Published On: Thu, May 19th, 2011

جہادیوں کی منڈی،وزیرستان میں عرب،ازبک جہادی پائے جاتے ہیں

میر علی کے کیمپ مین سنگین خان کمانڈر کی زیر نگرانی530 بچے،
خودکش بمبار کی تربیت حاصل کر رہے ہیں
حقانی نیٹ ورک فاٹا کے نوجوانوں اور عورتوں کو فوجی وعسکری تربیت دے کر اپنےمقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اورانہیں دہشت گرد و خود کش بمبار بنا رے ہیں۔ اہم انکشافات پرمبنی رپورٹ

 

وسیم شیخ
شمالی وزیرستان جہادیوں کا مرکز و گڑہ ہے اور حقانی نیٹ ورک و القاعدہ کا مسکن بنا ہوا ہے۔ وزیرستان کا دشوار گزار پہاڑی علاقہ گیارہ ہزار پانچ سو پچاسی مربع کلومیٹر پر پھیلا ہواہے اور یہ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان ایجنسیوں میں منقسم ہے۔ان علاقوں کی آبادی کا تخمینہ بالترتیب چھ اور آٹھ لاکھ لگایا گیا ہے۔ جنوبی وزیرستان کا علاقہ دریائے ٹوچی اور دریائے گومل کے درمیان پشاور کے مغرب و جنوب مغرب میں آتا ہے۔ شمالی او ر جنوبی وزیرستان کی سرحدیں آپس میں بھی ملتی ہیں۔ میران شاہ ، شمالی وزیرستان کا صدر مقام ہے۔
شمالی وزیرستان کا علاقہ پشتون اتمان زئی وزیر اور دایور قبایل کا مسکن ہے، ان کے علاوہ یہاں دوسرے چھوٹے قبائل گرباز ،خارسنز ، سادجیsaidgi)) اور محسود (Malakshis Mahsuds) بھی آباد ہیں۔ شمالی وزیرستان کے بڑے شہر رزمک،میر علی،دتا خیل اور میراں شاہ ہین۔ دور دورتک دشوار گزار پہاڑی سلسلوں کے پھیلا ہونے کی وجہ سے یہ القاعدہ ، ازبک ،چیچن ،طالبان، پنجابی طالبان،لشکر ظل( الیاس کشمیری)، جیش محمد، حرکت جہاد اسلامی،لشکر جھنگوی، گلبدین حکمت یار حقانی اور دوسریغیر ملکی جنگجووں کا محفوظ ٹھکانہ تصور کیا جاتا ہے، جہان سے دہشتگرد مقامی پاکستانی اور دوسرے غیر ملکی علاقوں مین باآسانی کاروائیان کرتے ہیں۔ القائدہ کے مرکزی لیڈر بھی اسی علاقہ مین روپوش ہین۔ یہ تمام گروپس اگرچہ علیحدہ علیحدہ ہیں مگرمل کر کام کرتے ہیں۔ القاعدہ اور طالبان سمیت دیگر دوسرے گروپوں کی پناہ گاہیں پاکستان کے لیے بڑا مسئلہ ہے۔ حقانی نیٹ ورک سب سے بڑا اور خطرناک گروپ ہے اور یہ دوسرے دہشت گردوں کو پناہ فراہم کرتا ہے۔
جب حقانی نیٹ ورک کے عسکریت پسندوں نے افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں کی جانب رجوع کیا تو انہیں یہا ں گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔ عسکریت پسندوں نے قبائلی لوگوں کی روایتی مہمان نوازی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جبکہ ان غیر ملکیوں کی موجودگی نے ریاست کے لیے امن و امان کے مسائل جنم دینے شروع کر دیے۔ بیرونی عسکریت پسندوں نے اپنی موجودگی کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر خاص طور پر مقامی اور غیر ملکی جہادیوں کو فوجی تربیت فرایہم کرنا شروع کی اور ان مقاصد کی راہ میں مزاحم ہونے والی کسی بھی عسکر ی طاقت کے خلاف نمٹنے کی ترغیب و تربیت فراہم کی۔
حقانی نیٹ ورک کا بانی ،جلال الدین حقانی خوست،افغانستان کا رہنے والا ہے اور زردان قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ افغانستان سے طالبان کی حکومت کے خاتمہ پر ہجرت کر کے شمالی وزیرستان میں آ گیا اور میران شاہ میں آبا د ہو گیا جہان بڑے حقانی نے مدرسہ منبا العلوم قائم کیا اور اس نے شمالی وزیرستان میں ہی اپنا ہیڈ کوارٹرز قائم کررکھا ہے۔ افغانستان کے صوبہ خوست میں رہنے والے زردان قبائل حقانی نیٹ ورک کے حمایتی ہیں۔ اس گروہ کو قبائلی 1979ء میں افغانستان پر سوویت فوجوں کے حملے کے وقت سے ہی مجاہدین کا سب سے طاقتور گروہ تسلیم کرتے ہیں اور اس کا قبائل میں بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ اطلاعات کے مطابق القاعدہ اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے تحریک طالبان اور ملا عمر سے بھی رابطے ہیں۔
حقانی نیٹ ورک، پاکستان کے علاوہ افغانستان میں اس علاقے پر کاروائیاں کرتا ہے جسے’’خوست کا پیالہ‘‘ کہا جاتا ہے اور جس میں پکتیکا، پکتیا اور خوست شامل ہیں۔۔حقانی نیٹ ورک کا طالبان سے الحاق ہے۔ القائدہ سے تعلق رکھنے والا یہ گروپ پاک افغان سرحد کے دونوں جانب پھیلا ہوا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کی قیادت جلال الدین حقانی کے ہاتھ میں ہے مگر جلال الدین حقانی کی مسلسل علالت اور پیرانہ سالی کے باعث سراج الدین حقانی، جو خلیفہ بھی کہلاتا ہے، اس گروپ کو کنٹرول کرتے ہیں۔
دہشت گردی پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے غیر ملکی دہشت گردوں کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ سرحد کے دونوں جانب ہر گروپ دوسرے سے استفادہ کرتا ہے اور اس تعلق سے سب سے زیادہ فائدہ القاعدہ کو پہنچتا ہے کیونکہ حقانی اور تحریک طالبان پاکستان دونوں ہی اسے سرحدوں کے دونوں جانب سہولیات اور دیگر امداد فراہم کرتے ہیں۔
قبائلی صحافی عمر دراز وزیر کا کہنا ہے۔ کہ عسکریت پسندی بہت سے بے روزگار قبائلی نوجوانوں کے لئے ایک متبادل ذریعہ روزگار ثابت ہوئی ہے۔ حقانی نیٹ ورک فاٹا کے نوجوانوں اور عورتوں کو فوجی و عسکری تربیت دے کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور انہیں دہشت گرد و خود کش بمبار بنا رے ہیں۔
چونکہ جغرافیائی اعتبار سے کرم ایجنسی کا علاقہ اسٹریٹیجک لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کا یہ علاقہ افغان صوبوں پکتیا، ننگرہار اور خوست کے سامنے واقع ہے۔ اسے شمالی وزیرستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی شمالی وزیرستان میں حقانی گروپ کا مرکزی ٹھکانہ ہے۔ ماہرین کے مطابق کرم ایجنسی سے راستہ یقینی طور پر طلب کیا جائے گا اور اس کے ذریعے حقانی گروپ کے شدت پسند سرحدی علاقے کی اہم بلند چوٹیوں پر براجمان ہونے کے خواہشمند ہیں۔ حقانی گروپ ایک خبر کے مطابق کرم ایجنسی منتقل ہو چکا ہے۔ شمالی وزیرستان کے علاقہ میں موجود طالبان کا حافظ گل بہادر گروپ حقانی گروپ کی حمایت کرتا ہے۔
حقانی نیٹ ورک پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات کا ذمہ دار ہے۔ یہ لوگ غیر ملکی ہیں اور فاٹا کے علاقہ کا سکون غارت کر رہے ہیں۔ پاکستان میں مہمان بن کر آئے اور مالک بن کر بیٹھ گئے۔ یہ علاقہ مین قبائلی عمائدین کو قتل کر اکے قبائلی معاشرہ کی ساخت کو کمزور کر رہے ہین اور قبائلیوں کو ایک دوسرے سے لڑا رہے ہیں۔ بے گناہ اور معصوم لوگوں، عوتوں اور بچوں کے قتل میں ملوث ہین۔ الیاس کشمیری اور بشمول القائدہ دوسرے ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں کو عسکری تربیت و پناہ مہیا کر رہے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق وزیرستان مین دہشت گردی کے نو تربیتی کیمپ ہین جہان دہشت گردوں کو تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ میر علی ،وزیرستان کے ایک کیمپ مین سنگین خان کمانڈر کی زیر نگرانی530 بچے ،خودکش بمبار بننے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
ممبر پارلیمنٹ، میراں شاہ کامران خان کے مطابق تقریبا10 ہزار غیر ملکی جہادی شمالی وزیرستان میں ہیں ۔’’ہر کوئی شمالی وزیرستان میں ہے،وہاں عرب ہیں ،ازبک ہیں ،تاجک ،انڈونیشی ،بنگالی، پنجابی ،افغان ، چیچن اور سفید جہادی۔ یورپین جہادی‘‘
حقانی نیٹ ورک نے علاقہ اپنی متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے اور یہ تجارت پر ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ ٹرک کمپنیو ں سے زبردستی بھتہ وصول کرنا اور باڈر کے پار لکڑی کی اور دوسری اشیا کی سمگلنگ کے کاروبار سے رقم بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ اغوا برائے تاوان اور لوئی پکتیا کے علاقہ میں ٹھیکہ دار اور ضلعی بزرگ ،حقانیوں کو “حفاظتی رقم( Protection Money)” ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسجدوں میں چندہ وصول کرنا اور خلیجی ریاستوں سے حاصل شدہ عطیات ان کی آ مدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔کہا جاتا ہے کہ حقانیوں کے پاس 21 ہزار سے زیادہ تربیت یافتہ جنگجو ہیں اور یہ مہمان ہونے کے باوجود غیر قانونی وغیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

Leave a comment