Published On: Sat, May 28th, 2011

پولیس اورفوج جواب دے!ان پانچ لاشوں کا حساب کون دے گا؟

کوئٹہ میں تین خواتین سمیت 5 افراد پولیس کے بدترین ظلم کانشانہ
بنے ،حکومت نے سی سی پی اوکواوایس ڈی بنادیا لیکن
ایف سی کےکرنل کا کچھ نہ بگاڑ سکی مال کھانے کے چکر میں
پولیس نے پانچ معصوموں کو ہلاک کر وا دیا،اب جان بچانے کے
لئے جھوٹ پر جھوٹ بولا جا رہا ہے

ایم ارشد
کوئٹہ میں پولیس اور ایف سی کے ہاتھوں پانچ بے گناہ چیچن مرد و خوا تین کی شرمناک انداز میں ہلاکت کے بعد بلوچستا ن ہائی کورٹ کے جج جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیشن نے کام شروع کردیا ہے ۔ اس واقعہ میں پولیس کی نااہلی تو کھل کر سامنے آ گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایف سی کا جو کردار سامنے آیا ، وہ شرمناک بھی ہے اور عوام کی آ نکھیں کھول دینے کے لئے بھی کافی ہے ۔ سانحہ خروٹ یہ ثا بت کرنے کے لئے بھی کا فی ہے کہ ایف سی بلوچستان میں کتنی طاقت ور ہے ۔ ایف سی کے ’’ بہادر ‘‘ جوانوں نے پانچ بے گناہ غیرملکیوں کو گولیوں سے بھون دیا لیکن اس واقعہ کے ذ مہ دار کرنل کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔
اب بلوچستا ن ہائی کورٹ کے جج جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیشن سے یہ امید بندھی ہے کہ شائد ذمہ داروں کو سز امل سکے ۔لیکن یہ دلچسپ بات ہے کہ ان مظلوموں پر اسلحہ، خودکش جیکٹ، بم دھماکے کرنے سمیت کسی قسم کی دہشت گردی کا الزام ثابت نہیں ہو سکا۔لیکن ایف سی کے کرنل کے خلاف ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ۔
ایف سی چیک پوسٹ کی جانب سے تین خواتین سمیت پانچ افراد کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کرنے کے واقعہ سے متعلق جو ہولناک انکشافات سامنے آئے ہیں۔ اس نے سکیورٹی اداروں کے مظالم کو بے نقاب کر دیاہے ۔ پہلے صرف پولیس کے بارے میں ہی یہ کہا جاتا تھا کہ انسانی درندگی کی بد ترین مثالیں پیش کرنے میں پاکستانی پولیس سب سے آگے ہے لیکن اب ایف سی نے اپنے آپ کو پولیس کے مد مقابل کر لیا ہے۔
اب تک کی تحقیقات یہ یہ بات ثا بت ہو گئی ہے کہ مرنے والے معصوم لوگ تھے ۔ وہ نہ تو دہشت گرد تھے اور نہ ان کا تعلق دہشت گردوں سے تھا ۔ صرف مال کھانے کے چکر میں پولیس اور ایف سی نے ان پانچ معصوموں کو ہلاک کر دیا ۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ ان کے پاس پیسے ختم ہو گئے تھے۔
’’ فیکٹ ‘‘ کو پتہ چلنے والی اطلاعات کے مطابق خروٹ آباد میں ایف سی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے 5 چیچن باشندے زائرین تھے جو ایران میں مختلف زیارات پر حاضری دینے کے لیے جا رہے تھے۔ مقتولین کے پاسپورٹ پر ایران کا ویزا لگا ہوا تھا۔ یہ افراد افغانستان کے شہر اسپن بولدک پہنچے جہاں انسانی اسمگلروں کے ہاتھ چڑھ گئے۔ یہ افراد مختلف چیک پوسٹوں پر رشوت دیتے ہوئے چمن کے راستہ پاکستان میں داخل ہوئے ۔اس دوران انہوں نے کچلاک سے کرایہ پر گاڑی حاصل کی ۔روانگی کے فوراً بعد کچلاک تھانہ کے اہلکاروں نے ان سے رقم وصول کی اور انہیں آ گے جانے دیا ۔ تاہم اس دوران ان راشی پولیس اہلکاروں نے بلبلی پر تعینات پولیس چوکی کو اطلاع دے دی کہ فلاں نمبر کی گاڑی میں کچھ غیر ملکی آ رہے ہیں اپنا حصہ لے لینا، جیسے ہی یہ لوگ بلبلی چوکی پر آئے تو یہاں تعینات پولیس اہلکاروں نے اپنا بھتہ لے کر انہیں آگے جانے دیا۔ چیچن خا ندان پریشان تھا۔لیکن ابھی ان کے امتحان اور بھی تھے۔ بلبلی چوکی کے پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ ظلم یہ کیا کہ بلبلی چوکی کے پولیس اہلکاروں نے اپنا حصہ وصول کرنے کے بعدآگے ایئرپورٹ تھانے کے عملے کو اطلاع دی کہ ایک سرمایہ دار پارٹی آ رہی ہے اپنا حصہ وصول کر لینا۔
ذرائع کے مطابق جیسے ہی لوگ ایئرپورٹ پولیس کے ناکے پر پہنچے تو اس دوران اس چیچن خاندان کے پاس رقم ختم ہو گئی ، پولیس نے تلاشی لی اور جب ان سے کچھ برآمد نہیں کیا تو انہیں گاڑی سے نیچے اتارا گیا اور ان کے ہاتھ باندھ کر سڑک پر ڈال دیا گیا۔ پولیس اہلکار کئی گھنٹے تک اس خاندان پر پیسہ لینے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے جب انہیں اپنا حصہ نہ ملا تو انہوں نے ان افراد کو ہاتھ باندھے ہی چھوڑ دیا۔
یہ چیچن خاندان پیدل ہی ایئر پورٹ تھا نہ کی حدود سے ہوتا ہوا حیزی چوک پہنچا،جہاں خاندان کے مرد اپنی خواتین کو بیٹھا کر مسجد میں نماز پڑھنے لگے ، شائد وہ اللہ سے اپنی مصیبتوں کی معافی اور ختم ہونے کے طلب گار تھے ۔ وہ اتنے گھبرائے ہوئے تھے کہ انہوں نے قبلہ کا بھی صحیح انتخاب نہ کیا۔ اس دوران مسجد میں موجود لوگوں نے انہیں قبلہ کی نشاندہی کرائی۔
ذرائع کے مطابق جیسے ہی یہ لوگ مسجد سے نکلے پولیس کی ایک ٹیم ان کے پیچھے پھر آ گئی۔ مصیبتوں کا مارا یہ خاندان اس نئی آفت سے گھبرایا گیا اور اس دوران ان کے ذہنوں میں یہ خیال آیا کہ پولیس تو ہے ہی ظالم ، کیوں نہ فوج سے مدد مانگی جائے ۔اس چیچن خاندان نے ڈر کے مارے ایف سی چیک پوسٹ کی جانب دوڑ لگائی اور پناہ لینے کی کوشش کی۔ اس دوران پولیس والے بھی گھبرا گئے اور انہوں نے سوچا کہ اگر ایف سی کو ان کی رشوت کا پتہ چل گیا تو معاملہ اوپر تک چلا جائے گا ۔ چنانچہ ان پولیس والوں نے ایف سی والوں کو مطلع کیا یہ غیر ملکی دہشت گرد ہیں اور ان کی کمر سے خودکش جیکٹ بندھے ہوئے ہیں اور وہ چیک پوسٹ کو اڑانا چاہتے ہیں۔
ایف سی اہلکاروں کے لئے بھی یہ صو رتحال پریشان کن تھی ۔ ایف سی اہلکاروں نے بنا کچھ سوچے ان افراد پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پانچویں افراد زخمی ہوکر گر گئے۔ اس دوران ان زخمیوں نے کئی مرتبہ ہاتھ فضا میں لہرا کر اپنے بے گناہ ہونے اور فائرنگ بند کرنے کا کہا لیکن پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں نے ان پر فائرنگ جاری رکھی۔ ان کی کوئی آواز نہیں سنی گئی اور اس دوران پولیس اور ایف سی اہلکار مسلسل فائرنگ کرتے رہے۔
اطلاع ملنے پر جب میڈیا کی ٹیمیں موقع پر پہنچی تو سی سی پی او کوئٹہ داؤد جونیجو اور ایف سی کے کرنل فیصل میں اس بات پر اتفاق ہو چکا تھا کہ مرنیوالے کود کش حمل آ ور تھے اور وہ ایف سی کی چیک پوسٹ کو اڑانا چاہتے تھے ۔اس بات کا ثبوت ان پولیس اہلکاروں نے دے دیا جو اپنا حصہ لینے کے لئے اس خاندان کے پیچھے لگے ہوئے تھے ۔ ان پولیس اہلکاروں نے یہ گواہی دے دی کہ وہ انہیں پکڑنے کے لئے ان کا پیچھا کر رہے تھے ۔سی سی پی او نے یہ بھی بتایا کہ ان سے جو گاڑی برآمد ہوئی وہ بارود اور دیگر اسلحے سے بھری ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ان دہشت گردوں نے چیک پوسٹ پر دو دستی بم بھی پھینکے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق صورتحال اس وقت یکسر تبدیل دکھائی دی جب صحافیوں کو انتہائی محنت کے باوجود بم پھٹنے کی کوئی جگہ نہ ملی اور نہ ہی کوئی پرزے برآمد ہوئے۔ صحافیوں نے جب پولیس والوں سے گاڑی دکھانے کا مطالبہ کیا تو پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکاراپنا منہ چھپانے لگے اور وہ دہشت گردی کا کوئی ثبوت سامنے نہ لا سکے۔اس موقع پر امدادی کارکنوں نے لاشیں اٹھانی شروع کیں تو پتہ چلا کہ ان خواتین اور مرجود کے جسم پر کسی قسم کا اسلحہ یا جیکٹ بندھی ہوئی نہیں تھی۔ البتہ دو خواتین کے پر س سے دو موبائل اور ناخن کٹر ملے۔
پولیس اور ایف سی کے اس جھوٹ سے بہت سے سوالات نے جنم لیا۔ اگر یہ خود کش حملہ آور تھے تو چیک پوسٹ کے قریب پہنچ کر انہوں نے اپنے آپ کو اڑایا کیوں نہیں؟ اور سب ایک ساتھ کیسے زخمی ہو گئے۔ان میں سے کسی بھی سوال کا پولیس اور ایف سی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔اس سے ثابت ہو گیا کہ پولیس اور ایف ایک بہت بڑا جرم کر بیٹھے ہیں اور اب اپنی جانین بچانے کے لئے جھوٹ پے جھوٹ بول رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ یہ واقعہ بنیادی طور پر کچلاک بلبلی ایئرپورٹ روڈ پر واقعی ناکوں پر تعینات پولیس اہلکاروں کی وجہ سے پیش آیا۔ ان ناکوں پر تعینات پولیس اہلکار بڑے با اثر ہوتے ہیں اور ہر ہفتے 12 لاکھ روپے تک کما لیتے ہیں جن کا ایک بہت بڑا حصہ اعلیٰ حکام تک بھی پہنچتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان ناکوں پرایسے اہلکار بھی موجود ہے کا جن کا گزشتہ 12 سالوں سے ٹرانسفر نہیں ہوا۔
سانحہ خروٹ کی اصل صو رتحال سامنے آنے کے بعد عوامی، سیاسی حلقوں میں شدید غم و غصے کے لہر دوڑ گئی اور بے گناہ غیر ملکیوں خاص کر تین خواتین کی اس طرح بے حرمتی نے عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز کر دیا ہے ۔ عوام کی طرف سے ان پولیس اور ایف اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے ۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس فرنٹیئر کور، پولیس اور صوبائی حکومت کے ذمہ دار حکام سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس ماورائے آئین اقدام کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ حکومت نے اگرچہ سی سی پی او کوئٹہ کو تو او ایس ڈی بنا دیا ہے کہ فائرنگ کے زمہ دار اس ایف سی کمانڈر کے خلاف کوئی کارروائی نہین کی گئی جس نے درندگی کی مثال قائم کی ۔
Displaying 1 Comments
Have Your Say
  1. saima says:

    is waqia nay ham pakistanion k sar sharm say jhuka diey hain.. kesi drindigi hy kahin insaf nai

Leave a comment