افغانستان، پاکستان، ہر ملک کا اپنا کھیل ہے
پاکستانی فوج کی کارروائیوں سے پریشان مولوی فضل اللہ سانحہ پشاور جیسے مزید اقدامات کی تیاریاں کررہا ہے
حب توقع ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف شدید بے یقینی اور دوطرفہ حالت جنگ کی کیفیت سے دوچار ہیں اور خدشہ ہے کہ فروری کے بعد دو طرفہ حملوں کی تعداد اور شدت میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ فریقین کے درمیان واضح لکیریں کھینچی جا چکی ہیں اور حالات ایک بڑی مگر جارحانہ جنگ یا مزاحمت کی جانب بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔
تجزیہ کار اور عوام سوال اٹھارہے ہیں کہ آیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ چند مہینوں کے رابطوں کے نتیجے میں کاؤنٹر ٹیررازم کی کوئی مشترکہ میکنزم پر اتفاق ہوچکا ہے یا نہیں۔ دونوں ممالک کے متعلقہ اعلیٰ حکام اس کا جواب ’’ہاں‘‘ میں دے رہے ہیں تاہم مذکورہ میکنزم کی تفصیلات بتانے سے وہ گریزاں ہیں جبکہ بعض باخبر سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ 16 دسمبر کے سانحہ پشاور کے بعد نہ صرف یہ کہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کے ایشو پر مزید قریب آگئے ہیں بلکہ دونوں ممالک غیر اعلانیہ طور پر انٹیلی جنس شیئرنگ اور بعض مواقع پر جوائنٹ ایکشن کا عملی ’’مظاہرہ‘‘ بھی کر چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مزید کئی اقدامات بھی پائپ لائن میں ہیں۔
سانحہ پشاور (16دسمبر) کے چند گھنٹوں بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل رضوان اختر پشاور ہی سے کابل کے لیے روانہ ہوگئے تو میڈیا کے بعض حلقوں نے دعویٰ کیا کہ وہ سانحے کے ردعمل کے لیے کابل گئے ہیں حالانکہ ان کا دورہ کابل پہلے سے طے شدہ تھا اور انہوں نے افغان حکام کے علاوہ نیٹو کے سربراہ اور بعض دیگر سے بھی ملاقاتیں کرنی تھیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد سانحہ پشاور پر ردعمل دکھانا یا فضل اللہ وغیرہ کی فوری حوالگی کا مطالبہ نہیں تھا بلکہ امریکہ، نیٹو، افغانستان اور پاکستان کے درمیان کاؤنٹر ٹیررازم کے ایک فارمولے اور میکنزم کا حتمی جائزہ لینا تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق یہ ملاقاتیں کافی نتیجہ خیز ثابت ہوئیں اور فریقین نے نہ صرف مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق رائے کا اظہار کیا بلکہ انہوں نے 2015 کے تناظر میں خطے کی صورتحال کو بہتر بنانے کی متعدد تجاویز پر بھی اتفاق کیا۔ اسی دورے کا نتیجہ تھا کہ چند روز بعد نیٹو اور افغان فوج کے سربراہان اپنے وفود کے ہمراہ پاکستان چلے آئے جہاں مزید تفصیلات طے کی گئیں اور مشترکہ حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لیا گیا۔
سانحہ پشاور کے بعد افغان اور امریکی فورسز نے نہ صرف اپنی کارروائیاں تیز کیں بلکہ انہوں نے بعض اطلاعات کی بنیاد پر صوبہ کنٹر میں ان ٹھکانوں یا مراکز کو بھی نشانہ بنایا جن کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ مولوی فضل اللہ اور ان کے جنگجوو وہاں پناہ گزین ہیں۔ درجنوں افراد نشانہ بنے جبکہ بعض اطلاعات میں یہ بھی بتایا گیا کہ فضل اللہ بھی زخمی ہوگئے ہیں۔ بعض حلقوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستانی ائیرفورس بھی کارروائی میں شامل رہی تاہم افغان اور پاکستانی حکام نے اس کی واضح تردید کی کیونکہ یہ کارروائی افغان اور نیٹو کی کارروائی تھی۔
پاکستان کو شکایت رہی ہے کہ افغانستان نے آپریشن ضرب عضب کے دوران اپنی سرحد پر وہ اقدامات نہیں کیے جن کا وہ مطالبہ کررہا تھا تاہم دوسری طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان صرف ’’بیڈ طالبان‘‘ کے خلاف کارروائی کررہا ہے اس لیے اس کے ساتھ تعاون نہیں کیا جارہا تاہم اشرف غنی کے دورہ پاکستان اور اس کے بعد جنرل راحیل شریف کے تفصیلی دورہ امریکہ کے بعد صورتحال میں کافی تبدیلی واقع ہوگئی اور دونوں ممالک کے درمیان اس ایشو پر عرصہ دراز کے بعد پہلی دفعہ نہ صرف یہ کہ انڈرسٹینڈنگ بڑھ گئی بلکہ یہ یقین دہانیاں بھی کرائی گئیں کہ دونوں جانب کے بیڈ اور گڈ طالبان کو ممکنہ حد تک کارروائیوں کے دائرے میں لایا جائے گا۔
جنرل راحیل شریف کے اس واضح عزم کے بعد ہی امریکہ نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کا اعلان کیا کہ گڈ طالبان یا کسی بھی گروپ کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اور یہ کہ کارروائی بلاامتیاز کی جائے گی۔ سب سے اہم نکتہ اس گیم کے دوران یہ رہا کہ امریکہ نے بھی اس یقین دہانی پر اظہار اعتماد کیا کیونکہ سی آئی اے اور بعض دیگر ادارے آپریشن ضرب عضب اور خیبرون کی باقاعدہ مانیٹرنگ بھی کرتے چلے آرہے تھے۔ اعلیٰ ترین امریکی حکام کے علاوہ امریکی میڈیا کے اہم اداروں نے بھی پہلی بار پاکستان کی پالیسی اور کارروائی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی کارروائی کے نتیجے میں نہ صرف طالبان بلکہ حقانی نیٹ ورک کی کمر بھی توڑ دی گئی ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ امریکہ نے بھی پاکستانی کردار کی تعریف کی۔
سانحہ پشاور کے بعد پاکستانی ریاست بالخصوص پاکستان آرمی کے اینٹی طالبان پالیسی میں اور بھی شدت واقع ہوگئی اور چند دنوں کے اندر فاٹا اور پختونخوا کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی بڑی کارروائیاں کی گئیں جس کے نتیجے میں گڈ طالبان کو بھی کافی نقصان اٹھاناپڑا۔ کارروائیاں اتنی زیادہ اور تیز تھیں کہ عسکریت پسندوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا جبکہ دوسری طرف امریکی ڈرون نے بھی گڈ طالبان کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران جنوری کے پہلے ہفتے کے دوران شمالی وزیرستان میں ایک مشہور ازبک کمانڈر سمیت متعدد دیگر کو ہلاک کیا گیا جبکہ اس سے قبل مبینہ گڈ طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ کو بھی دسمبر کے اوائل میں دوبارہ نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس نوعیت کی کارروائیوں کو تینوں ممالک کی جائنٹ کاؤنٹر ٹیررازم ہی کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ دوسری طرف افغان فورسز نے بھی اس سرحدی علاقوں میں اپنی کارروائیاں تیز کیں۔ جہادی پاکستانی طالبان یعنی مولوی فضل اللہ وغیرہ چھپے ہوئے ہیں۔ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ صورتحال میں غیر معمولی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف میں عسکریت پسند تنظیموں کی کارروائیوں میں بھی مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کو پتہ چل گیا ہے کہ امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان انڈرسٹینڈنگ اور کوآرڈینیشن اب عملی اقدامات کی شکل اختیار کر چکی ہے اس لیے وہ بھی جارحانہ پن پر اتر آئے ہیں اور خدشہ ہے کہ آئندہ چند روز یا ہفتے کافی کٹھن اور پرخطر ثابت ہوں۔
باخبر ذرائع کے مطابق افغان فورسز نے وزیرستان، مہمند اور خیبر کی قبائلی ایجنسیوں پر واقع اپنی سرحد پر اپنی تعداد اور مانیٹرنگ بڑھا دی ہے جس کے باعث جنگجوؤں کی نقل و حرکت بری طرح متاثر ہوگئی ہے جبکہ امریکی ڈرون کی پروازیں بھی بڑھائی گئی ہیں۔ افغانستان کے اندر بھی پاکستان کی طرح فورسز کی ٹارگٹ ایکشن میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ بعض اہم طالبان کمانڈروں کی ہلاکتوں اور گرفتاریوں کی اطلاعات بھی ہیں۔ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ حملہ آوروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔
شاید اسی کا ردعمل تھا کہ ٹی ٹی پی کے سربراہ مولوی فضل اللہ نے 6جنوری کے روز عرصہ دراز کے بعد پہلی بار ایک ویڈیو جاری کی جس میں موصوف نے پاکستانی فوج اور اس کے حامیوں کے خلاف کھلی اور جارحانہ جنگ کی دھمکی دے ڈالی اور یہ بھی کہا کہ وہ عنقریب ایک ایسی کارروائی کرنے والے کہ لوگ سانحہ پشاور کو بھی بھول جائیں گے۔ فضل اللہ نے اپنی ویڈیو میں پاکستانی فوج کو مرتد قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان عملاً اور ختم ہوچکا ہے اور یہ کہ اب اسے مرتد فوج اور امریکہ جیسی قوتیں بھی نہیں بچا سکتیں۔ موصوف نے یہ بھی کہا کہ اگر اسلامی قیود، حدود کا خیال نہ ہوتا تو طالبان ایسی کارروائیاں کرتے کہ فوج کے ہوش ٹھکانے آجاتے اور ان کو یہ پتہ بھی لگ جاتا کہ جنگ کس طرح لڑی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی ویڈیو میں فوج اور فوجی آپریشنز کے حامیوں کو بھی سنگین دھمکیاں دیں اور ان کو مقابلے کے لیے تیار رہنے اور نتائج بھگتنے کے انتظار کا بھی کہہ ڈالا۔ انہوں نے بعض ہمدردوں سے بھی گلہ کیا اور دھمکیاں بھی دیں۔
فضل اللہ کا انداز بیان بہت جارحانہ تھا جس سے یہ مطلب لیا گیا کہ وہ فوجی کارروائیوں کے ردعمل میں سانحہ پشاور جیسے مزید اقدامات کی تیاریاں کررہے ہیں۔ اس سے یہ مطلب بھی لیا گیا مکہ آپریشن اور دیگر کارروائیوں نے ان کو واقعتاً پریشان کرکے رکھ دیا ہے اور جوابی کارروائیوں کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں۔ ان کی ویڈیو ایک پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے جہاں آس پاس بڑے بڑے درخت بھی نظر آرہے ہیں جو کہ اس جانب اشارہ ہے کہ وہ پاک افغان سرحد پر پناہ گزین ہیں۔ ویڈیو کے سامنے سے صرف تین روز قبل پختونخوا کی صوبائی حکومت نے فضل اللہ اور منگل باغ سمیت 615 دیگر مطلوب ’’دہشت گردوں‘‘ کی فہرست جاری کی اور سبھی کے سروں کی قیمتیں بھی لگائیں۔ ذرائع کے مطابق یہ اقدام بھی فوج کے کہنے یا دباؤ پر اٹھایا گیا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ صوبائی حکومت 615 مطلوب ترین لوگوں کی فہرست رکھنے کے باوجود کارروائی سے گریزاں تھی اور اب ان کو بھی یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ مزید رعایت، خوف یا مصلحت کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ذرائع کے مطابق دیگر کے علاوہ طالبان کے بعض بااثر حامیوں نے بھی طالبان کو نئی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے ’’پیغام‘‘بھجوایا ہے کہ اب ان کے لیے بھی پہلے کی طرح انہیں پورٹ کرنا آسان نہیں رہا اور اس چیز نے بھی طالبان کو پریشان اور تنہا کر دیا ہے۔ طالبان کے بعض حامیوں کو بھی فوج نے ’’سخت اشارے‘‘ دے رکھے ہیں۔ اس لیے کافی عرصہ سے وہ بھی خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔
عسکری اور سفارتی حلقوں کے مطابق جان کیری کا دورہ اسلام آباد (14جنوری)انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ پاکستان پر امریکہ کا اعتماد بڑھ چکا ہے اور نئی صورتحال کے تناظر میں امریکہ بھی پاکستان اور افغانستان کو مزید قریب لانے کا خواہاں ہے۔ دوسری طرف طالبان وغیرہ کی علاقائی اور عالمی رابطوں اور صف بندی کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں۔
ادھر پاکستان انسٹیٹیوٹ فارسپیس سٹیڈیز (PIPS) کی سالانہ سکیورٹی رپورٹ میں اعداد و شمار کی روشنی میں کہا گیا ہے کہ سال 2013ء کے مقابلے میں سال 2014 کے دوران پاکستان میں خودکش حملوں سمیت دوسری کارروائیوں کی تعداد اور ہلاکتوں میں کافی کمی آئی اور پہلے والی صورتحال برقرار نہیں رہی تاہم رپورٹ کے مطابق سال 2014 کے دوران کرائے گئے حملوں میں بھی زیادہ نقصان صوبہ پختونخوا کو اٹھانا پڑا اور تعداد کے لحاظ سے یہ صوبہ سرفہرست رہا۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کی راہ میں اب بھی گڈ اور بیڈ طالبان کے دو طرفہ فارمولے اور بلیم گیم، ڈبل گیم کے مظاہر سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جبکہ بعض کے خیال میں علاقائی اور عالمی قوتوں کی پراکسی وارز بھی اس کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ اگر پڑوسی متاثرہ ممالک اور عالمی قوتیں ان رویوں، پالیسیوں اور عوامل سے گریز کرکے ایک مشترکہ پلان پر عمل پیرا ہوجائیں تو قوی امکان ہے کہ صورتحال کنٹرول ہوجائے گی اور مزید حملوں اور سانحات میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوجائے گی۔
عقیل یوسف زئی