Published On: Thu, Jun 23rd, 2011

خوبصورت نظاروں کے باعث مشہور، شندور ٹورنامنٹ

شندور میں ہونے والا کھیل پولوکی خالص اور اصل شکل تصور کی جاتی ہے اور یہ ٹورنامنٹ جولائی میں دنیا کے بلند ترین پولو گراؤنڈمیں ہوتا ہے

تصورالکریم بیگ /واشنگٹن
ہر سال پاکستان کے شمالی علاقوں میں پولو کا منفرد مقابلہ منعقد ہوتا ہے جس کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ ٹورنامنٹ دنیا کے بلند ترین پولو گراؤنڈ پر ہوتا ہے۔ شندورپولو ٹورنامنٹ کے نام سے معروف یہ تین روزہ مقابلہ ہر سال جولائی کے مہینے میں منعقد ہوتا ہے اور ملکی اور بین الاقوامی شائقین اور سیاحوں میں خاصا مقبول ہے۔
شندور میں ہونے والا کھیل پولوکی خالص اور اصل شکل تصور کی جاتی ہے جس کے نہ ہی کوئی ضابطے ہیں اور نہ ہی کوئی بندش۔ شندور میں یہ کھیل آج بھی قدیم وقتوں کے مطابق اور اپنی ابتدائی طرز پر کھیلا جاتا ہے اور اپنے خوبصورت مقام کے بعد یہی وہ دوسری وجہ ہے جس کے باعث یہ فیسٹول مشہور ہے۔
شندور، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کی سرحدوں پر واقع ہے۔ درہ شندور سطح سمندر سے تقریباً 3738 میٹر کی بلندی پر ہے۔ سردیوں میں یہ سارا علاقہ برف میں لپٹا رہتا ہے جبکہ گرمیوں میں یہ خطہ سبز چادر اوڑھے پولو میچ اور اسے دیکھنے کیلیے دنیا بھر سے شائقین آنے والے شائقین کا منتظر رہتا ہے۔
پولو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پانچویں صدی قبل مسیح یہ کھیل سب سے پہلے فارس (موجودہ ایران) میں کھیلا گیا۔ اس کھیل کو فارس میں چوگان (پولو) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وسطی ایشیاء میں یہ کھیل جنگی مشقوں کے طور پر کھیلا جاتا رہا۔ کئی سو گھڑ سوار جنگ کی طرز پر یہ کھیل کھیلا کرتے اور زیادہ گول کرکے جیتنے کی کوشش کرتے تھے۔ ذرا تصور کریں اس قدیم پولو کا جس میں سینکڑوں گھڑ سوار ایک دوسرے کو پچھاڑرہے ہوں!!اس کھیل کی یہی وہ روایت ہے جس کو اب بھی شندور پولو ٹورنامنٹ نے قائم رکھا ہوا ہے۔
قیاس کیا جاتا ہے کہ پولوکا کھیل اس خطے میں 1926 میں شروع ہوا تھا۔ اس وقت برصغیرپاک و ہند پہ برطانیہ کی حکمرانی تھی۔ روایت ہے کہ برطانیہ کی حکمران جماعت کے ایک رکن میجرایولن ایچ کوب کی تجویز پر شندور میں ٹورنامنٹ کا آغاز کیا گیا۔ میجر ایولن کی اس تجویز کا محرک ان کی یہ سوچ تھی کہ کیونکہ یہ علاقہ بلند ہونے کے باعث چاند سے قریب ہے لہٰذا یہاں اندھیری راتوں میں بھی پولو کھیلا جاسکتا ہے۔
ابتدائی ایام میں کھیل کیلیے بہت معمولی قواعد اپنائے گئے جس کے باعث کئی اموات بھی ہوئیں۔ تاہم رفتہ رفتہ یہی خونی طرز اس کھیل کی انفرادیت قرار پائی اور دیکھنے والوں کی دلچسپی کا سبب بنی۔ شندور کے گردونواح کے علاقے، گلگت اورچترال میں اب بھی اس کھیل کو اسی انداز میں کھیلا جاتاہے۔
اس سال کے ٹورنامنٹ کی خاص بات یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی نے سرکاری طور پر نوبیاہتا برطانوی شاہی جوڑے شہزادہ ولیم اورشہزادی کیٹ کو اس سال کے شندور پولو ٹورنامنٹ میں شرکت کی دعوت دی ہے جسے علاقے میں سیاحت کے فروغ کی ایک اچھی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔
یادرہے کہ اس سے قبل 1991ء میں پرنس ولیم کی والدہ آنجہانی برطانوی شہزادی ڈیانا نے خراب موسم کے باوجود شندور پولو ٹورنامنٹ میں شرکت کرکے عوام کو خوشگوار حیرت میں ڈال دیا تھا جبکہ ولیم کے والد شہزادہ چارلس بھی 1997ء میں پولو میچ دیکھنے کیلیے علاقہ کا دورہ کرچکے ہیں۔
چند ماہ قبل پاکستانی علاقے گلگت بلتستان کے وزیر اعلی سید مہدی شاہ نیشندور پولو ٹورنامنٹ کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک وفاقی حکومت گلگت بلتستان اور اور صوبہ خیبر پختونخوا کے درمیان متنازعہ حدودکا مسئلہ طے نہیں کرتی، ان کی حکومت کی جانب سے اس فیسٹول کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
تاہم مہدی شاہ نے شہزادہ ولیم اورشہزادی کیٹ کوشندور پولو ٹورنامنٹ دیکھنے کی دعوت کو پاکستان اور علاقے کی ساکھ کے لئے ایک مثبت قدم قراردیا۔ سیدمہدی شاہ نے کہا کہ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں مل کر اس ٹورنامنٹ کو کامیاب بنائیں گی۔ان کے بقول وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے چھ ماہ میں سرحدی تنازعہ کو حل کرانے کا یقین دلایا ہے اوردنوں اطراف کے چیف سیکریٹریز اور غزر اور چترال کے ڈپٹی کمشنرز اس معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔

Leave a comment