دہشت گردی برداشت نہیں،چین کی وارننگ پر پاکستان کی نیندیں حرام
ترکستان اسلامی پارٹی نے پاکستان کے آشوب زدہ علاقے شمالی وزیرستان میں اپنی پناہ گا ہیں بنائی ہوئی ہیں، کاشغر میں دھماکے اور پر تشدد کارروائیوں کرنیوالوں نے پاکستان میں عسکری تربیت حاصل کی ، آئی ایس آئی کے جنرل احمد شجاع پاشا کا دورہ چین بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا ، بھارت نے امریکا کی حمایت کے ساتھ پاکستان اور چین کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی
مقبول ارشد/پروین سوامی
چین اور پاکستان کی دوستی مثالی ہے لیکن اگر چین اچانک یہ کہے کہ دہشت گردی کے بعض واقعات میں ملوث دہشت گرد پاکستانی علاقوں میں تربیت پا رہے ہیں اور انہوں نے گذشتہ ہفتے کاشغر میں ہونے والے بم دھماکے اور فسادات کئے جن میں بارہ افرادہلا ک اور بے شمار زخمی ہوگئے تو اس الزام پر پاکستان کا ردعمل کیا ہو گا؟
یقینی طور پر پاکستان پہلے اس الزام کی تردید کرے گا ، پھر ان کی مذمت کرے گا اور پھر اس کے تدارک کی کوشش کرے گا ۔
سب کچھ ایسا ہی ہوا ۔ اس دوران جب اچانک آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کے چین جانے کی اطلاع آئی تو اندازہ ہوا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ۔ کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہے تب ہی آئی ایس آئی کے سربراہ کو جاناپڑا وگرنہ کوئی چھوٹا معاملہ ہوتا تو نچلی سطح پر ہی بھگتا لیا جاتا ۔
یہ معاملہ کیا ہے ؟ پہلے وہ بات سن لی جائے جو چین کہتا ہے ۔
گذشتہ ہفتے چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر میں ہونے والے بم دھماکے اور فائرنگ کے واقعے میں گیارہ افراد ہلاک ہو گئے ۔ کاشغر کی شہری حکومت کے مطابق مسلح دہشت گردوں کے ایک گروپ نے ایک ریستوران پر دھاوا بولا اور انھوں نے اس کے مالک اور ایک ویٹر کو ہلاک کر دیا اور اس کے بعد عمارت کو آگ لگا دی تھی۔بم حملے اور فائرنگ کے واقعے میں ملوث چار حملہ آوروں کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا تھا اور ایک نے ہسپتال جاتے ہوئے دم توڑ دیا تھا جبکہ دو فرار ہو گئے تھے۔کاشغر کی حکومت نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردہ بیان میں الزام عائد کیا کہ اختتام ہفتہ پر مغربی صوبے سنکیانگ میں دو تباہ کن حملے کرنے والے مسلم انتہا پسندوں نے پاکستان میں عسکری تربیت حاصل کی تھی ۔دھماکے میں استعمال ہونے والامواد اور اسلحہ مشرقی ترکستان اسلامی تحریک سے حاصل کیا گیا تھا۔حملہ کرنے والوں نے کالعدم مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کے کیمپوں میں دھماکا خیز مواد اور آتشیں اسلحہ چلانے کی تربیت حاصل کی تھی لیکن اس نے اپنے اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ مشرقی ترکستان اسلامی تحریک سنکیانگ کی آزادی کی علمبردار ہے اور وہ اسے ایک آزاد ریاست بنانا چاہتی ہے۔چین کا یہ کہنا ہے کہ اس گروپ کا القاعدہ کے ساتھ تعلق ہے۔شہری حکومت کے مطابق یہ معلومات ایک حملہ آور کے اقبال جرم سے حاصل ہوئی ہیں۔
اس الزام پر نہ صرف بیجنگ بلکہ اسلام آباد بیٹھے فیصلہ ساز حلقوں کا ماتھاٹھنکا۔ابتدائی طور پرپاکستان نے چین کے شہر کاشغر میں تشدد کے واقعات کی مذمت کی اور کہا کہ پاکستان کو یقین ہے کہ چینی حکومت اور سنکیانگ کے محب وطن عوام شر پسندوں کو ناکام بنا دیں گے۔ترجمان کا کہنا تھاکہ حکومت پاکستان چین کو مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کے خلاف مکمل تعاون فراہم کرتی رہے گی۔
پاکستان کے لئے اس الزام میں تشویش کی بات یہ تھی کہ ماضی میں بھی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بعض گروپوں پر سنکیانگ میں گڑ بڑ پھیلانے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں لیکن پاکستان کی مذہبی اور سیاسی قیادت ماضی میں سنکیانگ اور دوسرے علاقوں میں کسی بھی قسم کو سازش کو ناکام بنانے میں چینی حکومت کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہے اور انھوں نے سی آئی اے کی جانب سے سنکیانگ میں مبینہ طور پر افغانستان کے سابق جہادیوں کے ذریعے گڑبڑ پھیلانے کی سازش کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا جس کی وجہ سے چین گذشتہ چند سال کے دوران ایسے عناصر کی بیخ کنی میں کامیاب رہا تھا۔
ان حالات میں کہ جب ایک طرف امریکہ کیطرف سے بھی پاکستان پر مختلف الزامات عائد کئے جا رہے تھے اور امریکی سی آئی اے کے بھی آئی ایس آئی سے تعلقات کشیدہ تھے ، ایسے میں چین کی طرف سے بھی پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام کئی مسائل کا موجب بن سکتا تھا ۔ ان حالات میں جب آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا اچانک چین کے دورہ پر چلے گئے تو کسی کو تعجب نہ ہوا ۔
چین کی طرف سے ان الزامات کے سامنے آنے کے فوراً بعد آئی ایس آئی کے سربراہ کا اچانک بیجنگ کا دورہ اس حوالے سے پاکستانی حکومت اور فوجی قیادت کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا تھا۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو کس قدر اہمیت دیتا ہے اور چین پر پاکستان کا انحصار کس قدر زیادہ ہے۔
شمالی وزیرستان ، ترکستان اسلامی پارٹی کی پناہ گاہ
پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ترکستان اسلامی پارٹی نے پاکستان کے آشوب زدہ علاقے شمالی وزیرستان میں اپنی پناہ گا ہیں بنائی ہوئی ہیں ۔اس کا ثبوت یہ دیا جاتا ہے کہ ترکستان اسلامی پارٹی کے سربراہ میمتین میمت لگ بھگ ایک سال قبل ایک میزائل حملے میں ہلاک ہوگئے جو ایک امریکی ڈراؤن طیارے سے داغا گیا تھا ۔ اپنی پناہ گاہ میں جنوری 2009 میں ایک آخری خطاب میں انھوں نے کہا تھا کہ’’ مشرقی ترکستان میں مرے مسلم بھائیو‘‘
’’ اہم ایمان، اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرنے میں ناکام ہوگئے۔ اس کے بجائے ہم نے ہمارے دشمنوں کی مدد کی، ان دشمنوں کی جنھوں نے ہم پر کمیونزم مسلط کر دیا ، ہماری عورتوں کی بے حرمتی کی، ہمارے گھروں کے تقدس کو پامال کیا، ہماری سرزمین پر یلغار کی اور ہماری دولت لوٹ لی اب تیار ہو جاؤ ان دہرئیے کمیونسٹوں سے لڑائی لڑنے کے لیے کیوں کہ جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘۔یہ خطاب القاعدہ سے مربوط جہادی ویب سائٹ پر شائع کیا گیاتھا۔
اس وقت صورت حا ل یہ ہے کہ ترکستان اسلامک پارٹی نائن الیون کے بعد سے وسط ایشیاء کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے ۔ امریکہ اور اس کے حلیفوں کے پے درپے حملوں کے باوجود یہ تنظیمیں اپنی بقاء کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔ لیکن اب جب کہ امریکہ اپنی فوجیں افغانستان سے باہر نکال لے جانے کی تیاری کر رہا ہے ۔ ان جہادی تنظیموں کے خلاف پاکستانی سکیورٹی فورسز کی کاروائیاں کمزور پڑھ گئی ہیں۔ کیوں کہ شمالی وزیرستان میں ان تنظیموں کے خلاف کی گئی جنگ نے پاکستان کے اندر بدامنی اور عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔ چین کے اندر اور وسط ایشیا میں بھی یہ خو ف ابھر رہا ہے کہ کا شغر شہر میں برپا کیا گیا تشدد آئندہ ہونے والی لڑائیوں کی ایک پہلی جھڑپ ہے۔
چین کا سکیانگ ایشیاء کی گذرگاہوں کے اہم مقام پر واقع ہے۔ اس کی مغربی سرحدیں قازقستان ، کرغیرستان ، تاجکستان ، افغانستان ، پاکستان اور ہندوستان سے ملتی ہیں۔ چین کے لیے سکیانگ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے زبردست اہمیت رکھتا ہے اور پورے خطہ کے لیے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے ، کیوں کہ قازقستان کی قدرتی گیس کی ترسیل پائپ لائنس سکیانگ صوبہ کے علاقوں سے گزر کر چین کے دیگر علاقوں تک پہنچتی ہیں۔ پھر یہ کہ چین کے مشرقی ساحل کے فروغ پذیر علاقوں کیلئے بھی زنجیانگ صوبہ کے معدنیاتی ذخائر بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ چین کے کئی عظیم ترقیاتی پروجیکٹس کے لیے بھی زنجیانگ صوبہ بڑی اہمیت کا منطقہ بن گیا ہے۔ صدہاصدیوں سے چین کے شہنشاہ زنجیانگ کے منطقے پر حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ 1949ء میں چین پر کمیونسٹوں کی حکمرانی قائم ہوجانے کے بعد زنجیانگ منقطہ بھی چین کا حصہ بن گیا۔ لیکن کئی دہوں تک پرتشدد بغاوتوں اور جنگوں کے بعد سے سکینانگ میں مسلمان کی آبادی کوئی 80 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔ سکیا نگ صوبہ کی مجموعی آبادی دو کروڑ دس لاکھ نفوس کی ہے ۔ اس آبادی میں کئی نسلی گروپ ہیں۔ مشرقی ترکستان اسلامی مومنٹ1993 ء میں قائم ہوئی۔ ترکستان اسلامک پارٹی تحریک کی جنم داتا ہے۔ جس نے کہ مقامی سطحوں اور عالمی سطحوں پر اورایشیاء کے کئی علاقوں میں جہاد کو پھیلایا اور بڑھایا ہے۔
چین میں کمیونسٹ انقلاب اور حکمرانی نے چین کے دیگر منطقوں کی طرح سکیانگ میں بھی زبردست اتھل پتھل اور تبدیلی پیدا کی ہے۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد تمام روایتی، سیاسی تہذیبی ڈھانچے اور قدیم زمین داروں جاگیرداروں کا نظام پورے طور پر ڈھ گیا ۔ سکیانگ صوبہ میں بڑے بڑے زمین دار جاگیردار مسلمان کے طاقتور مذہبی پیشوا تھے۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد ان مذہبی پیشواؤں کے اقتدار کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ سوویت یونین کی انٹیلی جنس سروس نے بھی چین کو ایک بہت بڑی طاقت بننے سے روکنے کے لیے مشرقی ترکستان کے علیحدگی پسندوں کی اس وقت مدد شروع کی تھی ، جب کہ چین اور سوویت یونین کے باہمی تعلقات1961 میں بگڑگئے تھے ۔ سکیانگ ترکستانی علیحد گی پسندوں کے روایتی اسلام کے برخلاف جدید اسلامی تحریک اس وقت زور پکڑ گئی ، جب 1979ء میں مخالف سوویت یونین جہاد نے افغانستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔ سینکڑ وں بلکہ شائد ہزاروں مسلمانوں نے اس عظیم جہاد میں حصہ لیا۔ پھر وہ اپنے وطن واپس چلے گئے ۔ اس نئے ایمان کی طاقت کیساتھ کسی بھی بڑی طاقت کو باغیانہ جنگ کے ذریعہ شکست دی جاسکتی ہے۔
1993 میں حسن محسوم اور عبدالقادر یاپو قو آم جو کہ ایک ہی قصبہ ہوطان کے رہنے والے تھے۔ دونوں نے مل کر ایسٹ ترکستان اسلامک مومنٹ کی بنیاد رکھی تاکہ اسلامی اغراض ومقاصد کو آگے بڑھایا جائے ۔ بتایا جاتاہے کہ ان دونوں نے اسامہ بن لادن سے ملاقات کی۔ پھر ان کے گروپ طالبان کے ساتھ افغانستان کی لڑائی میں حصہ لینے لگے۔ فروری 1997ء میں سکیا نگ کے جہادی گروپ منظر عام پر ابھرآئے۔ کوئی 9مسلمان اس وقت ہلاک ہوگئے جب پولیس نے ان پر پر فائرنگ کر دی جو یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ علیحدگی پسندوں کو سزائے موت دی جائے۔ اس وقت جو خونریز تصادم ہوا وہ اب’’ شلجا ‘‘ واقعہ کے نام سے مشہور ہے۔ ترکستان اسلامک پارٹی نے پہلی بار بڑی دہشت گردی کی کارروائی کی تھی۔سکیا نگ کے صوبائی دارالحکومت عرمقی میں تین مسافر بسوں کو بم دھماکوں کا نشانا بنایاتھا۔اس کارروائی میں نو افراد بشمول تین بچے ہلاک اور درجنوں افراد زخمی ہوگئے تھے۔ حسن محسوم نے اس وقت تک ترکستان اسلامک پارٹی کا صدر دفتر کابل میں قائم کر لیا تھا۔ کیوں کہ اس کو طالبان نے پوری سرپرستی اور مدد فراہم کی ۔ نائن الیون کے بعد اگر چہ اس تنظیم کا صفایا کردیا گیالیکن شمالی وزیرستان میں اس تنظیم نے پھر سے اپنا ڈھانچہ بنالیا۔2003ء میں اگر چہ کہ حسن محسوسم پاکستانی فوجوں سیایک جھڑپ میں مارا گیا۔ لیکن انٹیلی جنس ذرائع کے بموجب اس تنظیم کے کوئی ایک ہزار لڑاکے الیاس کشمیری کے زیر سایہ آگئے۔ جنوری 2007ء سے پاکستان میں قائم جہادی گروپوں کی ہلاکت خیزی نمایاں طور پر ابھرنے لگی۔ اس ماہ سکیا نگ کے اندر ایک تر بیتی کیمپ پر مارے گئے چھاپے میں کوئی اٹھارہ باغی ہلاک ہوئے۔ ان ہلا ک شدگان کے کیمپ میں تفتیش کاروں کو وہ ویڈیو ٹیپ بھی ہاتھ لگا جس میں شام کے القاعدہ نظریاتی لیڈر مصطفی ستماریئم نثار کی وہ طویل تقریر ہے ۔ اس تقریر میں یہ کہا گیا کہ چین بھی عالمی جہادیوں کے نشانے پر ہے۔ اس ویڈیو میں سکیانگ کے مسلمان جہادیوں کی تربیت کے مناظر بھی ہیں کہ وہ راکٹ سے داغے جانے والے گرینڈ اور کندھے پر رکھ کر داغے جانے والے میزائل کے استعمال کی تریبت حاصل کر رہے ہیں۔
2008ء میں یہ حیران کن خبر ملی کہ مخالف طالبان افغان جنگجو سردار احمد شاہ مسعود کے قاتل کی بیوی ملکہ العرود نے معز غرصلاوی سے شادی کر لی۔ یہ انکشاف اس مقدمہ کے دوران ہوا جو کہ ملک العرود پر بلجیم کی ایک عدالت میں چلایا جارہا تھا ۔ اس دوران ایک گواہ نے ملک العرود کی شناخت کی۔ قانونی وجوہات کی بنا پر گواہ کا نام ظاہر نہیں کیا گیا اور اس کو صرف ’’WO‘‘ سے موسوم کیا گیا۔ اس گواہ نے بتایا کہ پاکستان کے شمال مغرب میں جہادیوں کا سب سے بڑا جتھا چین کے علاقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ترکستان اسلامک پارٹی کے عزائم کے ثبوت چین کے دارالحکومت بیجنگ میں اولمپک کھیلوں کی تیاری کے ساتھ ہی نمایاں ہونے لگے۔ مارچ2008 میں چین کے جنوبی صوبہ سے بیجنگ کے لیے پرواز کرنے والے طیارے کے عملے نے عین وقت پر ایک 19 سالہ بمبار غزالینورطردی کو پکڑ لیا جو کہ طیارے کی پرواز کے دوران بم دھماکہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے بارے میں پتہ چلا کہ اس نے پاکستان میں بم دھماکہ کرنے کی تربیت پائی تھی۔ایسے جہادیوں نے کچھ کامیابیاں بھی پائیں۔ اگست2008ء میں کاشغر پر کئے گئے جہادیوں کے حملے میں 16چینی پولیس عہدیدار ہلاک ہوگئے تھے۔ جہادی دھماکہ خیز مادوں سے بھرا ہوا ایک ٹرک لے کر کوقا پولیس اسٹیشن کی عمارت میں گھس گئے۔
ایسی قتل وغارت گری بالآخر بہت بڑی مسلم آبادی کے حامل ملک چین میں تہذیبی شکست وریخت کا محرک بن جائے گی اور شاندار اسلامی روایات کے اتلاف کا موجب بن جائے گی۔ چین کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین ایک ایسی خلیج پید اہو جائے گی کہ جس کو پاٹنا کٹھن بن جائے گا۔ 2008ء میں ترکستان اسلامک پارٹی کے کمانڈر نتن یاکوف نے چھ منٹ کے ویڈیو پیغام میں مسلمانوں کو یہ انتباہ دیا تھا کہ وہ اولمپکس دیکھنے اپنے بچوں کے ساتھ نہ جائیں۔ اس بس میں نہ بیٹھیں جس میں چینی ہوں، اس ٹرین میں نہ بیٹھیں، جس میں چینی ہوں، اس عمارت اور اس مقام پر جہاں چینی ہوں وہاں نہ جائیں۔ پھر سکیا نگ میں بڑے پیمانے پر فرقہ ورانہ فسادات پھوٹ پڑے ایسا بدترین اور ہولناک نسلی ، طباقاتی تشددچین نے کئی دہائیو ں میں نہیں دیکھا تھا۔ 192 سے زائد لوگ ہلاک ہوگئے۔ دوتہائی ہلاک شدگان نسلی ہان چینی اکثریت کے تھے ۔ ہزاروں افراد اس تشدد میں زخمی ہوئے تھے۔ یہ پرتشدد ہنگامے اس وقت پھوٹ پڑے تھے جب کہ جنوب مشرقی چین کے ایک صوبے کو آنگ ڈونگ کی ایک فیکٹری میں ہوئے جھگڑے کے دوران دو اؤیغور مسلمانوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس ہلاک کے بعد اؤیغور مسلمانوں کے وطنی صوبہ میں پرتشدد تصادم پھوٹ پڑا۔ لیبیائی نژادحسن ابو بکر ، القاعدہ کے بلند پایہ نظریہ گرنے قتل وغارت گری کے اس وقعہ ویڈیو ٹیپ اعلان میں یہ کہا کہ ’’ یہ قتل عام جرائم کار صلیبی یا خبیث یہودی نہیں کر رہے ہیں پھر بھی مسلمانوں کا آج فریضہ یہ ہے کہ وہ مشرقی ترکستان کے مظلوم اور زخمی بھائیوں کی مدد اور راحت رسانی کے لیے جو کچھ وہ کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں۔‘‘
تین وجوہات کی بنا پر چین کی انٹیلی جنس اور سکیورٹی سروس ان خطرات کے تعلق سے نہایت سنجیدہ ہو گئی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ چین عالمی سطح پر تیزی سے ابھرتے ہوئے اہم کرادار ادا کر رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ چین پہلے سے زیادہ غیرملکی دہشت گردیوں کا نشانہ بننے لگا ہے ۔ گذشتہ موسم گرما میں دبئی کے حکام نے سکیانگ کی رہنے والی ایک عورت میامایتمنگ شام کو اس وقت پکڑلیا تھاجب کہ وہ چینی مصنوعات فروخت کرنے والی ایک عالیشان اور وسیع وعریض دکان میں بم نصب کرنے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔ بیرونی ملکوں میں خدمات انجام دینے والے چینی بھی تشدد اور دہشت گردی کا نشانہ بنتے جارہے ہیں۔ چینی ورکرز پر بیرونی ملکوں میں حملے بڑھتے جارہے تھے۔2007ء میں پشاور میں تین چینی ورکروں کو قتل کر دیا گیا۔ جب کہ ’’القاعدہ ان دی اسلامی مغرب‘‘ نے گھات لگا کر 2007ء میں ایک چینی انجینئر کو ہلاک کر ڈالاتھا۔ صوبہ بلوچستان میں اور افغانستان کے قریباب صوبے میں چینی ورکرز پر کئی بار حملے ہوچکے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ایست ترکستان اسلامی مومنٹ ان ملکوں کے لیے بڑا خطرہ بن رہی ہے جو کہ چین کے مغرب میں ایک ہلال کے جیسے ہیں۔ یہ ممالک چین کے لیے یوں اہمیت کے حامل بن گئے ہیں کہ وہ چین کی توانائی ، ایندھن ضروریات کو پورا کریں گے۔ کیوں کہ یہ ممالک تین ، ایندھن اور قدرتی گیس کے عظیم ذخائر کے حامل ہیں۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ترکستان اسلامک پارٹی ازبکستان کی اسلامک مومن کے ساتھ تال میل رکھتی ہے ۔ اس اسلامک مومنٹ نے اپنے ہی وطن ازبکستان اور تاجکستان اور کرغزستان میں نہایت پرتشدد اتھل پتھل مچا دی تھی ۔ ازبکستان کے صدر مملکت اسلام کریموف نے نہایتسخت الفاظ میں یہ کہا تھا کہ ’’ پاکستان کے حکام نے ان ازبکستانی لٹیروں کو حراست میں لینے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔ جن کو کہا افغانستان میں تربیت دی گئی اور جنھوں نے القاعدہ کی کاروائیوں میں حصہ لیا۔‘‘
تیسری وجہ بالکل صاف ظاہر ہے کہ چین بڑے پیمانے پر فرقہ ورانہ فسادات کی روک تھام کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ جب کہ ہندوستان اس میں کامیاب نہیں ہوا ہے ۔ نسلی اور مذہبی کشیدگیوں کا انسداد کرنے کے لئے چین نے تیز وتند معاشی فروغ کے عمل کئے۔2009ء کے فرقہ ورانہ فسادات نے یہ بتا دیا کہ چین کے اندر داخلی امن کے لیے حقیقی خطرہ دہشت گردی سے ہے۔ پاکستان دہشت گردی کا انسداد او ردہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے سلسلے میں بہت کچھ کر سکتا ہے ،۔
چین کو اب جغرافیائی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ، وہ پاکستان کے ساتھ دیرینہ جغرافیائی فوجی تعلقات کو متوازن بنائے رکھنے میں بڑی دشواری محسوس کر رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان سے چین کے یہ تعلقات اس طرح کب تک برقرار رہتے ہیں۔ بہت کچھ دنیا کی دو بڑی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے باہمی تال میل اور عمل پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلے کا کیا حل ڈھونڈتے ہیں کیوں کہ یہ بات تنازعہ نہیں کہ دنیا کے ان ملکوں کو یکساں طور پر سکیوریٹی چیلنج کا سامناہے۔
کیا پاک چین تعلقات خراب ہونگے؟
بعض ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارت نے امریکا کی حمایت کے ساتھ پاکستان اور چین کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پاک چین تاریخی دوستی کی وجہ سے انہیں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کے چینی قیادت سے مذاکرات کی وجہ سے چینی قیادت کو اطمینان ہوا۔ دو مئی کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے جنرل پاشا تین مرتبہ چین کا دورہ کرچکے ہیں۔ چینی قیادت نے جنرل شجاع پاشا کو بتا دیا ہے کہ مشرقی ترکستان میں ہونے والے واقعات پر چین نے کبھی بھی پاکستان کی جانب انگلی نہیں اٹھائی۔ چینی قیادت کو پاکستان کے خلوص پر پورا بھروسہ ہے۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ کاشغر ریجن میں کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں کا تعلق قبائلی علاقوں میں ان گروپس کے ساتھ ہے جن کے پاکستان کے روایتی حریف کے ساتھ تعلقات ہیں۔ یہی گروپ پاکستان میں بھی کارروائیاں کرتے ہیں۔
آئی ایس آئی نے اس دورے سے متعلق خبروں کو رَد کیا ہے تاہم مغربی سفارتکاروں اور پاکستانی مبصرین کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کے اس دورے میں اس دہشت گردانہ واقعے کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے فوراً بعد پاشا کا چین کا دورہ اسلام آباد حکومت کی ترجیحات کو واضح کرتا ہے کیونکہ امریکہ کی جانب سے بارہا مطالبات کے باوجود پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے اس طرح مستعدی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ایک انٹیلی جنس افسر نے بتایا کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی ہمسائے خصوصاً قریبی اتحادی چین کے خلاف کسی بھی صورت استعمال نہیں ہونے دے گا۔ پاکستان اور چین کے درمیان انتہائی قریبی تعلقات ہیں اور ہم اس مسئلے پر چین سے مکمل تعاون کر رہے ہیں۔
achi aur informative story hay. maian isa translate kur ka apna dept head ko doon ga. kia copyright ka koi issue to nahee hay.
zaheer
bredford uk