Published On: Thu, Aug 28th, 2014

اتنے مردوں میں لگتا ہے میں نے گناہ کر دیا ،ہجرت کرنیوالی وزیرستان کی خواتین کے دکھ

Share This
Tags
وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے کی تکالیف تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے پیچھے چھپ گئی ہیں۔
راشن کے لیے اتنے سارے مردوں میں اکیلے، عجیب محسوس ہو رہا ہے۔ مردوں کے اس ہجوم میں اکیلے ایسا لگتا ہے جیسے میں نے کوئی گناہ کر دیا ہے۔ یہ کہنا تھاidm-camp-bannu شازیہ (فرضی نام) کا جو شمالی وزیرستان میں انتہا پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کی وجہ سے اپنے گھر میران شاہ سے بنوں آئی ہیں۔ تپتی دھوپ میں ریشم کے سفید برقعے میں سر سے پاؤں تک ڈھکی شازیہ ماں اور تین بہنوں کے لیے راشن لینے ایک غیر سرکاری تنظیم کے راشن پوئنٹ پرمردوں کے ہمراہ اکیلی کھڑی تھیں۔ ان کے والد کا انتقال ہو چکا ہے اور ان کا بھائی بیرون ملک نوکری کرتا ہے۔
شازیہ کا کہنا تھا کہ ’’اگر ہمارے گھر میں مرد نہیں ہے تو کیا ہم بھوکے مریں؟‘ ‘
شازیہ کی تلخی کی وجہ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے قبائلی رہنماؤں کا یہ فیصلہ ہے جس میں انھوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ خواتین تک براہِ راست امداد نہ پہنچائیں، ان کے مرد امداد لینے آئیں گئے اور کوئی بھی عورت گھر سے مرد کے بغیر اکیلی نہیں نکل سکتی۔
مجبوری کی وجہ سے معاشرے سے بغاوت کر کے ھر سے باہر نکلنے والی بعض قبائلی خواتین نے کیمرے پر آنے سے انکار کر دیا۔ خاتون صحافی ہونے کے باوجود ان سے بات کرنے میں کئی دشواری پیش آئی۔ یہ دلائل دینے کے باوجود بھی کہ شناخت شائع نہیں کی جائے گی، شازیہ کے خدشات دور کرنے میں خاصا وقت لگا۔ وہ اس بات سے خائف تھیں کہ اگر کسی بھی رشتہ دار نے ٹی وی پر انھیں دیکھ لیا تو بہت بدنامی ہو جائے گی اور نہ جانے سزا کیا ملے گی۔ اس سلسلے میں بنوں کمشنر سید محسن شاہ نے بات کرتے ہوئے کہا:
’’قبائلی عمائدین کے ایک جرگے نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور گورنر سے درخواست کی ہے کہ ان کی عورتوں کی نہ تو رجسٹریشن ہو گی اور نہ ہی وہ بغیر مرد کے گھر سے باہر امداد حاصل کرنے کے لیے نکلیں گی۔ اس لیے انہیں مجبور نہ کیا جائے۔box‘‘
میں نے ان سے پوچھا کہ ان متاثرہ قبائلی خواتین کا کیا ہو گا جن کے گھر میں مرد موجود نہیں؟ اس پر کمشنر بنوں کا کہنا تھا، معاسرتی دباؤ کی وجہ سے ہماری رسائی متاثرہ خواتین تک بہت مشکل ہو رہی ہے۔ ہم جرگے کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس سے دشواریاں بڑھ جائیں گی۔ آپ کسی کو مجبور تو نہیں کر سکتے کہ ہمیں آپ کی خواتین سے ملنا ہے یا بات کرنی ہے۔
کمشنربنوں کے مطابق’’بنوں میں اب تک ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ آئی ڈی پیز رجسٹر کیے گئے ہیں جن میں70 فیصد سے زیادہ کی شرح خواتین اور بچوں کی ہے۔‘‘
خواتین کے لیے مخصوص پاکستان ہلال احمر کے ایک ہیلتھ یونٹ گئی تو وہاں کا لے برقعے میں ڈھکی گل بی بی(فرضی نام) سے ملاقات ہوئی۔ ان کی کمر اور جوڑوں میں درد ہے۔ آپریشن کے باعث گھر چھوڑنے کی خبر ملی تو انھیں میران شاہ سے بنوں تک کا سفر پیدل طے کرنا پڑا۔ ضروری سامان اٹھائے وہ تین دن پیدل چلنے کے بعد بنوں پہنچیں جس کی وجہ سے اب ان کی تکلیف بڑھ گئی ہے۔ مگر ہر تکلیف سے بڑا قبائلی روایات کا تقدس ہے۔ انہیں خصوصی خواتین کے لیے بنائے گئے مرکز پر بھی جانے کے لیے اپنے شوہر کو راضی کرنے کے لیے بھی جتن کرنے پڑے۔باآخر انہیں شدید تکلیف مین دیکھ کر ان کے شوہر انھیں ڈاکٹر کے پاس لے ہی آئے۔ آپریشن ضرب عضب کے پیش نظر شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے ہر فرد کی تکالیف پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عومی تحریک کی جانب سے طاقت کے گڑھ اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے پیچھے چھپ گئی ہیں۔

 

Leave a comment