Published On: Sun, Nov 20th, 2011

منصور اعجاز کی جانب سے جاری کئے گئے بلیک بیری پیغامات کی تفصیل

Share This
Tags
پاکستان نڑاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز کی جانب سے میڈیا کو جاری کئے گئے بلیک بیری پیغامات کا متن ذیل میں دیا جارہاہے۔منصور اعجاز کا دعویٰ ہے کہ یہ تفصیل ان پیغامات کی ہے جن کا انہوں نے امریکا میں مقیم پاکستانی سفیر حسین حقانی سے بلیک بیری پر تبادلہ خیال کیاتھا
05۔09۔2011۔ 13:39 حسین حقانی: مجھے یقین ہے رسمی مطالبے پر اس کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔
05۔09۔2011۔ 13:40 منصور اعجاز: سسٹم کو باہر سے توڑنا سنگین ہے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ کیا ہم صاف گوئی سے سچ اخذ کر سکیں گے؟
05۔09۔2011۔ 13:40 منصور اعجاز: اصفہانی کے لوگوں کو کالز کی گئیں۔ اب تک بڑا مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔
05۔09۔2011۔ 13:44 حسین حقانی: اگر میرے دوست اور میں نے یہ سمجھا کہ ’’میرے لڑکوں‘‘ سے نمٹنے کا مناسب اختیار رکھتے ہیں، میں یقین دلاتا ہوں ہم مقصد حاصل کر لیں گے۔
05۔09۔2011۔ 13:45 منصور اعجاز: میں سمجھ گیا۔ اگر میں دیکھوں کہ ہم تمہیں طلائی دستے کے ساتھ ہتھوڑا نہیں دے سکے۔
05۔09۔2011۔ 13:47 حسین حقانی: یہ بہتر ہوگا۔
05۔09۔2011۔ 13:47 منصور اعجاز: میں تمہیں ایک پن مسیج بھیج رہا ہوں جسے دوسرے نہیں دیکھ سکیں گے، برائے مہربانی جواب دیں۔ شکریہ۔
05۔09۔2011۔ 13:48 حسین حقانی: او کے۔ شکریہ۔
05۔09۔2011۔ 14:22 منصور اعجاز: مسیج اصفہانی کو پہنچا دیا گیا۔ جواب مثبت ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ کچھ کرنے پر اتفاق کریں۔ کیا میں آپ کو کال کر سکتا ہوں؟
05۔09۔2011۔ 15:02 منصور اعجاز: برائے مہربانی بتائیں آپ کب اور کس نمبر پر بات کر سکتے ہیں۔ وقت بڑا حساس ہے۔
05۔09۔2011۔ 15:05 حسین حقانی: نمبر 10 داخل کر رہا ہوں۔ ایک گھنٹے بعد سیل پر بات کر سکتے ہیں۔
05۔09۔2011۔ 15:05 منصور اعجاز: او کے، میں آپ کی کال کا انتظار کروں گا۔
05۔09۔2011۔ 16:09 حسین حقانی: کال رنگ۔
05۔09۔2011۔ 16:09 حسین حقانی: برائے مہربانی میرے سیل نمبر 22816179532836 پر ابھی کال کریں۔
05۔09۔2011۔ 16:10 حسین حقانی: کال رنگ۔
05۔09۔2011۔ 16:19 منصور اعجاز: معاف کرنا۔ میں ڈی سی کال پر مصروف تھا۔ برائے مہربانی جب دوبارہ تیار ہوں، کال کریں۔
05۔09۔2011۔ 18:26 حسین حقانی: کال رنگ۔
05۔09۔2011۔ 18:27 منصور اعجاز: میں نے کوشش کی۔ فون پر بتایا گیا کہ دستیاب نہیں ہیں۔
05۔09۔2011۔ 19:02 منصور اعجاز: بہر حال دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اے زیڈ کی جانب سے مسیج کی منظوری پر غور کر رہے ہیں، جو ملک میں اس وقت کسی بھی چیز سے بڑھ کر ہے۔ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں؟
05۔09۔2011۔ 20:43 منصور اعجاز: میرے پاس آپ کے لئے اضافی معلومات ہیں۔ جب میں آپ کو کال دوں تو رنگ کریں۔
05۔09۔2011۔ 21:10 منصور اعجاز: کیا یہ کہنا محفوظ ہو گا کہ آپ اسے اپنے فلیگ پول پر نہیں چلانا چاہتے۔ کیونکہ آپ کو درمیان سے ڈیل پر کام کرنے کی ضرورت ہے؟ اگر یہ بات ہے تو بتائیں کہ میں دوسرا طریقہ اختیار کروں، جس میں لکھ کر دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس صورت میں یہ کافی ہوگا کہ اگر آپ بلیک بیری میسج پر بتا دیں کہ گفتگو کے نکات درست ہیں یا نہیں اور تب آپ اپنی میز سجا لیں، میں اپنی، اور یقین رکھیں جب دعوت شروع ہو گی تو آپ میری میز پر معزز مہمان ہوں گے۔ اگر آپ اس کے ساتھ اچھے رہے، مجھے گفتگو کے نکات کی آپ کی جانب سے منظوری کی ضرورت ہے۔ اسے اے زیڈ۔ پول پر چلانے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ میری بات کو سمجھیں۔
05۔09۔2011۔ 00:29 حسین حقانی: کال رنگ۔
05۔10۔2011۔ 00:37 منصور اعجاز: آپ اپنی ٹویکس بھیجیں گے یا میں اپنی کاپی کو حتمی سمجھوں؟ اگر ٹویکس مختصر ہیں، تو میں انہیں حاصل کرنے کے لئے کال دوں گا۔
05۔10۔2011۔ 12:45 منصور اعجاز: مجھے ایک سینئر امریکی اینٹلی جنس افسر نے بتایا کہ جی ڈی۔ ایس 11 مسٹر پی نے دریافت کیا اور زیڈ کو برخاست کرنے کے لئے سینئر عرب رہنماؤں سے اجازت حاصل کی۔ جو اس کے مستحق ہیں۔
05۔10۔2011۔ 13:08 حسین حقانی: شکریہ۔ بے حد مفید۔
05۔10۔2011۔ 13:09 حسین حقانی: میں اور میرا دوست درمیانی آپشن سے متفق ہیں۔ کام شروع کریں۔
05۔11۔2011۔ 12:33 منصور اعجاز: مجھ سے پوچھا گیا ہے کہ پتہ کروں آپ کی میٹنگ کس وقت ہے۔ اب تک کے جوابی ردعمل سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کا سختی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ گو کہ وہ اسے تقریباً ناقابل یقین سمجھتے ہیں کہ کوئی ایسے نتائج دے سکتا ہے جس کی توقع ہو، میرے خیال میں۔ امید ہے تم گھر خیریت سے پہنچ گئے ہوں گے۔ کیا تم لندن میں قیام کے دوران پرویز مشرف سے ملے۔
05۔11۔2011۔ 14:59 منصور اعجاز: کال رنگ۔
فنانشل ٹائمز میں نومبر 2011 کے پہلے ہفتے میں فنانشیل ٹائمز میں آرٹیکل شائع ہونے کے بعد منصور اعجاز کی حسین حقانی سے بات چیت کی تفصیلات۔
حسین حقانی: تم یہ کہتے رہو کہ تم نے مسیج پہنچا دیا ہے اور ثابت کرنے کے لئے اسے بلیک بیری مسیج پر دکھاؤ۔
حسین حقانی : تم ایک امریکی شہری ہو۔
حسین حقانی: تمہیں امریکی مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔
منصور اعجاز: میں نے ایک آرٹیکل لکھا ہے۔ اور اس وقت سے کسی کو بھی ایک لفظ آن ریکارڈ نہیں بتایا۔
حسین حقانی: پاکستان کی سیاست میں امریکی پٹھو تصور کیا جانا افادیت کھو دیتا ہے۔
حسین حقانی: اب اس کو ختم ہونے دو۔
حسین حقانی: ہم درست سمت میں ہیں۔
حسین حقانی: ہم اب بھی منظر نامہ ترتیب دے سکتے ہیں۔
منصور اعجاز : او کے، مجھے معلوم ہے میرا آئی کیو کمزور ہے، ہو سکتا ہے تم ٹھیک کہہ رہے ہو، میں سمجھ نہیں سکا۔
حسین حقانی: تم پی پی ایل کو وطن جانے نہیں دو۔ میں تمہاری ٹیم سے کھیلوں گا، اپنی سے نہیں۔
منصوراعجاز: لیکن میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ اگر حقیقی خطرہ ہے، جیسا کہ تم نے اس وقت بتایا تھا۔
حسین حقانی: تم یہ سمجھ رہے ہو کہ پاکستان میں ایسی طاقتور شخصیات نہیں جو ڈبلیو / یو ایس قبل از وقت انکشاف افشا کرنے پر آمادہ ہوں۔
حسین حقانی: یہی وہ جس تم نے مس کیا۔ اور تمہیں یہ کوئی اور نہیں بتا سکتا کہ تم تنک مزاج ہوتے اور حس مزاح کھوتے جا رہے ہو۔
منصور اعجاز: میں کوئی کروڑ پتی نہیں ہوں۔ لیکن ساحل سمندر پر اچھی جگہ کے بارے میں ضرور جانتا ہوں۔
حسین حقانی: میں بھی کوئی مضافات کا پلا بچہ نہیں ہوں، لیکن مجھے اچھے لوگوں کو دوست بنانے کا فن آتا ہے۔
منصور اعجاز: جی ز ز ! تم کیا، تم میرے چکر لگاتے رہو گے۔
حسین حقانی:کون کہتا ہے میں تمہارے چکر لگاتا رہتا تھا، ایک منٹ قبل تک تو تم میرے چکر لگا رہے تھے۔
منصور اعجاز: کیا واقعی!
منصور اعجاز: مجھے ایک اہم بات بتاؤ۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں کون تمہارا مداح اور کون نقاد ہے۔
حسین حقانی: امریکی اسٹیبلشمنٹ میں ، میں لیون اور پیٹریاس پر بھروسہ کر سکتا ہوں۔
منصور اعجاز: میرے خیال میں تم باس تھے۔
منصور اعجاز: تمہارا مخالف کون ہے؟
حسین حقانی: وزارت خارجہ میں کچھ لوگ مجھے پسند نہیں کرتے۔
منصور اعجاز : کیوں؟
منصور اعجاز: کیا اے زیڈ کے قریب ہونے کی وجہ سے؟
حسین حقانی: ان کے خیال میں میں ڈی او ڈی اور دیگر کے ساتھ زیادہ ملوث ہوں اور پاک فوج سے ڈیل میں مددگار نہیں ہوں۔
حسین حقانی: اے زیڈ سے کچھ زیادہ قریب ہوں۔
منصور اعجاز : میں ہمیشہ یہ سجھتا رہا کہ ایچ آر سی تمہاری بڑی مداح ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے خطے سے ایک خاتون بھی ان کے ساتھ کام کر رہی ہے۔
حسین حقانی: ہو سکتا ہے ایم آر سی مجھے پسند کرتی ہو۔ لیکن رچرڈ ہالبروک میرے زیادہ گرویدہ رہے۔ جو بھی ان کو پسند نہیں کرتا، مجھ سے بھی نفرت کرتا ہے۔
حسین حقانی: اسٹیٹ طریق عمل کو پسند کرتا ہے۔
حسین حقانی:کانفرنسیں اور بیانات۔ کچھ بھی تو تبدیل نہیں ہوا۔
منصور اعجاز: بہر حال اسٹیٹ ہمیشہ سے مجھے پسند نہیں کرتا کیونکہ میں ان کے طریق کار سے اتفاق نہیں کرتا۔
حسین حقانی: روبن رافیل، گراسمین کی نائب بن کر آگئیں۔
حسین حقانی: تم نے کشمیر مشن کے ذریعے اسکے انگوٹھے پر اپنا پیر رکھ دیا۔
MI(منصور اعجاز): گراسمین مجھ سے واقف ہے اس کو معلوم ہے کہ میں کتنا سیریس ہوں، رافیل کشمیر مداخلت پراب بھی مجھ سے نفرت کرتی ہے، اس نے میری ایسی کی تیسی کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔
HH (حسین حقانی): اب وہ مجھ سے زیادہ چڑتے ہیں جب فاکس ملک واپس آیا جو مجھ سے نفرت کرتا ہے اور اس نے اس کو بتایا کہ میں اور تم معاملات پر ساتھ ہیں (یہ الگ بات کہ ہم ہیں یا نہیں)
HH (حسین حقانی): گراسمین اچھا آدمی ہے لیکن وہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی زندگی سے بڑھ کر کردار پلے کرے، اولڈ اسکول!
(حسین حقانی): یہ وجہ ہے کہ میں تم سے درخواست کر رہا ہوں
MI: ہاں میں جانتا ہوں جب وہ ہمارا لابسٹ تھا تب سے واقف ہوں وہ اچھا انسان ہے۔
HH : اس نے مجھ سے توجہ ہٹا لی۔
MI: قہقہہ۔ یقین نہیں کہ تم سے توجہ ہٹا لی۔
HH : میں کوشش کرتا ہوں کہ یہاں معاملہ ٹھیک ہو جائے اور ملک میں لڑائی پر توجہ دوں۔
MI: ڈپلومیسی شاندار۔
HH : ہاں۔ صحیح ہے! لیکن کم از کم مجھے یہ نہیں کہا جانا چاہیئے کہ میں تمہاری ٹیم کے لئے کھیل رہا ہوں۔
MI : کیوں نہیں؟ تم ان دنوں میں اچھی رہنمائی کرتے رہے ہو۔
HH : میں مسئلہ حل کرنا چاہتا ہوں، لڑنا نہیں۔
HH : دیکھو اور انتظار کرو ہیلری کے تازہ حملے چیزوں کوکس سمت میں تبدیل کرتے ہیں۔
MI : کیا ہم نے حقیقتاً ایک حقیقی مسئلہ حل کیا ہے یا یہ سب دھواں اور آئنیہ ہے؟ میرا مطلب ہے ان دنوں کا دباؤ133
HH : میرا خیال ہے ہر شخص ISloo Sucks ہے۔
MI: بالکل درست!
HH : معاملہ حل ہونا کہنا جلد بازی ہوگی۔
MI: اگر ہر شخص چوسنے میں لگا ہے تو ہم نے کیا بچایا۔ ایک ڈوبتا جہاز جو کسی بھی طرح ڈوبنے جا رہا ہے؟
HH : یہ ایک جینیاتی مسئلہ ہے بالآخر صورت حال موافق ہو جائے گی۔
MI: یقیناً
HH : میرا خیال ہے ہم نے انتہائی خراب حالات سے قبل صورت حال بہتر کر لیں گے۔
MI: تم کیسے مسئلے حل کر سکتے ہو، تمہیں یہاں خوب معلوم ہے اگر تمام افراد جو وہاں انچارج ہیں غلط ہیں؟ صرف ایک سال میں امریکا میں ہم نے تبدیلی دیکھی، تب تمہیں حقیقتاً نہیں پتہ تھا یہاں کون ہوگا!
HH : میرا مطلب ہے شاہ ایران محفوظ رہتا اور بعض حقیقی اصلاحات متعارف کرا دی جاتی تو ایران بہتر کر سکتا ہے۔
HH : اصل میں، میرا خیال ہے معاملات کے لئے نئی PPL بہتر ہو گی۔ وہ جھوٹ برداشت نہیں کرتے۔
MI : اس پر شرط نہیں لگانا، ہم دہشت گردوں کی بڑی تعداد تیار کرکے سسٹم میں داخل کر رہے ہیں۔
وہ کسی پاکستانی پر بھروسہ نہیں کرتے۔
یہ کوئی مسئلہ نہیں۔
HH : ٹھیک۔ اس صورت میں مجھے ساحل کا سستا ٹکڑا تلاش کر دیں۔
MI: کین، رومنے (جو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں) ہیری۔ سب اسی طرح کے ہیں۔ ٹھیک۔ میں ارینج کر سکتا ہوں۔
Z کیوں ایک ایڈیٹ چاہتا ہے؟
HH : لیکن مشاورت سے قبل کچھ نہیں لکھتا اس معاملے پر۔
HH : سخت سوال ہے۔
HH : بولتے ہوئے 20 منٹ ہو گئے، پھر بات کرتے ہیں۔
HH : بائے
MI: او کے۔ گڈ لک
HH : تھینک یو
MI: ہائے بڈی، میرا خیال ہے تم / تمہارے دفتر خارجہ والے لاٹھیاں کلہاڑیاں لے کر میرے پیچھے پڑ گئے ہیں، بدقسمتی سے۔ انتہائی بدقسمتی۔
HH : میں معلوم کروں گا اور انہیں روکوں گا، اس کی ضرورت نہیں ہے۔
HH : تم پاکستانی میڈیا سے بات کرکے مدد نہیں کر رہے۔
HH : خاموش مجاہد کے ساتھ کیا ہو۔
منصور اعجاز: عمران خان کی ریلی کے بعد یہ سب کچھ ختم کرنے کے لئے بیان جاری کیا ہے، لیکن میں اپنی کردار کشی برداشت نہیں کروں گا۔
حسین حقانی: مجھے اتفاق ہے۔ اس کو روکنے کے لئے اپنی پوری کوشش کروں گا۔
منصور۔ روجر دیٹ۔
حقانی۔ کوئی کیا کرتا ہے اس کے بجائے اپنے پالیسی پیغام پر فوکس کرو۔
منصور۔ پلیز اپنے باس کو یاد دلائیں کہ ان کی عزیز بیگم، جو بعد ازاں میری بہت اچھی دوست بن گئی تھیں، نے 1996 (میں یہ گھٹیا طریقے اختیار کئے تھے)، تب ملیحہ پاکستان کی سفیر تھیں، نتیجتہً نومبر 96 میں ان کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔
حقانی: میں ایسا شخص نہیں ہوں، وہ مجھ سے پیغام کو بہتر طورپر وصول اور سمجھ لیں گے۔
منصور: عمران کو میرا جواب بہت سادہ اور سچا تھا، میں نے کوئی باغیانہ خط نہیں لکھا اور اگر عمران کے پاس کوئی کاپی ہے تو وہ سامنے لائیں۔
حقانی: میرا نہیں خیال کہ تمہاری دھمکی کارگر ہو گی۔
منصور : یہ میرے نکتہ نظر سے درست ہے مگر سیاست دان سیاست دان بنے
منصور۔ میں نے کوئی دھمکی نہیں دی، حقائق بتاتے ہیں، تمہارے باس کو حقائق بتانے کی ضرورت ہے۔
حقانی: تمہیں یقین ہے تمہاری جانب سے تردید نہیں ہو گی۔
منصور : نہیں ممکن ہے وہ کر دیں، لیکن یہ ایک غلطی ہو گی، دوسری جانب کافی ثبوت موجود ہیں۔
حقانی: مگر کیا کوئی چیز ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں؟
حسین حقانی:کیا یہ نجی نوعیت کا مشن نہیں تھا جس کی حکام تردید کرتے ہیں؟
منصور اعجاز :مجھے معلوم ہے کہ اور نہ اس کی پرواہ ہے میرا موقف سادہ ہے میں جو کرنے جارہاہوں وہ بتادیا
حسین حقانی:اگر تم میرا مشورہ مانو ،تم اسے پھیلنے دو اور بعد میں اپنے آپ کو ثابت کرو
حسین حقانی:عام طورپر یہ میری حکمت عملی ہوتی ہے۔اس وقت وہاں پہنچو جب دیگرازخود ختم ہوچکے ہوں۔
منصور اعجاز:میں اپنی بات پر قائم ہوں۔تم نے وہی کچھ کیا جو تمہارے خیال میں باہر چینلز پر موجود تھا۔
حسین حقانی:میں وہی کروں گا جسے میں ٹھیک رکھ سکتاہوں۔
حسین حقانی:میرے پاس نہیں ہے
منصور اعجاز:تم جس بات کا مجھے کریڈٹ دے رہے ہو میں اس سے کہیں زیادہ جانتا ہوں۔
حسین حقانی:ایک دوسرے سے جڑے رہو،اپنا خیال رکھو۔
حسین حقانی:میں نے خاموشی برقرار رکھی ہوئی ہے کسی ردعمل سے پہلے مجھ سے دریافت کرلو۔
منصور اعجاز :یہ بات دلچسپ اور حوصلہ افزاء ہے کہ میمو میں دی گئی کئی تجاویز میری بلیک بیری وائرلیس ڈیوائس سے بھیجی گئیں۔

Leave a comment