گودھرا کیس، کئی سوالات کے جواب باقی ہیں؟
کیس کی اصل بنیاد بہیرا کااقبالی بیان ہے جس کی توثیق باریہ کی شہادت سے ہوتی ہے
نندنی اوزا
یکم مارچ کو گجرات میں گودھرا کے سنگل فالیا کے پچھواڑے میں عبدالرزاق سمول کے کرایے کے مختصر مکان میں موت کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ عبدالرزاق کا 20 سالہ بیٹا ابراہیم عبدالرزاق سمول ان 20 افراد میں شامل تھا جنہیں گودھرا ٹرین آتشزنی کیس میں سزائے عمر قید سنائی گئی دیگر 11 افراد کو سزائے موت دی گئی۔ 59 افراد جن میں سے بیشتر ایودھیا سے لوٹنے والے کار سیوک تھے، اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب 27 فروری 2007 ء کو سابرمتی ایکسپریس کا S-6 ڈبہ شعلہ پوش ہو گیا تھا جس کے بعد فسادات میں ایک ہزار سے زائد افراد جس میں بیشتر مسلمان تھے، ہلاک کر دئیے گئے۔ ساٹھ سالہ عبدالرزاق نے کہا کہ میرا بیٹا بے گناہ ہے جس رو ز ٹرین جلائی گئی اس وقت وہ گھر میں سو رہا تھا۔ میں نے اس جگا کر کہا کہ ریلوے اسٹیشن پر کچھ گڑ بڑ ہے۔ ڈھائی سال بعد اسے اس وقت گھر سے گرفتار کیا گیا جب وہ سور رہا تھا۔ عبدالرزاق اور ان کی اہلیہ میمونہ کا کہنا ہے کہ ابراہیم کو جس اس وقت 17 سال کا تھا، غلط فہمی میں کیس کا ایک ملزم عبدالرزاق بھانو سمجھا گیا۔ ڈرائیور عبدالرزاق گزشتہ 5 سال سے گھر تک محدود ہے کیونکہ ان کی بینائی کمزور ہو گئی ہے۔ ضروریات زندگی پوری کرنے کیلئے میمونہ ایک گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ خصوصی عدالت کی سزا کی خبر عام ہوئی تو گودھرا میں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ لوگ قصور وار قرار دئیے گئے افراد کے مکانات کے قریب جمع ہوئے اور 63 بالخصوص ٹرین میں آتشزنی کے مبینہ اصل سازشی مولانا حسین عمر جی کی بریت کے خلاف برہمی کا اظہار کیا۔ خصوصی جج پی آر پاٹل نے فیصلہ سنانے کے دوران ٹرین جلانے کے واقعہ کو بدترین قرار دیا۔ امان گیسٹ ہاوز جہاں مبینہ طور پر سازش رچائی گئی، کے مالک عبدالرزاق کرکر اور سابق کونسلر بلال اسماعیل عرف حاجی بلال ان افراد میں شامل ہیں جنہیں سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اس سزائے موت کیلئے گجرات ہائی کورٹ سے توثیق درکار ہے۔ جابر بنیا من پہرا جس کے مجسٹریٹ کے روبرو اقبالی بیان سے سازشی نظریہ سامنے آیا۔ اسے بھی سزائے موت دی گئی۔ عینی شاہد جئے باریہ کی اپریل 2002 ء میں شہادت سے سازش کے نظریہ کو تقویت ملی۔ چیف پبلک پراسیکیوٹر اے ایم پنچل نے کہا کہ غالباً ہندوستان میں یہ پہلی بار ہے کہ ایک کیس میں کئی افراد کو سزائے موت دی گئی۔ گودھرا میں کئی افرادنے وثوق کے ساتھ کہا کہ خاطی بے گناہ ہیں۔ وکیل و سماجی کارکن رمضانی جھوجھارا نے کہا ہے کہ ان کے خاندانوں کی حالت دیکھئے۔ ایک اور سماجی کارکن محمد صفی یعقوب بدم نے کہا کہ خاطیوں کو سولی پر لٹکا دیجئے لیکن یہ افراد بے گناہ ہیں۔ حتیٰ کہ انہیں واقعہ کا مقام بھی معلوم نہیں۔ حکومت کے ترجمان جئے نارنائن ویاس نے کہا کہ ٹرین میں آگ یقیناً سازش کا نتیجہ ہے۔ کیس کی تحقیق کرنے والی تحقیقاتی ٹیم سے توقع ہے کہ بریت کے خلاف اپیل کرے گی۔ خاطی قرار پانے والے افراد بھی فیصلہ کے خلاف اپیل کریں گے۔ کیس پر نگاہ رکھنے والے گجرات ہائی کورٹ کے وکیل مکل سنہا نے کہا کہ کئی سوالات کے جواب باقی ہیں۔ ان کے بموجب کیس کی اصل بنیاد بہیرا کا اقبالی بیان ہے جس کی توثیق باریہ کی شہادت سے ہوتی ہے۔
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کس طرح 31 افراد نے ایک دوسرے سے روابط پیدا کیا اور ان میں سے ہر ایک کو کیا ذمہ داری سونپی گئی تھی ۔ اقبالی بیان کے مطابق کوچ جلانے کے لئے پٹرول ٹرین کی آمد کے مقررہ وقت 2.44 بجے رات سے محض 5 گھنٹوں قبل خریدا گیا۔ ان میں سے ایک شخص نے اس وقت معلوم کیا کہ ٹرین پانچ گھنٹے تاخیر سے چل رہی ہے۔ جس کے بعد دوبارہ جمع ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک سوال کس کا جواب باقی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ٹرین وقت پر پہنچی تو اس کے لئے کیا منصوبہ تھا۔ جب آئی بی سمیت کسی ایجنسی کو معلوم نہیں تھا کہ کار سیوک واپس ہو رہے ہیں تو مفوضہ ملز مین کو کس طرح معلوم ہوا؟ ان سوالات کے جواب باقی ہیں۔