Published On: Thu, May 19th, 2011

صرف ایک گھنٹہ

Share This
Tags

فکر روزگار میں اتنے منہم نہ ہوئیے کہ پیارے آپ سے ملنے کو ترس جائیں

رابرٹ کلے منٹس/ جہاں زیب

بسا اوقات ہم اپنی ملازمت یا کاروبار میں شدید محنت کرنے کے بعد گھر دیر سے پہنچیں تو تمام اہل خانہ گہری نیند سو چکے ہوتے ہیں۔ ہم دبے پاؤں اپنے بچوں کے کمرے میں جھانکتے ہیں تو ان معصوموں کو بے فکری سے سوتے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ہم محنت مشقت اسی لیے کرتے ہیں کہ یہ بہتر سے بہتر زندگی بسر کر سکیں۔ جو لوگ اس بہانے خود کو تسلی دیتے ہیں، یہ کہانی ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے شاید مؤثر ہو؟
ایک شخص رات گئے تھکا ماندہ جھلایا ہوا گھر پہنچا تو اپنے سات سالہ بیٹے کو دروازے پر کھڑا پایا۔
’’بابا!‘‘ بیٹے نے کہا ’’میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں؟‘‘
’’ہاں، ہاں، کیوں نہیں، پوچھو، کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘
’’بابا! آپ ایک گھنٹے میں کتنا کما لیتے ہیں؟‘‘ بیٹنے نے پوچھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ باپ نے کہا ’’تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
’’ایسے ہی، میں بس جاننا چاہتا ہوں۔‘‘ بیٹے نے کہا۔
’’برائے مہربانی، مجھے بتائیے کہ آپ ایک گھنٹے میں کتنا کما لیتے ہیں؟‘‘
’’میں ایک گھٹنے میں 100 روپے تک کما لیتا ہوں۔‘‘ باپ نے سادگی سے بتایا۔
’’اوہ۔‘ ‘ چھوٹے بچے نے یہ سن کر سر جھکا لیا اور پھر نظریں اٹھا کر بولا۔ ’’ابو، کیا آپ مجھے 50 روپے ادھار دے سکتے ہیں؟
باپ یہ سن کر آگ بگولہ ہو گیا، ’’اگر پوچھنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ تم کوئی فضول سا کھلونا خرید لو یا کوئی دوسرا احمقانہ کام کرو تو سیدھے کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ جاؤ۔ کیا میں دن رات محنت مشقت اس لیے کرتا ہوں کہ تمہاری نامعقول خواہشات پوری کرتا رہوں؟‘‘
بچہ چپ چاپ اپنے کمرے میں گیا اور دروازہ بند کر لیا۔ وہ شخص اپنے کمرے میں پہنچا اور کپڑے بدل کر آرام کرنے لگا۔ تب اس نے بچے کے سوال پر غور بھی کیا۔ رفتہ رفتہ اس کا غصہ فزوں ہو گیا۔ باپ نے پھر سوچا کہ چند روپے کے لیے بچے نے اس قسم کا سوال کیوں کیا؟
کچھ دیر بعد جب وہ پرسکون ہو گیا تو اسے پھر اپنے بیٹے کا خیال آیا۔ سوچا، ہو سکتا ہے، اسے واقعی کسی خاص چیز کی ضرورت ہے۔ وہ تو شاذو نادر ہی پیسے مانگتا یا کوئی فرمائش کرتا ہے۔
وہ اٹھ کر بیٹے کے کمرے کی جانب چل دیا اور دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔ ’’تم سو رہے ہو بیٹے؟‘‘ اس نے قدرے ہچکچاتے ہوئے آواز دی۔
’’میں جاگ رہا ہوں۔‘‘ بچے نے جواب دیا۔
’’بیٹے‘‘ شاید اس وقت میرا رویہ قدرے تلخ ہو گیا تھا۔ آدمی نے کہا۔ ’’دن بھر کی محنت نے مجھے نکا دیا اور میں نے اپنی جنجھلاہٹ تم پر اتار دی۔ یہ لو 50 روپے۔‘‘
باپ کو اس وقت خاصی تشفی ہوئی جب اس نے بیٹے کے چہرے پر خوشی کے رنگ ابھرتے دیکھے۔
وہ چھوٹا بچہ اپنے بستر پر اٹھ کر بیٹا گیا اور مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’اوہ، شکریہ بابا!‘‘ ای کی آواز بھی قدرے بلند تھی۔ پھر اس نے تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا۔ جب ہاتھ باہر نکلا تو اس نے چند مڑے تڑے نوٹ دبے ہوئے تھے۔
یہ دیکھ کر بیٹے کے پاس رقم پہلے سے موجود ہے، باپ کا غصہ عود کر آیا۔
بچہ آہستہ آہستہ اپنی رقم گننے لگا۔ پھر اس نے سر اٹھایا اور مسکراتے ہوئے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔
’’بابا!‘‘ وہ بولا۔ ’’ایک منٹ‘‘ باپ نے کہا۔ ’’جب تمہارے پاس پیسے پہلے سے موجود تھے تو پھر تمہیں مزید رقم کس کے لیے چاہتے تھی‘‘ ’’ا س لیے کہ وہ ناکافی تھی، لیکن اب پوری ہو گئی ۔‘‘
بچے نے جواب دیا ’’اب میرے پاس پورے 100 روپے ہیں۔ میں آپ کے وقت کا ایک گھنٹا خرید سکتا ہوں؟ برائے مہربانی، کل ذرا جلدی آ جائیے گا۔ میں رات کا کھانا آپ کے ساتھ کھانا چاہتا ہوں۔‘‘
Displaying 1 Comments
Have Your Say
  1. Zahid says:

    Good

Leave a comment