Published On: Tue, Jun 21st, 2011

موٹروےپولیس بھی اغواءبرائےتاوان کی وارداتوں میں شریک،ایک دلخراش داستان

Share This
Tags

اغوا برائے تاوان کی ایک ایسی داستان جسے سن کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے

فیصل خان
چوبیس ستمبر 2010 کا دن میری زندگی پر انمٹ یادیں چھوڑ گیا ہے، اس دن شام کو میں اپنی گاڑی میں واہ کینٹ کیلئے روانہ ہوا۔ میرے ساتھ بینک اسلامی کا ایک اور رفیق کار مرزا حسن ساجد بیگ بھی تھا۔
میں فیصل خان ولد سکندر خان اور حسن ساجد سر شام اسلام آباد سے براستہ موٹر وے واہ کینٹ کی بینک اسلامی برانچ میں کام کیلئے روانہ ہو گئے۔
بد قسمتی سے ٹیکسلا تھانہ کی حدود میں موٹر وے کے اوپر میری گاڑی کا ایکسل خراب ہو گیا۔ ہم نے گاڑی روکی ، ایکسل کی خرابی کی وجہ سے ہم نے موٹر وے پولیس سے رابطہ کر لیا۔ موٹر وے پولیس کا ہمارے ذہنوں میں ایک بہت ہی اچھا تاثر تھا۔بعدکے واقعات نے یہ تاثر بالکل غلط ثابت کر دیا۔
کچھ دیر بعد موٹر وے پولیس والے پہنچ گئے انہوں نے ہمیں ورکشاپ والوں سے رابطہ کرنے کو کہا۔ ہم نے انسپکٹر فیاض کے ذریعے ورکشاپ والوں کو بلایا۔تقریبا? 45منٹ بعد ورکشاپ والے پہنچ گئے۔ ورکشاپ والوں نے گاڑی کو دیکھا اور ہمیں کہا کہ لفٹر کو بلا لوں۔ کیونکہ گاڑی ٹو کرنی پڑیگی۔ پھر موٹر وے پولیس کے ذریعے لفٹر کو کال کیا۔ لفٹر تو نہیں پہنچا مگر اغوا کنندگان ہمیں لینے آگئے۔ حسرت کی بات یہ ہے کہ اغوا کنندگان کے پہنچنے سے ذرا دیر پہلے موٹر وے پولیس والے ہم سے یہ کہہ کر رخصت ہو گئے کہ آگے ایک اور گاڑی خراب ہے ہم وہاں جا رہے ہیں۔
یہاں سے ہماری بدقسمتی کی داستان شروع ہوگئی۔ اغوا کنندگان جو کہ ہماری طرف پیدل نمودار ہوئے تھے انہوں نے ہمیں ننگے پاؤں دھکے دے کر موٹر وے کی باؤنڈری کراس کرائی اور پھر 3گھنٹے تک کھیتوں میں پیدل چلایا۔یہ ہمیں ایک بار پھر موٹر وے پر لے آئے یہاں پر ہمیں ایک کرولا کار میں ٹھونس دیا گیا اور ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور کار کسی نا معلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئی صبح کے وقت ہم نے اپنے آپ کو ایک تنگ و تاریک کمرے میں بند پایا۔ کمرہ میں دن کے وقت صرف ہلکی سی روشنی آجاتی تھی۔ ہمیں دن رات میں دو لیٹر پانی کا کنستر اور دال کیساتھ دو وقت کی روٹی مل جاتی تھی۔ دن میں دو تین مرتبہ مکوں اور لاتوں سے ہماری تواضع کی جاتی تھی۔کبھی ہمیں کہا جاتا تھا کہ اگر آپ کے لواحقین نے بر وقت رقم ادا نہ کی تو پھر آپ لوگوں کو کسی اور پارٹی کو فروخت کر دیا جائے گا۔ اور کبھی یہ دھمکی ملتی کہ آپ لوگوں کے گردے فروخت کر کے ہم اپنی رقم پوری کرینگے۔ گالیاں بھی کھلے عام دی جاتیں اور کبھی کبھار گپ شپ بھی ہو جاتی تھی۔ ایک دن گپ شپ میں ہی اغوا کنندگان کے سرغنہ نے بتایا کہ آپ لوگوں کی گاڑی کی خرابی کی اطلاع ہمیں موٹر وے پولیس نے ہی دی تھی۔ اس طرح انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آپ لوگوں سے پہلے ہم نے محسن نام کا ایک لڑکا (جو کہ بینک میں تھا )اغوا کیا تھا۔ اور اس کے والد ڈاکٹر لیاقت سے 20لاکھ روپے لئے تھے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سلطان اکبر نامی شخص کو بھی ہم نے موٹر وے سے اغوا کیا تھا۔
مٹی سے بنے ہوئے ایک چھوٹے سے کمرے میں 8 دن اور 8 راتیں گزارنا نفسیاتی مریض بننے کے لیئے کافی تھا۔ اوپر سے طرح طرح کے حربے اور دھمکیاں ،یہ ساری باتیں شاید لوگوں کو افسانہ لگے، مگر یہ ایک تلخ اور ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ ہمارے ہی ٹیکس پر پلنے والے کس طرح ہماری حفاظت کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ہمارا کیس ایف آئی آر نمبر477کے تحت مورخہ پچیس ستمبرایس ایچ اوٹیکسلا ،یار محمد کے پاس ساجد حسن کے بھائی حسن عابدی نے درج کروایا مگر قانون اور نظام حرکت میں نہیں آیا۔ 8دن کے بعد جب ہم دس لاکھ روپے فی کس تاوان ادا کر کے رہا ہوئے۔ اور موٹر وے پولیس کو آڑے ہاتھوں لیا تو ایم ون موٹر وے پولیس کے ایس ایس پی محمد طاہر خان اور ایس ایچ اوشیر گڑھ مردان نے ایک دن اغوا کنندگان کا سرغنہ حیات اللہ ولد امیربادشاہ سکنہ لطیفی (سخا کوٹ) کو گرفتار کر لیا۔23اکتوبر کا روزنامہ جنگ راولپنڈی اور ایکسپریس میں ایس ایس پی محمد طاہرخان کا بیان بسلسلہ گرفتاری شائع ہوا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہماری رہائی کے لئے پیسہ موٹر وے پولیس کے دو کارندوں (قیصر خان اور رفیق آفریدی )کے ذریعے ادا ہوا۔ لین دین مین جی ٹی روڈ پر سخا کوٹ بازار میں واقع مراد خان (اسلحہ ڈیلر )کی دکان پر ہوئی۔ پھر مراد خان کا ایک نمائندہ قیصر خان اور رفیق آفریدی کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہوا۔ رقم کی ادائیگی کے ایک گھنٹہ بعد ہمیں شیرگڑھ لایا گیا۔ ہم مین جی ٹی روڈ سے بس 5یا 10منٹ کی پیدل مسافت پر تھے۔ جیسے ہی ہم پٹھانوں کے اس ڈیرے پر پہنچے۔ جہاں پر ہمارا انتظار ہو رہا تھا۔تو رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔یہاں پر ہمارے رشتہ دار اور دوست انتظار میں تھے۔سب کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ کچھ دیر یہاں پر رکنے کے بعد ہم مردان آ گئے۔وہاں پر ایک دوست کے ساتھ رات گزاری اور صبح اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ بینک اسلامی کی نوکری کو مجھے خیر باد کہنا پڑا۔ کیونکہ اب میں مزید اسلام آباد میں رہنا نہیں چاہتا تھا۔ موٹر وے پر سفر کرنا اب میرے لئے سوہان روح اور ایک ڈراؤنا خواب بن گیا ہے۔ دس دن آرام کے بعد میں نے اپنے حواس جمع کئے اور پھر زندگی کی روٹین میں آہستہ آہستہ ڈھلنے کی کوشش کرنے لگا۔
واقعات کی کڑیاں جب بعد میں ملائی گئیں تو ہم آسانی سے اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ ہمارے اغوا کے کیس میں موٹر وے پولیس کے کارندے براہ راست ملوث تھے اور یہ کام ان کے آشیر باد کے بغیر نا ممکن تھا۔بعد میں یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکٹر لیاقت کے بیٹے محسن کا اغوا بھی ایم ون موٹر وے پر ہوا تھا۔ اور اس سے پہلے شہباز گڑھی مردان کے سلطان اکبر کا اغوا بھی ایم ون موٹر وے پر اس گروہ نے کیا تھا۔ایس ایس پی محمد طاہر خان نے ہمیں پیغام دیا کہ آپ لوگ عدالت میں کیس کریں۔ 10لاکھ روپے قرض لے کر تاوان ادا کیا گیا۔ 10لاکھ کی واپسی کی ضمانت تو کوئی نہیں دیگا۔ مگر کیس کرنے کے لیئے کہا جا رہا ہے۔ کیس کے لیئے وقت اور پیسہ چاہیئے اور یہ دونوں ہمارے پاس نا پید ہیں۔ریاستی اداروں کی غفلت اور ناکردہ گناہوں کی سزا معصوم شہریوں کو اس طرح ملنا کہاں کا انصاف ہے۔ کیا اس ملک میں ایسا کوئی قانون یا ادارے موجود ہیں جو اس کیس کو لے کر سارے کرداروں کو قرار واقعی سزا دلوا کر انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کریں۔
موٹر وے پر موٹر وے پولیس کے زیر سایہ اغوا کی واردات ، بعد میں موٹر وے پولیس کے ذریعے رقم کی ادائیگی، مین جی ٹی روڈ مردان پر اغوا برائے تاوان کا منظم کاروبار یہ سب کیا ہے۔سپریم کورٹ انسانی حقوق کے علمبردار، موٹر وے پولیس کے کرتا دھرتایہ سب کب حرکت میں آئیں گے۔ مظلوم کو اپنے در پر کب سستا انصاف ملے گا۔ یہ ہے میری فریاد اور یہ ہے میری داستان۔
اس واقعہ کو اب 5ماہ ہونے کو ہیں مگر واقعات کی ایک ایک کڑی میرے ذہن پر نقش ہے۔ 8دن اور 8رات ایک ہی شلوار قمیض بغیر نہائے گزارنا، بھوکا پیاسا رہنا، ذہنی اور جسمانی تکالیف ، خاندان، رشتہ داروں اور دوستوں کی یادیں یہ سب کچھ ذہن پر عجیب و غریب نقش چھوڑ گئے۔ میری بیوی، والدین، سسرال والے اور دوست احباب کو کس عذاب میں سے گزرنا پڑا اور کس طرح انہوں نے دس لاکھ روپوں کا انتظام کیا اور سب سے بڑی ذہنی پریشانی یہ ہے کہ یہ پیسہ اب واپس کہاں سے کروں گا۔ یہ تمام واقعات ذہنی سکون کس طرح برباد کررہے ہیں اب اس بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں یہ ہے واقعات کا وہ تسلسل جو زندگی بھر میرا روگ بنا رہے گا۔میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور وفاقی محتسب کو دو ماہ پہلے اس کیس کی پوری تفصیل روانہ کر چکا ہوں۔ اور انتظار میں ہوں کہ موٹر وے پولیس کے کرتا دھرتا کا کڑا احتساب ہو جائے۔
میں نہ تو منظم مافیا کا مقابلہ کر سکتا ہوں اور نہ رائج الوقت لمبے لمبے مہنگے قانونی تقا ضوں کو پورا کر سکتا ہوں۔ واقعات کی ساری کڑیاں مل چکی ہیں سارے کردار منظر عام پر آچکے ہیں۔ اب کوئی ادارہ مثلا موٹر وے پولیس کیا آئی جی ، سپریم کورٹ، یا انسانی حقوق کا کوئی ادارہ یہ کیس اپنے ذمے لے۔ اور ہماری داد رسی کر کے انصاف کے تقاضے پورے کر دے۔
Displaying 4 Comments
Have Your Say
  1. saleem says:

    my dear
    kuch nahin hona na police se na he ch iftikhar se woh kya kya kare .agar kuch ho sakta ha tu himat pada karen police walon ko pakren un ke gardan per gun rakh cur apne pase wapis len.yehi tareeqa ha.

  2. rehan says:

    this is very intresting story about moterway police. now after read this story punjab polive and moterway police is equell.
    Rehan Lahore

  3. aamir says:

    bhai is fraudi ke bayan per ghor karo
    muje lagta hai k ye koi apni personel ghussa nikaal raha hai
    ye bolta hai main ne job chor di hai aur woh bhi achi job
    aur is ke pass pesa bhi nahi hai
    bhai ghareeb admi jaan chali jae lakin nokri mean job nahi jane dega
    is ne zaroor apna koi kala kartoot chupane k liye aesa kia hai
    aur 1 aur baat k agar woh us se keh dete k apko OBAMA ne kidnap kerwaya hai to kia woh OBAMA per case kerte
    bakwas kerta hai harami ka bacha
    10 din ghar main rest kewrne k baad isko khayal aya
    aese haramion ki waja se hi hamare mulk ka ye haal hai

  4. amjadmuslim says:

    aamir sahab zarori nahi yeh admi jhoth bhol raha ho. kayen aap ka tauq bhi moterway police se to hahi?

Leave a comment