Published On: Wed, Jun 22nd, 2011

ڈیوڈ ہیڈلی آخر کس کا ایجنٹ ہے ؟ سی آئی اے ‘لشکر یا…..

Share This
Tags

کیا امریکہ میں ایک ہی شخص کا مختلف ناموں سے پاسپورٹ حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہے،جتنی آسانی سے ہیڈلی کو سفری دستاویزات وسہولیات حاصل ہوتی رہیں؟

شکاگو کی عدالت میں ڈیوڈ کولمین ہیڈلی اور اس کے ساتھی تہوار رانا پر دہشت گردی کے مقدمہ کی کاروائی کیا شروع ہوئی ہے ہر دن کوئی نہ کوئی سنسنی خیز انکشاف سامنے آرہا ہے۔اس کے ساتھی تہور رانا کو عدالت با عزت بری کر چکی ہے اور اس بات کی سب سے زیادہ تکلیف بھارت کو ہے کیو نکہ بھارتی لابی نے تہور رانا کو سز دلانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔تاہم اس کی ساری کوششیں بے کار گئیں۔تہور رانا کا شروع سے ہی یہ موقف تھا تھا کہ اس نے ہیڈلی کو اس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں جان بوجھ کر کوئی امداد نہیں پہنچائی تھی ۔جیو ری کے سامنے رانا اور اس کے وکیلوں نے کہا تھا کہ وہ بے قصور ہے اور ہیڈلی نے صرف اس سے اپنی لمبی دوستی کا فائدہ اٹھا کر اس کی امیگر یشن کمپنی کو استعمال کیا۔اگر اس کا کوئی قصور ہے تو صرف یہ ہے کہ ہیڈلی نے اس کی کمپنی کی آڑ میں اپنی خطرناک سرگرمیاں چلائی تھیں اور وہ اس کی حرکتوں سے بے خبر تھا۔
تہور رانا کے بری ہونے کے ساتھ ہی اس کیس کی تمام حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے اور اب امریکہ کی وفاقی تفتیشی ایجنسی کا کلیدی گواہ ہیڈلی امریکہ کے ساتھ بھرپور تعاون کررہا ہے۔ تہور رانا کی رہائی نے ہیڈلی کو مجرموں کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے ۔ تاہم یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہیڈلی آخر کس کا کھیل ، کھیل رہا ہے ؟ وہ کس کا ایجنٹ ہے؟ سی آئی اے ‘لشکر یاآئی ایس آئی کا؟کیونکہ ہیڈلی نے جھوٹ پر جھوٹ بول کر اصل سچ کو جھوٹ میں بدل دیا ہے۔
ییہ بات قابل ذکر ہے کہ ہیڈلی نے 23مئی کو اپنی سماعت کے پہلے دن ایف بی آئی کے ایماء پر وعدہ معاف گواہ بنتے ہوئے جج اور جیو ری کے سامنے اقبال جرم کر لیا تھا۔لیکن ہیڈلی کو وعدہ معاف گواہ بنائے جانے پر بھارت کی طرف سے امریکہ پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ تاہم استغاثہ کے ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ ممبئی دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ڈیوڈ ہیڈلی سے ایک معاہدے کے بعد ملنے والی خفیہ معلومات سے ممکنہ دہشت گردی کے واقعات سے بچنے اور انسانی زندگیاں بچانے میں مدد ملی ہے۔
ڈیوڈ ہیڈلی نے عدالت اور ایف بی آئی کے سامنے ان تک جو انکشافات کئے ہیں اسے تینوں ممالک یعنی امریکہ ، بھارت اور پاکستان اہمیت دے رہے ہیں کیونکہ ان تینوں ممالک سے کسی نہ کسی طرح ہیڈلی کا رابطہ رہا ہے اور وہ ان ممالک میں آتا رہا ہے ۔
امریکی عدالت میں ہیڈلی نے ایک انکشاف یہ بھی کیا کہ اسے لشکر طیبہ سے ٹریننگ اور ہتھیار پہلی بار2000ء میں ملے ، جس میں لشکر طیبہ کے لیڈروں نے ہندوستان پر حملے کی بات کی ‘تو سب سے پہلے اس سے کہا کہ وہ اپنا نام بدل لے اور نئے نام سے پاسپورٹ حاصل کرے‘تاکہ وہ بے روک ٹوک ہندوستان کا سفر کرسکے۔ہیڈلی نے اس کے لئے اپنے پاکستانی نژاد کینیڈین دوست تہوار رانا کی امیگریشن کمپنی کو استعمال کیا۔رانا برسوں سے شکاگو میں رہتا ہے۔تاہم عدالت میں وکیل صفائی چارلس سوفٹ نے جیوری سے کہا کہ ہیڈلی ایک پاکستانی نژاد امریکی ہے‘جو ایسا شخص ہے جو مختلف لوگوں کو شیشہ میں اتارنے کا ہنر جانتا ہے۔وہ بیک وقت کئی ایجنسیوں کے لئے کام کر رہاتھا اور وہ برسوں سے لوگوں کو شیشہ میں اتارتا آیا ہے۔ تہور رانا اس کا پہلا اور واحد شکار ہر گز نہ تھا‘جبکہ امریکا کی اسٹنٹ اٹارنی سارہ سٹیکر کا کہنا تھا کہ رانا اس کے منصوبوں سے واقف تھا اور اس نے ہیڈلی کو ہندوستان کا سفر کرنے کے لئے جان بوجھ کر اپنی کمپنی کی آڑ مہیا کرائی تھی۔ علاوہ ازیں تہور رانا نے ایک اور منصوبہ میں اس کا ساتھ دیا تھا‘جو اس نے ڈنمارک کے اس اخبار کے خلاف تیار کیا تھا۔جس نے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کا کارٹون شائع کیا تھا۔ امریکی اٹارنی کے مطابق تہور رانا اور ہیڈلی ممبئی کے دہشت گردانہ حملہ (26/11)کے علاوہ کم ازکم دوسرے چار منصوبوں پر مل کر کام کر رہے تھے ۔سارہ اسٹیکر کے اس دعوے کی تصدیق ہیڈلی کے ان بیانوں سے بھی ہوتی ہے جو اس نے عدالت میں اگلی سماعتوں کے دوران دئیے ہیں اور جن میں اس نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے نشانہ پر ممبئی کا تاج ہوٹل ‘شبد ہاؤس اور دوسرے اہم مقامات کے علاوہ شیو سینا کا سربراہ ہال بال ٹھاکرے بھی تھا۔اس کے لئے اس نے شیوسینا راجا رام رہگے سے دوستی کرلی تھی ۔اس کو بال ٹھاکرے کا قریبی تعاون تھا۔ اس طرح اس کے نشانے پر نئی دہلی کا نیشنل ڈیفنس کالج بھی تھا جس کے بارے میں اس سے لیاس کاشمیر ی نے کہا تھا کہ اس ایک ادارے کو نشانہ بنانے سے اتنے ہندوستانی بریگیڈئروں کو نشانہ بنایا جاسکتاہے جتنے پاکستان کی فوج ہندوستان کے ساتھ ہونے والی چار جنگوں میں بھی نہیں مارسکی۔
ڈیوڈ ہیڈلی اور تہوار رانا کی گرفتاری کیس ہوئی؟
ڈیوڈ کولمین ہیڈلی اور تہوار حسین رانا کوایف بی آئی نے 27اکتوبر 2009کو شکاگو میں اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ کوپن ہیگن کے ایک اخبار کے کارکنان کے خلاف کارروائی کا منصوبہ بنارہے تھے۔ہیڈلی پر الزام تھا کہ اس نے جیلینڈ پوسٹن کی عمارت اور سکے قریب واقع سینا گگ(یہودیوں کی عبادت گاہ) پر دہشت گردانہ حملہ کے لئے ان مقامات کا جائزہ لینے کی غرض سے ڈنمارک کا سفر کیا تھا۔تحقیقات شروع ہوئی تو ایف بی آئی نے انکشاف کیا کہ ہیڈلی اسی طرح ہندوستان بھی گیا تھا بلکہ بار بار گیا تھا۔ اس نے ممبئی کے دہشت گردانہ حملہ کے لئے بھی اہداف کی ریکی کی تھی اور ممبئی میں 2008کے حملہ کیلئے پاکستانی دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کی مدد کی تھی جس میں امریکی شہری مارے گئے تھے۔ ہیڈلی نے 18مارچ2010ء کو ایف بی آئی کے تمام الزمات قبول کر لی ۔اب اگر اسے سزا سنائی گئی تو تاحیات قیدکے علاوہ تیس لاکھ ڈالر کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔
ہیڈلی کی پرسرار شخصیت اور ایجنسیوں کھیل
ڈیوڈ ہیڈلی کی پراسرار شخصیت اور اس کی سرگرمیاں ابتداہی سے ایک معمہ رہی ہیں۔ایک طرف تو امریکا نے اسے ممبئی حملے کا ملزم قرار دیا ہے‘لیکن دوسری طرف نہ تو اس نے ممبئی حملے کی تحقیقات میں ہندوستان کی قومی تحقیقاتی ایجنسی(این آئی اے) کے ساتھ تعاون کیا‘نہ اسے ہندوستان کے حوالے کیا گیا۔دوسری جانب وہ امریکہ کا سرکاری گواہ بن گیا اور ایف بی آئی کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہا ہے۔وہ اپنے دہشت گردانہ منصوبوں کی باریکیاں بتا رہاہے۔یہ بھی بتا رہا ہے کہ وہ کہاں کہاں گیا۔کس کس سے ملا اور کس کس نے اس کی مدد کی۔اور یہ بھی کہ اس کے پاکستانی دہشت گردوں کے نشانے کیا کیا تھے۔یہ بات تو پہلے ہی آشکار آچکی ہے کہ وہ امریکہ کی ایک تفتیشی ایجنسی ڈی ای اے کے لئے عرصہ دراز تک کام کر چکا ہے۔یہ حقیقت بھی منظر عام پر آچکی ہے کہ اس کی بیویوں نے بہت پہلے اس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی شکایت امریکی اتھارٹیز سے کی تھی۔لیکن انہو ں نے اس پر اس وقت تک خاموشی اختیار کئے رکھی جب تک ممبئی حملہ سرانجام نہ دیاگیا جبکہ اسکا مجرمانہ ریکارڈ ان کے سامنے تھا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے عین فطری ہے کہ کیا وہ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا؟ آیا اسے اور اس کی سرگرمیوں کو سی آئی اے کی حمایت حاصل تھی۔ورنہ وہ بار بار غیر ملکی سفر کیسے کرتا رہا؟کیا امریکہ میں ایک ہی شخص کا مختلف ناموں سے پاسپورٹ حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہے۔جتنی آسانی سے اسے سفری دستاویزات وسہولیات حاصل ہوتی رہیں؟
خبر رساں ایجنسی اے پی نے 24نومبر 2010کو یہ رپورٹ شائع کی تھی کہ پاکستانی فوج کے 5افسران جن میں ایک ریٹائرڈ افسر بھی شامل ہے اورد و لیفٹیننٹ کرنل اس سلسلے میں پاکستان میں تفتیش کے لئے حراست میں لئے گئے ہیں۔لیکن اگلے دن فوج کے ترجمان اطہر عباس نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہاتھا کہ فوج کے صرف ایک سابق میجر کو حراست میں لے کر تحقیقات کی جارہی ہے ۔خود ہیڈلی نے جون2010ء میں ہندوستانی تفتیش کاروں سے کہا تھا کہ اس کے ممبئی کے سفر کا خرچ آئی ایس آئی کے ایک افسر نے اٹھایا تھا ۔میجر اقبال نے ہیڈلی کو ممبئی آفس کھولنے کیلئے 25ہزار ڈالر دئیے تھے۔ہیڈلی کا بیان ہے کہ میجر اقبال لشکر طیبہ کے منصوبہ کا سپر وائزر تھا۔تاہم پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان آرمی یا آئی ایس آئی کا ڈیوڈ ہیڈلے کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ اس الزام کا مقصد پاکستان کے سلامتی کے اداروں کو بدنام کرنا ہے۔

ڈیوڈ ہیڈلی کون ہے؟

داؤد گیلانی عرف ڈیوڈ کو لمین ہیڈلی پاکستان ریڈیو کے سابق ڈائریکٹر جنرل ریٹائرڈ جنرل سلیم گیلانی کا بیٹا ہے۔اس پر ڈنمارک کے متنازع اخبار اور ممبئی پر 26/11کو ہوئے دہشت گردانہ حملوں کا الزام تھا ،ان الزامات کو اس نے تسلیم بھی کرلیا ہے۔داؤد گیلانی 1960کو واشنگٹن میں پیدا ہوا۔اس وقت سلیم گیلانی ’’وائس آف امریکہ ‘‘ میں ملازمت کرتے تھے۔اور اس کی ماں امریکی شہری Serill Headlyکی سکریٹری تھیں۔شادی کے بعد 1963سلیم گیلانی اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ پاکستان واپس آگئے۔بعد ازاں سلیم گیلانی اور شیرل ہیڈلی کے مابین اختلافات ہوگئے اور 1973میں دونوں نے علیحدگی اختیار کر لی۔اس کے بعد داؤد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے قانونی لڑائی لڑی اوعر 1977میں فیصلہ ان کے حق میں ہوا۔ڈیوڈ کو لے کر شیرل امریکہ آگئیں ۔انہوں نے فلاڈلقیا میں ایک پرانا ریستوراں خرید لیا اور اسے Pass Khyber کے نام سے از سر نو شروع کیا ۔اس طرح داؤد گیلانی روایتی مسلم سماج سے نکل کر بارکلچر میں آگیا۔1985میں شیرل نے Khyber Pass Bar اپنے بیٹے داؤد کے حوالے کردیا۔1997میں داؤد گیلانی کے خلاف ہیروئن اسمگلنگ کرنے کا مقدمہ چلا۔جس کے بعد وہ دو سال تک جیل میں رہا۔2008میں اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔2008میں داؤد گیلانی نے اپنا نام بدل کر ڈیوڈ ہیڈلی کر لیا۔گرفتاری کے بعد اس کے بارے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ہیڈلی امریکہ ایک کے Enforcement Director Drugاور سی آئی اے کے ساتھ ایجنٹ کے حیثیت سے کام بھی کرتا تھا۔یہ کام اس نے ایک دہائی سے زیادہ وقت تک کیا ہے۔جس طرح ہیڈلی نے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر ملنے والی سزا میں کمی کے لیے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا ہے،اسی طرح 1988میں جب فرینکفرٹ ہوائی اڈے پر اسے ہیروئن کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ،اس وقت بھی اس نے خود کو بچانے کے لئے امریکی ایجنسیوں کا ہاتھ تھام لیا اوعر ان کے لیے کام کیا۔

ڈیوڈہیڈلی ، ٹائم لائن

3اکتوبر2009کو ایف بی آئی ٹاسک فورس نے شکاگو ہوائی اڈے پر ڈیوڈ ہیڈلی کو گرفتار کر لیا۔
18اکتوبر2009کو اس کے ساتھی 48سالہ تہوار حسین رانا کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔
29اکتوبر2009کو ایف بی آئی نے شکاگو کی عدالت کو بتایا کہ لشکر طیبہ ہیڈلی کی مدد سے ہندوستان میں بڑے دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
30نومبر2009کو تہوار حسین رانا نے ممبئی میں 26/11کو ممبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں شامل ہونے سے انکار کیا۔
7دسمبر 2009کو شکاگو کی عدالت میں پہلی مرتبہ ہیڈلی پر ممبئی کی سازش تیار کرنے کی چارج شیٹ داخل ہوئی۔
8دسمبر 2009کو امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا کہ ہیڈلی کو سزا سنائے جانے کا دن انتہائی اہم ہو گا۔
9دسمبر2009ڈیوڈ ہیڈلی نے عدالت میں خود کو بے قصور بتایا۔
14دسمبر2009ڈیوڈ ہیڈلح سزائے موت سے بچنے کے لیے ایف بی آئی کا مخبر بن گیا۔
15دسمبر 2009کو ایف بی آئی نے انکشاف کیا کہ گجرات کا سامناتھ مندر،کچھ بالی ووڈ شخصیات اور کئی لیڈر ہیڈلی اوررانا کے نشانے پر تھے۔
29دسمبر2009کو ایف بی آئی نے ہیڈلی کی گرفتاری کو سال کی دوسری بڑی کامیابی کے طور پر درج کیا۔
27جنوری 2009ہیڈلی نے عدالت میں خود کو ممبئی حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔
18مارچ2010کو ہیڈلی نے عدالت میں ممبئی حملوں سمیت تمام الزامات کو تسلیم کر لیااور وہ سزائے موت پانے سے بچ گیا۔
ڈیوڈ ہیڈلی سے متعلق کچھ دیگر واقعات
جون 1988: ہیڈلی کو پہلی بار اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ پاکستان سے دو کلو ہیروئن اسمگلنگ کر کے لایا اور اسے 15ماہ کی قید ہوئی۔اس کے بعد وہ امریکہ کے Drug Enforcement Administrationکا دس سال سے زیادہ مخبر رہا۔
1990کی دہائی میں اس کی نگرانی کی مدت کم کر دی گئی ا ور آزادی کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
1997 میں منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں دوبارہ گرفتار کیا گیا ،مگر پھر معمولی سزا ملی او چھوٹ گیا۔
1999میں ایک مرتبہ پھر اسے منشیات کی اسمگلنگ کے الزم میں گرفتار کیا گیا اور پھر اسمگلنگ کے دھندے میں شامل اپنے ایک ساتھی کے بارے میں گواہی دے کر کم سزا پا کر چھوٹ گیا ۔
2005میں ڈیوڈہیڈلی کی ملاقات تہوار رانا سے ہوئی اور دونوں نے مل کر توہین آمیز کارٹون شائع کرنے والے ڈنمارک کے اخبار کے دفتر پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا ۔
15فروری 2006ڈیوڈ ہیڈلی نے اپنا نام بدل کر داؤد گیلانی کر لیا اور ہندوستان میں اپنے آپ کو امریکی شہری کے طور پر متعارف کرانا شروع کیا۔
جون 2006میں تہوار رانا سے بات چیت کرنے کے بعدممبئی میں امیگریشن آفس بنا کر اپنے خفیہ مشن پر کام کرنا شروع کیا۔
ستمبر2006میں ہندوستان آیا اس کے بعد فروری اور ستمبر2007اپریل ،جولائی 2008ممبئی آیا،5بار ممبئی کادورہ کیا۔
28مارچ2007سے 30مارچ2007تک وہ ممبئی کے تاج محل ہوٹل میں رہا۔
2مئی 2007سے 7مئی 2007تک وہ ممبئی میں رہا۔
فروری 2008میں اس نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کا دورہ کیا۔
مارچ2008میں ممبئی حملے سے چار ماہ قبل ہندوستان آیا اور کئی ہفتوں تک ہندوستان میں قیام کیا اور ممبئی ہاربر سے کشتی میں بیٹھ کر ویڈیو فلم بنائی۔
جون 2008میں پونے گیا۔ مارچ2009میں بھی پونے گیا۔ان دونوں مرتبہ وہ جرمن بیکری کے ٹھیک سامنے اوشو کے آشرم میں گیا ۔اس کے بعد وہ شکاگو واپس چلا گیا۔ڈیوڈ ہیڈلی 2006اور2009کے درمیان 9مرتبہ ہندوستان آیااسی دوران اس نے تقریبا ایک سال ہندوستان گزارا۔

Leave a comment