Published On: Thu, Jul 2nd, 2015

فیصلہ قریب ،جوڈیشل کمیشن نے دھاندلی مان لی تو حکومت گھر جائےگی

Share This
Tags
الیکشن 2013ء تیسرے سال میں داخل ہو چکے ہیں، ان انتخابات میں منظم دھاندلی یا کوئی سازش کارفرما تھی اس کا فیصلہ ’’جوڈیشل کمشن‘‘ سنانے کو ہے، ایک بات طے ہے کہ فیصلہ کسی کے بھی خلاف آئے پاکستان کے جمہوری نظام کے حق میں ہوگا۔ ہمارے رائے ہے کہ کمیشن کے متوقع فیصلے میں اگرمنظم دھاندلی یا سازش ثابت ہو تو موجودہ حکومت گھر جائے اور نئے انتخابات کروانے کے لئے کمٹڈ ہے۔ سو پچھلے عام انتخابات میں جو انتظامی خامیاں موجود رہی ہیں نئے عام انتخابات کروانے سے پہلے اس بات کا یقینا اہتمام کر لیا جائے گا کہ نئے سرے سے پچھلی کوئی خرابی نہ ہو اور یہ بھی کہ الیکشن میں حصہ لینے والے تمام فریق خوش دلی کے ساتھ انتخابی نتائج تسلیم کریں، یوں پاکستان میں جمہوریت کا استحکام ہوگا تاہم یہ فیصلہ آیا کہ نہ منظم دھاندلی ہوئی اور نہ ہی کوئی سازش ہوئی البتہ بعض بے ضابطگیاں ضرور ہوئیں تو تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتیں اپنے اعلان کے مطابق اس فیصلے کو بھی تسلیم کریں گی اور موجودہ حکومت اپنی سانچہ سالہ میعاد پوری کرے گی اور آئندہ انتخابات 2018 میں ہوں گے، ہمارا ایمان ہے کہ اس صورت میں بھی پاکستان کے موجودہ نظام کو نئی قوت ملے گی اور ہم بھی مغربی ممالک کی طرح بہتر جمہوری ملک کہلوانے کے حقدار بن سکیں گے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اپنے اس دور حکومت کے مشکل ترین پہلے دو سال کامیابی سے گزار چکی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دو سالوں میں نواز شریف حکومت ملک سے مکمل طور پر نہ دہشت گردی ختم کرپائی ہے نہ ہی بجلی کا بحران حل ہو سکا ہے اور نہ ہی معیشت قابل فخر بن سکی ہے عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، مزدوروں کی پنشن3600 سے بڑھا کر 5250 روپے ضرور کردی گئی ہے لیکن یہ اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے، پرائیویٹ ادارہ کے مزدور کی کم ازکم کم پنشن10 ہزار روپے ماہانہ ہونی چاہیے تاکہ وہ عزت سے روٹی کھا سکے۔ ضرب عضب کے ذریعے حکومت، فوج اور اپوزیشن جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم پر آکر اورمشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جس سے بلاشبہ دہشت گردی میں کمی آئی ہے جو کہ حکومت کا کریڈٹ شمار ہونا چاہیے، بجلی کی پیداوار راتوں رات نہیں ہو سکتی اس سے عام آدمی بھی آگاہ ہے سو لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنے والے عوام اگرچہ چیخ اور چلا رہے ہیں لیکن انہیں بھی اس بات کا ادراک ہے کہ اس برس لوڈشیڈنگ پچھلے برس کی نسبت کم ہے جبکہ بجلی کی پیداوار کے لئے حکمران تن من دھن لگائے ہوئے ہیں اور اب تو وزیراعظم نواز شریف نے پہلی مرتبہ 2017ء میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا عزم ظاہر کردیا ہے۔ جہاں تک معیشت کا تعلق ہے اس بارے میں بھی ماہرین کا کہنا ہے کہ معاملات بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
jidicial comession decisionسو اس صورت حال کا حکمران مسلم لیگ (ن) کو فائدہ پہنچ رہا ہے جبکہ پنجاب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کی جاندار حکومت صوبے کو ہرلحاظ سے ترقی کی راہ پر ڈالنے میں چاروں صوبوں میں سبقت لیے ہوئے ہے، ہمیں پچھلے مہینوں میں سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا یقین جانیے کہ ان کی اکثریت شہباز شریف کی مداح نکلی اور ان کی جانب سے اس تمنا کا اظہار کیا جاتا رہا کہ کاش شہباز شریف ہمارے صوبے کے وزیراعلیٰ ہوتے اب جبکہ بلدیاتی الیکشن کی آمد آمد ہے، نواز شریف ، شہباز شریف کی اچھی حکمرانی اور مسلم لیگ (ن) کو ایک بڑی سیاسی جماعت ہونے کا فائدہ پہنچنے کو ہے، اگرچہ نئی حلقہ بندیاں کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنروں نے ان حلقوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے جو کہ پچھلے برس بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں بنائے گئے تھے لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو اپنے امیدواروں کو ٹکٹیں دینے میں دیگر جماعتوں کی نسبت کم مشکلات پیش آئیں گی۔ ہماری رائے ہے کہ نئی ہونے والی حلقہ بندیاں اپیل کی صورت میں تبدیل نہ بھی ہو سکیں تو یہ لوگ یونین کونسلوں میں پھر بھی متفقہ امیدوار لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے برعکس تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کو مشکلات کا سامنا ہے، تحریک انصاف میں دھڑے بندیاں ہیں جبکہ پیپلزپارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، تحریک انصاف میں کس قدر دھڑے بندیاں ہیں اس کا اعتراف خود پارٹی کے چیئرمین عمران خان نے بیچ چوراہے میں ہنڈیا پھوڑ کر کیا۔ گارڈن ٹائون کے ایک شادی ہال میں تحریک انصاف لاہور کے آرگنائزر شفقت محمود، ڈپٹی آرگنائزر میر واجد عظیم اور آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبران میاں حامد معراج، شعیب صدیقی، جمشید اقبال چیمہ، فرخ جاوید مون، شبیر سیال، جمشید بٹ، سردار کامل عمر وغیرہ ستائیس رکنی کمیٹی کی جانب سے سوموار 29 جون کو ایک تقریب منعقد کی گئی تھی، عمران خان اس میں مہمان خصوصی تھے ۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی دھڑے بندیاں اس کو آگے جانے سے روک رہی ہیں، یہاں لاہور میں ایک تحریک انصاف نہیں پانچ تحریک انصاف ہیں، بجائے اس کے کہ ہم مسلم لیگ (ن) والوں پر بندوقیں سیدھی کریں خود ایک دوسرے پر تانے ہوئے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں اس لئے شفقت کو آگے لایا ہوں کہ یہ کسی گروپ کا حصہ نہیں ہے، آپ نے آپس میں اکٹھے ہو کر الیکشن کی تیاری کرنی ہے، جیسا الیکشن آپ نے کنٹونمنٹ بورڈ کا لڑا ویسا لڑنا ہے تو خود ہی مسلم لیگ (ن) کو کہہ دیں کہ آپ جیتے۔ جو حالات ہیں مسلم لیگ (ن) کو ہمیں ہرانے کی ضرورت نہیں ہے ہم خود ہی ایک دوسرے کو شکست دینے کے لئے تلے ہوئے ہیں، تحریک انصاف کو خود تحریک انصاف ہی سے خطرہ ہے۔
ادھر پیپلزپارٹی کی حالت سب کے سامنے ہے۔ آصف زرداری اور فریال تالپور بیرون ملک چلے گئے ہیں، بلاول میدان میں آرہا ہے جبکہ پرانے جیالوں سمیت ہوا کا رخ دیکھنے والے پیپلزپارٹی چھوڑنے پر آمادہ ہیں، جہانگیر بدر لاہور سے کراچی جا چکے ہیں جہاں وہ صاحب فراش ہیں، پیپلزپارٹی سے الیکشن 2013 سے پہلے نذر محمد گوندل، ندیم افضل حسین، قمرالزمان کائرہ جیسے لوگ کہیں جگہ نہیں پا سکے تھے اب اڑان بھرنے کی تیاریاں کررہے ہیں، بلاشبہ پیپلزپارٹی اس وقت زوال پذیر جماعت ہے اور اس کا فائدہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو پہنچے گا۔

رپورٹ: فرخ سعید

Leave a comment