Published On: Fri, Aug 29th, 2014

سیاست دان ، مذہبی لیڈرز، وکلا، صحافی اور سیاستدان، کون کتنے میں بکا؟

Share This
Tags
کرپٹ عوامی نمائندے یہ جان گئے کہ عوامی مطالبات کے حق میں جاری دھرنے مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کے لیے خطرہ بن چکے ہیں جبکہ عوام یہ سمجھ گئے ہیں کہ یہ ’’ سٹیٹس کو ‘‘کی جنگ بن چکی ہے اوراس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکلے گا
اسلام آباد میں آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے دھرنوں نے بہت سے لوگوں کو بے نقاب کر دیا ہے ۔سیاسی جماعتوں کی منافقت ، سیاست دانوں کی طرف سے اپنی کرپشن ، لوٹ مار کو تحفظ دینے کے لئے جموریت کی گردان نے عام لوگوں کو ان روایتی سیاسی گھوڑوں سے اتنا بے زار کر دیا ہے کہ وہ اب یہ سوچنے لگے ہیں کہ اس نطام کمی تبدیلی بہت ضروری ہے۔ روایتی سیاست دان نہیں چاہتے کہ اس ظالمانہ نظام کی بساط لپیٹی جائے کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو ان کا بوریا بستر ہی گول نہیں ہو گا بلکہ ان کی روٹی روزی بھی ختم ہو جائے گی جو وہ عرصہ دراز سے بغیر کوئی کام کئے کروڑوں روپوں کی شکل میں وصول کر رہے ہیں ۔بات کسی اور طرف نکل گئی۔
بتانا یہ چاہ رہے تھے کہ حکومت کی طرف سے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے دھرنوں کو روکنے کے لئے نا اہل مشیروں کے مشورے سے جو اسٹرٹیجی اپنائی گئی وہ بھی مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔
اس اسٹرٹیجی کے تحت آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے دھرنوں کو’’ کاؤنٹر ‘‘ کرنے کے لئے کروڑوں روپے تقسیم کئے گئے ۔
جن لوگوں میں یہ رقم تقسیم کی گئی، اُن کی تفصیل یہ ہے۔
میڈیا ہاؤسز/اینکر پرسنز/صحافی 31کروڑ روپے
مذہبی جماعتیں 20کروڑ روپے
وکلاراہنما 10کروڑ روپے
ایم این اے 10لاکھ روپے
ایم پی اے 5لاکھ روپے
ممکن ہے کہ اصل رقم اس سے کہیں زیادہ ہو ۔journalist story کہا جاتا ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کے ذریعے ڈھائی ارب روپے تقسیم کئے گئے ۔یہ رقم ملتے ہی سیاسی، مذہبی جماعتیں میڈیا ہاؤسز، اینکر پرسنز، صحافیوں ، وکلاء اور مقامی ایم اینے ایز اور ایم پی ایز نے ایک غلیظ قسم کی پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی ۔کرپٹ جماعتیں نواز شریف کی حمایت میں نکل آ ئیں ۔ مذہبی جماعتوں ، وکلا اور چند مخصوص صحافیوں کی مدد سے بجائے انصا ف دینے کے اسے جموریت کے بچاؤ کی’’ عظیم الشان ‘‘ مہم بنا دیا گیا ۔جسے پیسے ملے ، اسی نے اپنا حصہ ڈالا ۔ کسی نے کھل کر، کسی نے خا موشی سے ۔۔۔۔سب نے اپنا فرض اداکیا ۔
آےئے ذرا سیاست دانوں کا جائزہ لیں جو اس سارے بحران میں بہت’’ ایکٹو‘‘ رہے، انہوں نے نواز شریف سے وفا داری کا حق ادا کیا۔ّ ّ
مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان نے بھی اس نام نہاد جمہوریت کو گرنے سے بچانے کی اپنی سی کوشش کی ۔ وہ نواز شریف کے حق میں کھل کر بولے اور جلسے جلوس بھی نکالے ۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی کروڑوں کی رقم سے اپنا حصہ وصول کیا ۔ان کی جماعت جمعیت علماء اسلام نے عمران اور ڈاکٹر طاہر القادری کے غیر آئینی اقدامات اور اسلام آباد شاہراہ دستور پر رات بھر محفل موسیقی اور ڈانس شو کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کر کے نواز شریف کو خوش کر دیا ۔ مولانا فضل الرحمان کا موقف یہ تھا کہ رات بھر محفل موسیقی اور نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کے ڈانس سے واضح کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی قوم مغربی تہذیب کی دلدادہ ہے۔انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اگر موسیقی مارچ ختم نہ کیا گیا تو جمعیت سخت اقدام اٹھا سکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمان کی سیاسی بصیرت کو سلام پیش کرنے کو دل اس لئے کرتا ہے کہ موصوف ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔اگر یہ کہاجائے کہ وہ اقتدار کے بھوکے ہیں تو بیجا نہ ہو گا۔1990 میں انہوں نے عورت کی حکمرانی کو حرام قرار دیااور پھر 1991 میں اپنا تھوکا ہوا چاٹ لیا اور بینظیر بھٹو کو وزیر اعظم قبول کر لیا۔بدلے میں کیا pm_moulanafazalurrehmanملا یا لیا ؟ سب جانتے ہیں۔انہوں نے بینظیر بھٹو سے ڈیزل کے پرمٹ لئے اور اس طرح مولانا ڈیزل کے نام سے ہمیشہ کے لئے مشہور ہو گئے۔
ان کی وفاداریاں بدلنے کی داستان یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ بینظیر بھٹو کے بعد نواز شریف اور پھر اس کے بعد پھر پیپلز پارٹی کی طرف دوبارہ آ گئے۔ اس بار انہیں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایاگیا اور بعد میں آصف زرداری سے وزارتوں کا شرف حاصل کیا ۔ مشرف دور میں بھی اُن کا کھل کر ساتھ دیا ، بدلے میں کے پی کے کی وزارت اعلیٰ اور زمینوں پر قبضوں کی ڈیل کی ۔ اگرچہ وہ وزیر اعظم بننا چاہتے تھے اور اس کے لئے انہوں نے اس وقت کی امریکی سفیر وینڈی چیمبر لین سے درخواست کی بھی کی لیکن انہیں اس قابل نہیں سمجھا گیا ۔یہ سب کچھ وکی لیکس میں بھی لکھا ہوا ہے ۔ 2013کے انتخابات کے بعد نواز شریف وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اپنی قیمت بڑھانے کے لئے پہلے نواز لیگ کی حکومت پر تنقید کی اور بعد میں ایک آفر ملتے ہی اپنا سب کچھ نواز شریف پر قربان کر دیا۔ آج کل انہوں نے نواز شریف کو مرشد بنا لیا ہے اور ان سے وزارتوں کا فیض حاصل کر رہے ہیں۔
محمود خان اچکزئی
محمود خان اچکزئی پاکستان سیاست کا ایک انتہائی معروف اور قابل عزت نام تھے۔ سیاسی حلقوں میں انہیں انتہائی عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جانا تھا۔ وہ جہوریت کے بہت بڑے حامی تھے اور ہیں۔ وہ فوج کی سیاست میں مداخلت کے ہمیشہ سخت خلاف رہے ہیں۔ اس جمہوری مطالبے اور سٹینڈ کی وجہ سے عوام بھی ان کے مداح تھے۔ بلاشبہ ا نہیں ہر جمہوریت پسند قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ ان کی ساری زندگی جمہوریت کی جدوجہد میں گزری۔ان پر افغان انٹیلی جنس سے تعلق کے الزام لگتے رہے اور یہ بھی کہا جاتا رہا کہ وہ پاکستان دشمن ملکوں کے ’’ پے رول ‘‘پر ہیں ۔ پاکستان کے خلاف متنازعی بیانات بھی دیتے رہے اور انٹیلی جنس کے حلقوں میں ان کی حب الوطنی پر شک و شبے کا ہی اظہار کیا جاتا رہا ہے۔تاہم یہ ایک الگ موضوع ہے ۔
پھر اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ 2013 میں ایک تاجر پاکستان کے تخت پہ براجمان ہو گیا۔ محمود خان اچکزئی ناقابل فروخت تھے لیکن نواز شریف بھی کمال کا تاجر تھا۔ اس نے بالکل درست انداز لگایا اور محمود خان اچکزئی کو ان کی مرضی کی قیمت ادا کر دی۔کہنے والے کہتے ہیں کہ آج کل محمود خان قومی اسمبلی میں نواز شریف کے منشی کا کام کرتے ہیں۔ وہ کیسے ۔۔۔۔۔آےئے ہم آپ کو بتاتے ہیں ۔
جمہوریت کی حمایت میں لمبی لمبی تقریریں کرنے کا پھل شاید اتنا کسی کو نہیں ملا جتنا پشتو نخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور ان کے رشتے داروں نے وصول کیا ہے۔
محمود خان اچکزئیmahmood khan achkazi عمران خان اور طاہر القادری پر خوب اچھلے اور اپنی اوقات سے بڑھ کر ایسے ایسے بیانات دےئے کہ حیرت ہونے لگی کہ ایک بلوچ قوم پرست لیڈر جو ساری زندگی اصولوں کی سیاست کرتا رہا محض چند عہدوں کے لئے نواز شریف کی اس طرح طرف داری کرنے لگا کہ ایسی طرف داری تو مسلم لیگ نواز کے ارکان اسمبلی بھی نہ کر سکے ۔واقعی انہوں نے حق ادا کر دیا ۔ محمود خان اچکزئی نے ایسا کیوں کیا ؟ یہ بڑا واضح ہے۔محمود خان اچکزئی کا پورا خاندان اس وقت حکومت میں ہے ۔
محمود خان اچکزئی نے کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو اسلام آباد دھرنوں کے خلاف مظاہروں کی کال دے دی اور کہا کہ کسی صورت میں مارشل لا قبول نہیں کریں گے ، مسلم لیگ ن ، جماعت اسلامی ، اے این پی کے دس گنا لشکر دھرنا دینے والوں کو اٹھادیں تو کیا ہوگا۔ ہم خیال جماعتوں کے ساتھ پورے ملک میں پر امن مظاہرے کریں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پختو نخوا ملی عوامی پارٹی بادشاہت کے خلاف ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف ان کے رشتہ دار نہیں، تاہم وہ جمہوریت کیلئے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
محمود خان ا چکزئی نے نواز شریف کو خوش کرنے کے لئے یہ ’’ تڑی ‘‘ بھی لگا دی کہ پارلیمان کی طرف کوئی بھی ہاتھ بڑھا تو اسے توڑ دیں گے، ہر قیمت پر آئین اور پارلیمنٹ کا دفاع کیا جائے گا۔
اب محمود خان اچکزئی کے بیانات دیکھیں ، ان کو اور ان کے خاندان کو جس طرح شریک اقتدار کیا گیا ہے ، وہ دیکھیں تو ساری بات اور کھیل سمجھ میں آ جاتا ہے۔
ملکی تاریخ کا شاید یہ انوکھا واقعہ ہے کہ بلوچستان کے ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے 8 افراد قومی اور صوبائی اسمبلیوں سمیت اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ اُن کے بھائی ،سالیاں، بھانجیاں سالے، مامے چاچے اور نہ جانے کتنے لوگ نواز شریف کے اقتدارکی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی قومی اسمبلی کے رکن ہیں جبکہ ان کے بڑے بھائی محمد خان اچکزئی گورنر بلوچستان کی ذے داریاں نبھا رہے ہیں۔ اچکزئی کے دوسرے بھائی ڈاکٹر حامد اچکزئی بلوچستان کے وزیر منصوبہ بندی و ترقیات ہیں۔ ان کے ایک کزن ڈاکٹر مجید اچکزئی رکن بلوچستان اسمبلی، رشتے دار عبدالقہار اور معصومہ اچکزئی رکن قومی اسمبلی ہیں، ان کے دو اور رشتے دار سپوژمی اور عارفہ صدیق ایم پی ایز ہیں۔
واقعی محمود خان اچکزئی کی موج نواز شریف کے اقتدار کے ساتھ ہے۔ وہ کیسے مان لیں کہ نواز شریف استعفیٰ دے دیں۔ نوازشریف تو ایک مدت سے موج کر رہے ہیں، محمود خان کے سامنے تو ابھی پہلی پلیٹ آئی ہے۔ ان تمام عہدوں کے بعد محمود اچکزئی اور ان کے خاندان کی جانب سے جمہوریت کے لیے دیئے گئے بیانات قابل فہم ہیں۔money
محمود خان اچکزئی ایک متنازعہ سیاست دان ہیں ۔ انہوں جتنی عزت کمائی تھی ، وہ نواز شریف کا ساتھ دے کر کھو دی ۔ اب وہ یہ باتیں عوام سے کیسے چھپاتے پھریں گے کہ انہوں نے مبینہ طور پر افغان انٹیلی جنس سے لاکھوں ڈالروصول کئے۔اس الزام کی انہوں نے کبھی تردید نہیں کی ۔
اسی بحران کے دوران مبشر لقمان نے ایک ویڈیو اے آروائی نیوز پر نشر کی جس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ افغان انٹیلی جنس کا بدنامِ زمانہ کمانڈرمیجر جنرل عبدالرازق اچکزئی جو کہ پاکستان توڑنے کی سازشوں میں مشغول رہتا ہے کس طرح پاکستان کی آرمی کے خلاف سازش کررہا ہے۔ یہی میجر جنرل عبدالرازق اچکزئی ہمارے قوم پرست لیڈر محمود خان اچکزئی کے قریبی دوست ہیں۔جنرل عبدالرازق اچکزئی پریہ الزامات بھی ہیں کہ وہ را کے ایجنٹوں کو دہشت گردی کی نیت سے پاکستان میں داخل کراتا ہے ۔مبشر لقمان نے کچھ تصاویر بھی نشر کیں کہ جن میں محمود خان اچکزئی کو افغان انٹیلی جنس کے اس بدنامِ زمانہ افسر کے ساتھ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے دو لینڈ کروزر گاڑیوں کی تصاویر بھی دکھائیں گئیں جو کہ مبینہ طور پر افغان انٹیلی جنس کی جانب سے محمود خان اچکزئی کو دی گئیں۔ محمود اچکزئی پر یہ بھی الزام ہے کہ افغان حکومت نے الیکشن 2013 میں ان کی مالی مدد کی تھی۔یہ کہا جاتا ہے کہ مبینہ طور پرانہیں تیس لاکھ ڈالر الیکشن جیتنے کے لئے افغان حکومت نے فراہم کئے تھے اور ساتھ ہی ساتھ چمن کے تاجروں پر بھی دباوؤ ڈالا گیا کہ وہ محمود خان اچکزئی کی حمایت کریں۔
***
ا ب اس سارے منظر نامے کا ڈراپ سین یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک نئے دوراہے سے گزر رہی ہے ۔ عوام کے حقوق غضب کرنے اور باریاں لینے والی جماعتیں ایک بار پھر قریب آگئی ہیں۔ سیاست دان اور پارلیمنٹ کے بیٹھے کرپٹ عوامی نمائندے یہ جان گئے ہیں کہ عوامی مطالبات کے حق میں جاری دھرنے جمود اور مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ سیاسی حلقوں کو اصل تشویش یہ لاحق ہے کہ شاہراہ دستور پر عوامی مطالبات کے حق میں جاری دھرنے جمود اور مراعات یافتہ طبقے کے مفادات ختم ہو سکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ روایتی قوتیں نہیں چاہتیں کہ یہ جمود ٹوٹے اور ان کی اجارہ داری ختم ہو سکے ۔
دوسری طرف عوام میں یہ تاثر پایا بھی جاتا ہے اور اس تاثر کو تقویت بھی مل رہی ہے کہ بڑی جماعتوں کے قائدین کے رابطے، حکومت سازی پر اجارہ داری کو برقرار رکھنے کے لیے ہیں۔ یہ ’’ سٹیٹس کو ‘‘کی جنگ بن چکی ہے۔اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکلے گا۔

Leave a comment