Published On: Fri, Dec 16th, 2011

مستقبل کے حکمران کون ؟

Share This
Tags
محمد کامران خان
ایک بات تو طے ہے کہ جاگیر داری، وڈیرہ شاہی اور بڑی زمینداریوں کے زوال کے باوجود پاکستانی سیاست، سوچ اور معاشرہ فیوڈل ازم یعنی جاگیر دارانہ ذہن کی گرفت میں ہے اور سب سے بڑا ثبوت وراثتی سیاست کا رجحان ہے جو پوری طاقت کے ساتھ پاکستان میں پروان چڑھ رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس بات کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ نسل در نسل تقسیم کے بعد اور کچھ زرعی اصلاحات کے سبب پاکستان میں فیوڈل ازم کی گرفت کمزور ہوئی ہے اور اس گرفت کو کمزور کرنے میں جمہوری عمل اور میڈیا نے بھی اہم کردار سرانجام دیا ہے لیکن وڈیرہ شاہی کے زوال کے باوجود سوچ اور فیوڈل مائنڈ نہیں بدلا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سیاست ایک بار پھر خاندانی اور وراثتی سیاست کے سانچے میں ڈھل رہی ہے۔ ترقی یافتہ جمہوری ممالک کا تو خیر ذکر ہی کیا خود ساوتھ ایشیا میں وراثتی سیاست کا رجحان خاصی حد تک بدل چکا ہے۔ سری لنکا میں کمارا تْنگا خاندان کی سیاسی گرفت کمزور ہو چکی ہے اور انڈیا میں فیوڈل یا وراثتی سیاست کا آخری شاہکار راجیو گاندھی تھا۔ بنگلہ دیش میں واجدہ اور خالدہ اس کی آخری نشانیاں ہیں۔ راجیو گاندھی کا بیٹا راہول اگرچہ کانگرس کا کارکن ہے اور پارلیمنٹ کا منتخب رکن بھی ہے لیکن اسے ابھی تک کوئی وزارت یا بڑا عہدہ نہیں دیا گیا کیونکہ مقصد اسے ایک عام کارکن کی مانند تربیت دے کر اقتدار تک لانا ہے۔ خود سونیا گاندھی گاڈ فادر یا گاڈ مدر بنی بیٹھی ہے لیکن وزیراعظم یا صدر نہیں بنی۔ اس کے برعکس پاکستان کے مسلمان معاشرے میں وراثتی سیاست کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اور اقتدار کو بڑے دولت مند گھروں کی لونڈی بنایا جا رہا ہے۔ مسلمان معاشرہ میں نے اس لئے لکھا کہ مسلمان ہندو کے مقابلے میں زیادہ روشن دماغ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسلام کی تعلیمات انسانی مساوات، معاشرتی برابری اور سب کے لئے یکساں مواقع کا سبق دیتی ہیں جبکہ ہندو معاشرہ صدیاں گزرنے کے باوجود ذات پات کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے، تعلیم اور جمہوریت کے راگ الاپنے کے باوجود بعض طبقوں کو نیچ اور بعض کو بالاتر سمجھا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان کی ستر فیصد آبادی پیدائش ہی سے قابل نفرت سمجھی جاتی ہے کیونکہ ان کا تعلق شودروں اور دلتوں اور دوسرے ایسے طبقات سے ہوتا ہے جو پیدائشی طور پر کم تر تصور ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مسلم معاشرے میں پیدا ہونے والا ہر بچہ معاشرتی برابری کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ اس واضح تفاوت کے باوجود پاکستانی معاشرہ آزادی کے 65 برس بعد بھی جاگیر دارانہ ذہنیت کی گرفت میں پھنسا ہوا ہے جو بہرحال قابل افسوس ہے۔
مختصر یہ کہ جاگیر دارانہ ذہن کا ایک بڑا مظہر وراثتی سیاست ہے۔ پاکستانی سیاست کے ابھرتے نقشے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے مستقبل کے حاکم یا حکمران بلاول بھٹو زرداری، چودھری مونس الٰہی، حمزہ شہباز شریف یا مریم نواز ہوں گے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اْن سب کے والد گرامی پاکستان کے صدر، وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ ان تمام ابھرتے سیاسی خانوادوں کی سب سے بڑی خوبی سیاسی ورثہ ہے چونکہ وہ بے پناہ دولت مند گھرانوں اور حکمرانوں کے گھر پیدا ہوئے ہیں۔ ان کی ذاتی اہلیت، تعلیم، سیاسی بلوغت یا کردار کیا ہے ان موضوعات پر سر کھپانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اْن کا اقتدار پر استحقاق اسی طرح ہے جس طرح بیٹے کا باپ کی جاگیر یا جائیداد یا فیکٹری پر ہوتا ہے۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، ان میں سے دو ہونہار تو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ایل بی ڈبلیو ہو چکے ہیں اور سکینڈلوں کی زد میں آ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے بزرگوں کے ارادے بدلے ہیں نہ ان ہونہاروں کے ارادوں میں لچک پیدا ہوئی ہے، شاید اْن کا ووٹ بینک بھی متاثر نہیں ہوا کیونکہ پاکستانی عوام ایسے کارناموں کو نارمل سمجھتے ہیں اور انہیں اہمیت نہیں دیتے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے زرداری حکومت صرف مونس الٰہی بچاو کی خاطر جوائن کی۔ مونس الٰہی کو ریسٹ ہاوس میں رکھا گیا اور عدالت میں گواہوں پر دباو ڈال کر بٹھا دیا گیا۔ چنانچہ گواہوں کے بیان بدلنے پر مونس الٰہی رہا ہو گیا جبکہ سپریم کورٹ نے اس صورت حال کا نوٹس لیا ہوا ہے۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا کافی ہے کہ جب اس مقدمے کے دوسرے ملزمان رہا نہیں ہوئے، اْن پر مقدمہ نہیں چلا تو مونس الٰہی کیسے رہا ہو گیا اور ملک سے باہر چلا گیا۔ پھر اگر مونس الٰہی مجرم نہیں تھا تو اْس نے کروڑوں روپے کیوں واپس کئے؟ اس مقدمے نے ایک بار پھر قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں بااثر لوگوں کو مرضی کا انصاف ملتا ہے۔ بہرحال یہ مقدمہ ابھی سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔ دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ دوسری طرف زرداری صاحب کی بیماری سے پیدا ہونے والے خلا کو بلاول نے پْر کیا ہے اور وہ ایک دم کود کر میدانِ سیاست میں آ گیا ہے۔ میاں فیملی کا پرابلم ذرا مختلف ہے۔ اصولی طور پر میاں نواز شریف نے اپنے بیٹے حسین نواز کو میدانِ سیاست میں اتارا تھا، بظاہر وہ وزیراعظم نواز شریف کا جانشین نظر آ رہا تھا اور لاہور کی سیاست میں خاصا متحرک ہو چکا تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے شبِ خون مار کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ حسین نواز کو قید و بند اور ٹارچر کا نشانہ بننا پڑا۔ اس ایک دھکے یا دھچکے نے بیگم کلثوم نواز کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے لاڈلے بیٹے کو سیاست سے الگ رکھیں۔ چنانچہ اس پس منظر میں حمزہ شہباز کو پروموٹ کیا گیا۔ پھر شاید فیصلہ ہوا کہ میاں نواز شریف کی سچی سیاسی جانشین اْن کی لاڈلی بیٹی مریم نواز ہے نہ کہ حمزہ شہباز۔ اب مریم نواز میدان میں اْتر رہی ہے اور آنے والے دنوں میں مزید متحرک ہو جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی سیاست اکیسویں صدی میں بھی وراثتی اور خاندانی جاگیر ہی بنی رہے گی؟ کیا سیاسی پارٹیاں بھی سیاسی جاگیر ہی بنی رہیں گی؟ کیا کبھی پاکستانی سیاست بڑے خانوادوں کے محلات سے نکل کر عوام کے گھروں اور غریبوں کی جھونپڑی میں آئے گی؟ جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک پاکستانی سیاست صحیح معنوں میں جمہوری سیاست نہیں بن سکے گی اور نہ ہی پاکستان قائداعظم و اقبال کا پاکستان بن سکے گا۔
Displaying 1 Comments
Have Your Say
  1. waheed says:

    assalam o alaikum
    is waqt pakistan k awaam chahey student ho chahey mazdoorkaar ho kisi bhi field se taaluq ho mrd ho aurat ho sabko chahiye keh pakistan tehreek e insaaf ko samne laye q k humne mulk k charo bari partiyon ko kaen baar jitwa k chek kiya magar amir amir tar aur ghareeb ghareeb tar hota ja raha hei mein zaati tore par (PTI) ka koi rukn ya numainda nahi lekin phir bhi zehn aur dil chahta hai keh bhale (PTI) bhimulk k liye kuch na kr sakey km az km ye jagirdaari aur ye wirasti siyasat to khatam ho jaegi na aur is tarha awam ka trende bhi tabdeel ho jaega. wassalam.

Leave a comment