تعلیم یافتہ دہشت گردوں کی القاعدہ سے وابستگی ، پاکستان کے لیے بڑا خطرہ بن گئی
کئی لوگوں کے لیے طاہر، سعد، اظفر،اور ناصر نئے جنگجو کردار ہوں گے، لیکن ہم پہلے بھی ان سے ملتے جلتے کرداروں کی زندگیوں اور ارادوں کے بارے میں کئی بار پڑھ چکے ہیں۔ان گرفتار شدہ افراد کے اعترافات نے کئی لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کو، جو سمجھتے ہیں کہ دہشت گرد صرف نچلے طبقے اور غیر معمولی حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ویسے تو یہ پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے ہیں، لیکن یہ مبینہ طور پر کراچی میں دہشت گرد حملوں کی حالیہ لہر کے ذمہ دار ہیں، جس میں اسماعیلی برادری کے افراد کا قتلِ عام، اور انسانی حقوق کی کارکن سبین محمود کا قتل بھی شامل ہے۔
یہ حیران کن تو ہے، لیکن اس میں کچھ نیا نہیں ہے۔ ان نوجوانوں کی ایک طویل فہرست ہے جو پاکستان کی پڑھی لکھی مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، اور دہشت گردی کی سنگین کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
ڈینیئل پرل کے قاتل عمر سعید شیخ، القاعدہ کا آئی ٹی ماہر نعیم نور خان، القاعدہ کا کارکن ڈاکٹر ارشد وحید، ٹائمز اسکوائر بم دھماکے کا ماسٹر مائنڈ فیصل شہزاد، ڈینش سفارت خانے پر بم حملے کا مجرم حماد عادل، اور کراچی ڈاکیارڈ پر نیوی فریگیٹ کی ہائی جیکنگ میں ملوث اویس جاکھرانی اس فہرست میں سے صرف چند نام ہیں۔بالائی متوسط اور اونچے طبقے کے لوگوں میں انتہاپسند رجحانات کوئی نئی بات نہیں ہیں، لیکن حالیہ چند سالوں میں ان طبقات سے جنم لینے والے دہشتگردوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔مغرب میں مقیم پاکستانی برادری بڑھتے ہوئے انتہاپسندانہ رجحانات سے اچھی طرح واقف ہے۔ پاکستان میں پڑھی لکھی مڈل کلاس سے دہشتگردوں کا جنم لینا ایک نئے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔
دہشت گردی کی یہ نئی لہر نہ صرف دیگر عسکریت پسند گروپوں کو جنم دیتی ہے، بلکہ اس میں موجود عسکریت پسند بھی خود کو دوسروں سے ممتاز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں کئی طرح کے گروہ شامل ہیں، بشمول مرکزی دہشتگرد تنظیموں سے الگ ہوجانے والے گروہ۔ پنجابی طالبان اور جند اللہ اس کی واضح مثالیں ہیں جو کہ اس رجحان کی نئی علامات ہیں۔اپنے اندر انتہاپسند رجحانات کی پرورش خود کرنے والے افراد ان دہشتگرد نظریات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ پھر بھلے ہی یہ کسی مقامی یا بین الاقوامی دہشتگرد تنظیم کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتے، لیکن یہ مسلسل اپنے جیسے انتہاپسند خیالات رکھنے والوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔
اس کیٹیگری میں شامل دہشتگردوں کی تعداد کافی زیادہ ہوسکتی ہے۔ کسی دہشتگرد گروہ کو ڈھونڈ کر اس میں شمولیت اختیار کرنے میں ناکامی انہیں خود اپنے اہداف کا تعین کر کے حملوں پر اکسا سکتی ہے۔
جنداللہ کا عنصر
شہری دہشتگردی اور عسکریت پسندی کے اس نئے رجحان کو سمجھنے میں جنداللہ کا عنصر کافی مددگار ہو سکتا ہے۔ جس طرح پاکستان میں پنجابی طالبان کے کئی گروہ ہیں، اسی طرح پاکستان میں جنداللہ کے نام سے بھی کئی گروہ کام کر رہے ہیں۔
ایرانی بلوچستان میں فعال جنداللہ کو چھوڑ کر، پشاور اور کراچی میں اس نام سے جو بھی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، وہ ایک ہی طرح کے رجحانات رکھتی ہیں۔ اپنے اسلام پسند پس منظر کی وجہ سے وہ قدرتی طور پر اسلامک اسٹیٹ (داعش) کی جانب جھکاؤ رکھتی ہیں، اور افغانستان کی حزبِ اسلامی کے ان کمانڈرز کو پسند کرتی ہیں جو داعش کی بیعت کر چکے ہیں۔
دہشت گردوں کے لیے فائدہ؟
تنظیمی ڈھانچے کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ تنظیمیں عملی طور پر بہت خطرناک ہوتی ہیں۔ یہ بڑے عسکری گروہوں کو ان کے دہشتگرد مقاصد کے لیے افرادی قوت بھی فراہم کرتی ہیں۔ان گروہوں کو پکڑنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ یہ گروہ مجرمانہ سرگرمیوں سے پیسہ بناتے ہیں، اور اپنے چھوٹے سائز کی وجہ سے وہ کم وسائل کے ساتھ بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔
حالیہ چند سالوں میں ان طبقات سے جنم لینے والے دہشتگردوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔مغرب میں مقیم پاکستانی برادری بڑھتے ہوئے انتہاپسندانہ رجحانات سے اچھی طرح واقف ہے۔ پاکستان میں پڑھی لکھی مڈل کلاس سے دہشتگردوں کا جنم لینا ایک نئے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔
غیر واضح انتظامی ڈھانچے کی وجہ سے یہ گروہ اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے میں آزاد ہوتے ہیںاور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ نت نئی اقسام کے دہشتگرد حملے کرتے ہیں۔
صفورہ گوٹھ حملے میں گرفتار افراد مبینہ طور پر ٹارگٹ کلنگ سے لے کر بڑے حملوں تک میں ملوث رہے ہیں، جس سے ان کی آپریشنل صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہ ممکن ہے کہ یہ لوگ مختلف حملوں کے لیے مختلف نام استعمال کرتے ہوں، تاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھوکہ دیا جا سکے۔ ان گرفتار افراد نے جن کارروائیوں کا اعتراف کیا ہے، ان میں ایک ایسا حملہ بھی شامل ہے جس کی ذمہ داری کسی زمانے میں کراچی کے ایک غیر معروف گروہ تحریکِ خلافت نے قبول کی تھی۔ یہ وہی گروہ ہے جس نے پاکستان میں سب سے پہلے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی بیعت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ وہی گروہ ہے یا نہیں۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق ان گروہوں کا القاعدہ برِصغیر سے تعلق تھا، جس کا کراچی میں کافی بڑا نیٹ ورک ہے، اور ان کے اہداف اور حکمتِ عملی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ داعش سے متاثر ہیں۔
یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ یہ گروہ علاقائی اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ بہتر سے بہتر تعلقات و روابط کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ان کی القاعدہ کے ساتھ وابستگی کا امکان خارج نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ دونوں ایک ہی خطے میں فعال ہیں۔اس دہشت گرد گروہ کو قابو کرنا بلاشبہ سندھ پولیس کی بڑی کامیابی ہے، جس نے انہیں دہشتگردوں کی اس نئی کھیپ سے نمٹنے میں کافی تجربہ فراہم کیا ہے۔
امید ہے کہ پولیس حکام اس بات کو جان گئے ہوں گے کہ یہ کراچی میں فعال ایسا واحد گروہ نہیں ہے۔
محمد عامر رانا