Published On: Wed, Jan 11th, 2012

صدر کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے: این آر او کیس کا فیصلہ

Share This
Tags
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے این آر او عملدرآمدکیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو 6 آپشنز دیتے ہوئے ان پر مزید سماعت کیلئے لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا چیف جسٹس کو بھجوا دی ہے جو 16جنوری کو سماعت کرے گا، ان آپشنز میں چیف ایگزیکٹو اور وفاقی سیکرٹری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی، آرٹیکل 63 جی کے تحت پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہلی، حلف کی پاسداری نہ کرنے پر صدر کے خلاف بھی ایسی کارروائی، ایک کمیشن کے ذریعے این آر او فیصلے پر عمل کرانا، چیئرمین نیب کے خلاف ضابطہ اخلاق کے تحت کارروائی اور عوام کے پاس جانا اورعدالت کی طرف سے ضبط و تحمل کا مظاہرہ شامل ہیں اور کہا ہے کہ صدر اور وزیراعظم ریاست سے زیادہ پارٹی سے وفاداری کو ترجیح دے رہے ہیں جبکہ وزیر قانون و سیکرٹری بھی عدالتی کارروائی اور فیصلوں کوکوئی اہمیت نہیں دیتے۔ سپریم کورٹ نے صدر اور وزیراعظم کو ایک اور موقع دیتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو 6 آپشنز پر مشتمل نوٹس جاری کیا اور ہدایت کی کہ وہ حکومت سے پوچھیں کہ ان میں سے کن آپشنز پر عملدرآمد کریں گے اور اس کے بارے میں 16فروری کو عدالت کو آگاہ کیا جائے ۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد انتظامیہ کی ذمہ داری ہی، چیئرمین نیب عدالتی فیصلوںپر عمل نہ کراکر مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے جبکہ وزیر قانون اور سیکرٹری قانون آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں‘ ا ن کے خلاف فوجداری مقدمہ درج اور 5 سال کیلئے نااہلی کی سزا ہو سکتی ہے۔
منگل کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے این آر او عملدرآمد کیس کی سماعت کی ۔ سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق ،چیئرمین نیب فصیح بخاری سمیت دیگر فریقین کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے این آر اوعملدرآمد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب فصیح بخاری اور اٹارنی جنرل انوارالحق کے بیانات سن کر افسوس ہوا ۔ نیب کی رپورٹس غیر تسلی بخش ہیں‘ این آر او فیصلے پر عمل نہ کرنے سے مایوسی ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے واضح عدالتی احکامات میں کہا تھا کہ احمد ریاض شیخ،ملک قیوم اور عدنان خواجہ کے حوالہ سے فیصلہ پر حکومت نے عمل نہیں کیا بلکہ سزا یافتہ افراد کو ترقی کیلئے ڈھال فراہم کی گئی، ہم عدالت کے فیصلہ پر حکومت کی طرف سے حکم عدولی پر حیران ہوئے اور عدالت اپنے اقدامات کرنے پر مجبور ہوگئی۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ حکومت نے گزشتہ 2 برس میں عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کیا۔ وفاقی سیکرٹری قانون عدالتی فیصلوں سے زیادہ بیرونی دوروں کو ترجیح دیتے ہیں اور حیران کن بات ہے کہ فیصلہ والے دن بھی وہ بیرون ملک ہیں۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ صدر اور وزیراعظم نے ریاست کے بجائے پارٹی سے وفاداری کو ترجیح دی ہے۔بادی النظر میں وزیراعظم نے ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کیا، انہوں نے عہدے کا حلف اٹھاتے ہوئے آئینی سے وفاداری کا عہد کیا تھا، آرٹیکل 62اے کے تحت کوئی بھی ایسا شخص پارلیمنٹ کا رکن منتخب نہیں ہو سکتا جو آئین اور قانون کا پابند نہ ہو اور آئین کی یہ شق صدر ، وزیراعظم اور وزیرقانون پر لاگو ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین صدر آصف علی زرداری نے بھی عہدہ سنبھالنے سے قبل آئین و قانون کی پاسداری کا حلف اٹھایا تھا لیکن وہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔فیصلہ میں ان کے نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ صدر نے اس انٹرویو میں عدالتی فیصلہ تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے قانون توڑ کر غلط روایت قائم کی ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ ،قومی اسمبلی میں ارکان نے ایسی تقاریر کیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ان کا کیا طرزعمل ہوگا‘ جب آئین پر عمل نہ ہو تو عدلیہ کا حلف ہے کہ وہ اس پر کارروائی کرے‘ اگر حکومت قانون توڑے تو عام شہری بھی ایسا ہی کرے گا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نیب اور حکومت دونوں مختلف بہانوں سے عدالتی فیصلوں پر عمل سے کتراتے رہے، ہم نے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا، عدالت کے اقدام سے آئینی توازن قائم ہوگا، ہم جانتے ہیں کہ جو اقدامات کرنے جا رہے ہیں وہ کافی ناخوشگوارہوں گے، 2 سال سے وفاقی حکومت عدالتی حکم پر عمل نہیں کر رہی، عدنان خواجہ کا تقرر سپریم کورٹ سے چھپا کر کیا گیا، عدالت بلاخوف و خطر کام کرتی رہے گی، آئین کے آرٹیکل 189اور 190کے تحت تمام ادارے سپریم کورٹ کی معاونت کے پابند ہیں،عدالت نے اپنے فیصلے میں اٹارنی جنرل کو فیصلہ پر عملدرآمد کے حوالے سے 6 آپشنز پر مشتمل نوٹس جاری کیا جس میں پہلا آپشن چیف ایگزیکٹو اور وفاقی سیکرٹری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی، دوسرا آپشن آرٹیکل 63جی کے تحت پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہلی،تیسرا حلف کی پاسداری نہ کرنے پر صدر کے خلاف بھی ایسی کارروائی،چوتھا آپشن یہ تھا کہ عدالت ایک کمیشن قائم کرے جو فیصلے پر عمل کرائی، پانچواں آپشن چیئرمین نیب کے خلاف ضابطہ اخلاق کے تحت کارروائی اور چھٹا آپشن عوام کے پاس جانا اورعدالت کے ضبط و تحمل کا مظاہرہ ہے۔فیصلے میں یہ 6 آپشنز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی بھیجے گئے ہیں اور استدعا کی گئی ہے کہ اس پر مزید سماعت کیلئے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے جو 16جنوری کو آپشنز کا جائزہ لے کر حتمی فیصلہ دے جبکہ عدالت نے اٹارنی جنرل سے بھی کہا کہ وہ آئندہ سماعت پر بتائیں کہ کونسا آپشن استعمال کیا جائے۔ اس کے علاوہ 16جنوری کو چیئرمین نیب ،اٹارنی جنرل اور سیکرٹری قانون کو بھی ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔قبل ازیں سماعت کے دوران نیب نے این آر او عملدرآمدکیس میں ملک قیوم، عدنان اے خواجہ اور احمد ریاض شیخ کے مقدمات میں کارروائی سے معذوری کا اظہار کیا۔نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو احتساب عدالت سے سزا یافتہ عدنان اے خواجہ کے بطور ایم ڈی او جی ڈی سی ایل تقرر سے متعلق پس منظر سے آگاہ کیا اور کہا کہ یہ معاملہ نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آیا،پراسیکیوٹر جنرل نے احمد ریاض شیخ کے بطور ایڈیشنل ڈی جی تقرر پر بھی جواب پیش کرتے ہوئے بتایا کہ احمد ریاض شیخ کی جائیداد واپسی کیلئے ٹرائل کورٹ میں مقدمات زیرسماعت ہیں۔ ان کو سزا سے متعلق ڈی جی ایف آئی اے کا لیٹر مجرمانہ بدنیتی کی بنیاد پر نہیں چھپایا گیا تھا، عدالت نے چیئرمین نیب سے ان کے مو¶قف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے پراسیکیوٹر جنرل کے موقف کی تائید کی۔
Displaying 1 Comments
Have Your Say
  1. ali says:

    the best decision of supreme court, very late but right.

Leave a comment