Published On: Thu, Aug 18th, 2011

صدر، وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ صاحب !یہ ہوتی ہے حکومت

رمضان میں عرب امارات میں اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں 50فیصدکمی جبکہ پاکستان میں مہنگائی کا سیلاب، ملاوٹ شدہ اشیاء کی فروخت اورلٹیرو ں کو کھلی چھٹی

 

وسیم شیخ
کہنے کو تو عرب امارات میں بادشاہت ہے اور وہاں جمہوریت نہیں لیکن عربوں کی بادشاہت بھی جمہوریت سے بہت آگے نکل گئی ہے ،عوام کو ریلیف اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے انہوں نے جتنا کام کیا ہے اسے دیکھ کر اور سوچ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ پاکستان کے حکمران ایسا کیوں نہیں کرتے ۔ وہ اقتدار میں آنے کے بعد عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اپنی توجہ صرف لوٹ مار پر ہی کیوں لگا دیتے ہیں ۔
ماہ رمضان کا آغاز ہوا تو اطلاع آئی کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے دکانداروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ فوری طور پر روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں 20 سے 50 فیصد تک کمی کردیں۔ اس حکم کے بعد دوکانداروں نے ایسا ہی کیا ۔جبکہ پاکستان میں حال یہ ہے کہ صدر ، وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ صاحبان نے عوام کو ریلیف دینے کے جھوٹے اعلانات کئے اور اس کے بعد سو گئے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے اعلانات کے بعد مہنگائی کا ایسا طوفان آیا جس نے عوام آدمی کو اتنا متاثر کیا کہ ان کی قوت خرید ختم ہو کر رہ گئی ۔ لیکن حکمرانوں کو چونکہ اس سے کوئی سروکار نہیں اس لئے انہوں نے عوام کے اجتجاج پر کان ہی نہیں دھرے۔
ایک عجب تماشا اس وقت ہوا جب حکومت نے یو ٹیلٹی سٹورز پر اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کا ڈھنڈورا پیٹا لیکن رہی سہی کسر یوٹیلیٹی اسٹورزپرفروخت کی جانیوالی اشیاخوردونوش میں ملاوٹ کاانکشاف کے بعد پوری ہو گئی۔یہ انکشافات اس وقت ہوا تھا جب سینیٹرالیاس بلورنے ثبوت کے طورپر میداملابیسن قائمہ کمیٹی برائے صنعت وپیداوارکے اجلاس میں پیش کردیا۔انہوں نے اس ثبوت کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ یوٹیلیٹی اسٹورزسے ملنے والی چائے میں چنے کے چھلکے شامل کیے جاتے ہیں،کسی سطح پر چیکنگ کا نظام موجود نہیں اور یہ کام یوٹیلیٹی اسٹورز ملازمین کی ملی بھگت سے جاری ہے ۔اس اجلاس میں یوٹیلیٹی اسٹورانتظامیہ نے اشیاکی خریداری سے پہلے ان کالیب ٹیسٹ نہ کرانے کااعتراف کر کے جان چھڑا لی اور حسب ضا بطہ قائمہ برائے صنعت و پیداوار نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کو ہدایت کر دی کہ خریدی جانے والی غذائی اشیاء کے مختلف مراحل پر ٹیسٹ کرائے جائیں اور معیار کی نگرانی کا جامع اور فول پروف نظام تشکیل دیا جائے تاکہ عوام کو صحت بخش اور معیاری اشیاء کی دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔اس طرح سب نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی ۔
اب یہ بات حکومت سے ڈھکی چھپی نہیں ایسا کون اور کیوں کر رہا ہے؟سب جانتے ہیں کہ انتظامیہ کی غفلت اور بھتہ خوری کرکے نظرانداز کرنے کی پالیسی کے باعث بازاروں میں غیر معیاری دالیں، کھجوریں، پھل، سبزیاں مہنگے داموں فروخت ہورہے ہیں اور سرکاری نرخوں پر عمل بھی نہیں ہورہا۔ چالیس روپے کلو والا آم ساٹھ روپے کلو میں فروخت ہورہا ہے۔ کھجور دو سو روپے کلو، آڑو اسّی روپے کلو، سیب ایک سو پچاس روپے کلو، انگور ڈھائی سو روپے کلو، کیلاستر روپے درجن فروخت ہورہا ہے ، جبکہ چینی نو ے روپے کلو میں فروخت ہورہی ہے۔ اس مہنگائی مافیا کو کوئی روکنے اور پوچھنے والا نہیں ہے ۔
رمضان بازاروں میں عوام کی صحت سے کس طرح کھیلا ا جا رہا ہے اس کا ثبوت جانوروں کے چارے میں استعمال ہونے والی دال کا بیسن بناکر فروخت ہے۔ اس دال سے بنائے ہوئے بیسن کے پکوڑے کھانے سے پیٹ کی بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ جانوروں کے چارے میں استعمال ہونے والی دال سے بیسن تیار کرتے وقت چنے کی دال بھی شامل کی جاتی ہے تاکہ اس کی رنگت تبدیل ہوجائے اور یہ خالص بیسن معلوم ہو ۔ ہوسکتا ہے کہ اسی لیے تاجروں نے بیرون ملک سے جانوروں کے چارے میں استعمال ہونے والی دالوں کو منگواکر اس کے ذریعے بیسن تیار کرکے فروخت کرنا شروع کررکھا ہے۔ یہ دالیں آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور کینیڈا سے منگوائی جاتی ہیں۔ اس دال سے بیسن تیار کرنے کا دھندہ کراچی اور لاہور میں سب سے زیادہ ہے اور تیسرے نمبر پر فیصل آباد شہر ہے جہاں چھوٹے تاجر کراچی اور لاہور سے ایسی دال خرید کر اس سے بیسن تیار کرتے ہیں اور آج کل یہی بیسن سستے بازاروں میں فروخت کیا جارہا ہے۔ راولپنڈی میں بھی ایسی کارروائی کہیں کہیں ہورہی ہے۔ اس دال سے بنے ہوئے بیسن کی قیمت کم ہوتی ہے اور سستا بیسن مل جانے کے باعث اس پر منافع بھی قدرے زیادہ ہوتا ہے۔ جانوروں کے چارے میں استعمال ہونے والی دال کا چھلکا بھی فروخت ہوجاتا ہے جو چارے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس دال سے بیسن بنانے کے لیے رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے بہت پہلے اسے بیرون ملک سے منگوایا جاتا ہے اور اسٹاک کرلیا جاتا ہی، اور بعد ازاں اس سے بیسن تیار کرکے مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے۔
ضلعی انتظامیہ اگر یہ کہے کہ وہ اس بات سے لاعلم ہیں تو وہ جھوٹ بول رہی ہے ۔ ان لوگوں کو سزا دینا بھی مشکل نہیں جو عوام کی صحت سے کھیل رہے ہیں لیکن چونکہ ان کی اپنی جیبیں بھر دی جاتی ہیں اس لئے حکمران طبقہ خاموش ہے۔ کاش ہمارے حکمرانوں میں بھی متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں جیسی سوچ پیدا ہوجائے تو پاکستان کے عوام کی بھی قسمت بدل سکتی ہے۔
Displaying 2 Comments
Have Your Say
  1. iqbal says:

    in logoon ko kahian shram aati hay.in kamottotoawan kolootna hay , awam ko relief daina nahee
    Iqbal

  2. kia kahoon, yeh bhol gay hain kaa in ko Allah S W T ka samna bhe paish hona hae

Leave a comment