑکیں تعمیر کرنے‘ بندرگاہیں استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے ۔
حالیہ ایک امریکی ریڈیو نے اطلاع دی تھی کہ چین نے مقامی مسلمانوں پر ظلم و ستم کی حد کردی ہے مذہب سے دور رکھنے کیلئے چینی مسلم دوکانداروں کو جو زنجیانگ میں رہتے ہیں شراب اور سگریٹ کی فروخت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ یہی نہیں فوج نے ان دوکانداروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ شراب کی بوتلیں اور سگریٹ کے پیاکٹ اس طرح اپنی دوکانوں میں سجائیں کہ وہ دور سے آسانی سے نظر آئیں ۔ ریڈیو فری ایشیاء نے یہ اطلاع دی ہے جس کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد مسلمانوں کو دولت اسلامی کی طرف راغب ہونے سے روکنا ہے ۔ اس حکم کی اجرائی کے بعد کئی مسلم دوکاندار شراب فروخت کرنے پر مجبور ہیں ۔ نئے حکم میں ہوٹل مالکوں اور شاپنگ مالس سے کہا گیا ہے کہ وہ کم سے کم 5 اقسام کی شراب فروخت کریں بصورت دیگر نہ صرف ان کو گرفتار کرلیا جائے گا بلکہ ان کی دوکانوں کو بھی مہر بند کردیا جائے گا ۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ حکم 2012 میں ہی جاری کیا گیا تھا لیکن مقامی مسلمانوں نے اس پر عمل کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ اب اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کرنا شروع کردیاگیا ہے۔
زنجیانگ یغور نسل کے مسلمانوں کا آبائی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ کئی برسوں سے عدم استحکام کا شکار ہے ۔ چینی حکومت پڑوسی وسطی ایشیائی ممالک بشمول پاکستان اور افغانستان میں اسلامی تحریکوں کو دیکھتے ہوئے یہاں کے مسلمانوں پر حد درجہ سختیاں کررہی ہے ۔ زنجیانگ کی سرحدیں پاکستان‘افغانستان کے علاوہ قازقستان اور کرغیزستان سے بھی ملتی ہیں ۔ یہاں چینی حکومت کے اس ظلم و ستم کی وجہ سے کچھ لوگ اس کو ایک خود مختار علاقہ بنانے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس مہم کو بہانہ بناکر چینی حکومت نے مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کردی ہے زنجیانگ کے کسی بھی شہر میں بس میں 5 سے زیادہ مسلمانوں کو سفر کی اجازت نہیں ہے ۔ خواتین کے نقاب یا اسکاف پر پابندی ہے اور کوئی مسلم خاتون جسم کو مکمل ڈھکنے والا لباس نہیں پہن سکتی ۔ داڑھی لمبی رکھنے پر مردوں پر نہ صرف بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے بلکہ ایسے افراد کو عوامی مقامات پر جانے یا بس میں سوار ہونے کی اجازت نہیں ہے ۔ کوئی مسلمان اپنے لباس پر چاند یا ستارہ کا نشانہ نہیں لگا سکتا ۔ قابل غور بات ہے کہ ایک طرف حکومت مسلمانوں پر ایسی پابندیاں لگا کر ان کو ہراساں کرتی ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کی جاسوسی کرنے والوں کو انعامات سے نوازتی ہے ۔ لمبی داڑھی والے مسلمان کے بارے میں پولیس کو اطلاع دینے پر 2 ہزار ین کی رقم بطور انعام دی جاتی ہے اس لئے مقامی اقلیتی برادری ہن کے لوگ مسلمانوں کی ٹوہ میں رہتے ہیں۔ اور انعامات کی لالچ میں ان کی جھوٹی سچی مخبری کرتے ہیں۔ پولیس ان مسلمانوں کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کو کسی صفائی کا موقع دےئے بغیر گرفتار کر کے لے جاتی ہے ۔ گذشتہ 8 تا 10 برسوں کے دوران اس ریاست میں 300 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
ایک طرف چین اپنے مسلم باشندوں پر اس طرح کے مظالم ڈھا رہا ہے دوسری طرف پاکستان اس کے خلاف احتجاج کرنے کے بجائے چین کے قائدین کا والہانہ استقبال کررہا ہے حال ہی میں صدر چین زی جن پنگ نے اسلام آباد کا دورہ کیا تو حکومت نے نہ صرف ان کو اعلی ترین سیویلین اعزاز سے نوازا بلکہ ان کی میزبانی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ افغانستان میں طالبان تحریک کے دم توڑجانے کے بعد امریکہ اس علاقہ کا تخلیہ کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ پاکستان کو ایک مضبوط دوست کی ضرورت ہے جو چین کی شکل میں اس کے پاس موجود ہے ۔ چین سے دوستی کی خاطر پاکستان نے گودار جیسی اہم بندرگاہ اس کے حوالے کردی اب چین کو تیل اپنے ملک تک پہنچانے میں انتہائی آسانی ہوگئی ہے ۔ اس سہولت کی خاطر چین پاکستان کو سڑک کے ذریعہ مربوط کررہا ہے اور یہ سڑک بھی زنجیانگ کی سرحد سے گذرتی ہے ۔ اس پراجکٹ کیلئے چین پاکستان میں 12 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے جبکہ اس بندرگاہ اور سڑک کے ذریعہ تیل منتقل کرنے میں چین کو 20 ارب ڈالر کا فائدہ ہورہا ہے جبکہ پاکستان کو بھی سالانہ 5 ارب ڈالر کا فائدہ ہورہا ہے ۔ اسی لئے خود پاکستانی ذرائع ابلاغ زنجیانگ میں ہونے والے مظالم پر پاکستان کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔ ستم تو یہ ہے کہ پاکستان نے چین کے کہنے پر ان علاقوں میں سرگرم مسلم انتہا پسندوں کے نام اور ان کے ٹھکانے بھی بیجنگ کے حوالے کردیتے ہیں۔
زنجیانگ جس کو ہم مشرقی ترکستان کہتے ہیں کوئی چینی علاقہ نہیں ہے بلکہ یہ چین کا مقبوضہ مسلم علاقہ ہے ۔ یہاں زمانہ قدیم سے مسلمان آباد ہیں اور وہ مسلم شناخت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں جو چین کو کسی صورت میں منظور نہیں ہے ۔ ان باشندوں کی زبان‘ بول چال اور تہذیب و تمدن چین سے بالکل الگ ہے ۔ اس صورتحال کیلئے صرف ایک پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنانا غلط ہے ۔ تمام مسلم ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن چونکہ پاکستان کے پڑوس میں یہ سب کچھ ہورہا ہے اس لئے اس پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ چین بین الاقوامی قوانین اور حقوق انسانی کی پرواہ کئے بغیر اس ریاست کے مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو مٹانا چاہتا ہے جس کے خلاف مزاحمت کو وہ دہشت گردی اور علحدگی پسندی کا نام دے رہا ہے ۔ اس ریاست کی آبادی 2 کروڑ افراد پر مشتمل ہے ۔ اس علاقہ پر قبضہ کرنے کیلئے روس اور چین کے درمیان ایک عرصہ تک رسہ کشی چلتی رہی تھی بالآخر دونوں نے ترکستان کو تقسیم کرلیا مغربی ترکستان روس کے قبضہ میں اور مشرقی ترکستان چین کے قبضہ میں چلاگیا ۔ اس ریاست کا جو دارالحکومت کاشغر سے بنایا جاتا ہے کہ اس شہر کو قتیبہ بن مسلم نے فتح کیا تھا ۔ اس ریاست کا پرچم نیلے رنگ کا تھا جس پر ہلال بنا ہوا تھا ۔ اس ریاست پر 1860 میں چین قابض ہوا ۔ اس کے خلاف 1863 میں تحریک شروع کی گئی۔ یعقوب خان بادولت کی قیادت میں اس علاقہ کو ایک الگ ملک تسلیم کرلیا گیا اور انہو ں نے اس ملک کو سلطنت عثمانیہ میں ضم کردیا ۔ اس وقت ترک عثمانی حکومت کے خلیفہ سلطان عبدالعزیز خان تھے لیکن 13 برس بعد ہی چین نے دوبارہ مشرقی ترکستان پر قبضہ کرلیا ۔ 1931 میں ایک مرتبہ پھر آزادی کیلئے جدوجہد شروع ہوتی 1933 میں بڑے حصے کو آزاد کرالیا گیا لیکن چین نے روس کے تعاون سے پھر اس علاقہ کو اپنے قبضے میں لے لیا ۔ اس وقت سے اس علاقہ کے مسلمانوں پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کردیا گیاہے کہ وہ ا پنی زندگیوں کے علاوہ کسی اور بات کی فکر نہ کریں ۔ ان کو مذہب سے دور رکھنے کی پوری پوری کوشش کی جارہی ہے ۔ ذرائع ابلاغ میں ظلم وستم کی کہانیاں بہت کم شائع ہوتی ہیں۔