Published On: Mon, Jun 8th, 2015

سادگی کے دعویٰ داروں کے شاہانہ خرچے،اب اضا فی اخراجات کی منظوری کیلئے کوششیں

Share This
Tags
سادگی کی پالیسی کے دعوے کے باوجود حکومت موجودہ مالی سال کے لیے پارلیمنٹ سے 139 ارب روپے کے ’ریگولر سپلیمنٹری بجٹ ‘کی پوسٹ فیکٹو منظوری حاصل کرنا چاہتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بھاری اخراجات مقررہ حد سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ گزشتہ سال کی بہ نسبت یہ اخراجات 114 زیادہ ہیں۔پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی گئی بجٹ کی دستاویز کے مطابق 205.348 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ اس فہرست میں شامل ہے۔ان میں سے کچھ کی نوعیت تیکنیکی ہے، تاہم 139 ارب روپے کے اخراجات کا بڑھنا بجٹ پر ایک اضافی بوجھ بن جائے گا۔
قومی اسمبلی میں پیش کی گئی دستاویز پر ایک سرسری سی نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان اخراجات میں سے کچھ اراکین کابینہ کی صوابدیدی تقسیم، اشتہارات، لگژری گاڑیوں کی خریداری، ان کے الاؤنسز اور ججوں کی رہائشگاہوں کی تزئین و آرائش اور انٹیلی جنس اداروں کے غیرواضح اخراجات شامل ہیں۔
وزارتِ خزانہ کے ایک عہدے دار نے کہا کہ سپلیمنٹری گرانٹ پچھلے دو سالوں کے دوران خاصی بڑھی ہوئی تھی۔ تاہم اس گرانٹ کا بڑا حصہ بجٹ کی تیکنیکی تخصیص نو کے طور nawaz , ishaqپر شامل کیا گیا تھا، جس سے بجٹ پر اضافی اثرات مرتب نہیں ہوئے تھے۔
تاہم انہوں نے تصدیق کی کہ پچھلے سال کے بجٹ پر ریگولر سپلیمنٹری گرانٹس نے 65 ارب روپے کے اضافہ اثرات مرتب کیے تھے، جبکہ اس سال یہ رقم 114 فیصد بڑھ کر 139 ارب روپے ہوگئی ہے۔
ان سپلیمنٹری گرانٹس میں سے زیادہ تر وفاق کے محفوظ فنڈز میں سے خرچ کی جاتی ہے، جسے پارلیمنٹ کے سامنے محض اطلاع کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور بغیر ووٹنگ کے اس کی منظوری حاصل کرلی جاتی ہے۔ سادہ الفاظ میں پارلیمنٹ اس کو مسترد نہیں کرسکتی اس لیے کہ یہ رقم پہلے ہی خرچ کی جاچکی ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر سبسڈیز میں کمی کے حکومت کے متعدد دعووں کے باوجود درحقیقت سبسڈیز کے لیے مختص رقم لگ بھگ 63 ارب روپے سے تجاوز کرگئی ہے، اور اب اسے بجٹ میں سے وصول کیا جارہا ہے۔باقی 61 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹس کو قریب سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اخرجات وہ ہیں، جنہیں تجزیہ نگار اسراف قرار دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر 4.1 ارب روپے کی رقم وفاقی وزراء، وزرائے مملکت، وزیراعظم کے مشیر اور خصوصی معاون کے ایڈہاک ریلیف پر خرچ کی گئی تھی۔
دو کروڑ دس لاکھ کی ایک غیرمنظور شدہ رقم تفریحات، وزیراعظم کی جانب سے دیے گئے تحائف، خوراک اور ادویات پر خرچ کی گئی۔
وزیراعظم کے انسپکشن کمیشن بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہا اور اس نے ایک کانفرنس پر پانچ لاکھ روپے، اور وزیر مملکت برائے مواصلات و پوسٹل سروسز کے لیے دو گاڑیوں کی خریداری کے لیے 76 لاکھ روپے کی غیرمنظور شدہ رقم خرچ کی۔
تقریباً دو کروڑ 26 لاکھ روپے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کے لیے ادا کیے گئے، اور 1.7 ارب روپے طورخم جلال آباد روڈ کی اضافی گزرگاہ کی تعمیر پر خرچ کیے گئے۔
20 ارب روپے کے اضافی اخراجات پاکستان آرمی کی صلاحیت میں اضافے، دفاع کے لیے تازہ ترین درآمدات، پاکستان نیوی اور پاکستان نیوی کی ہاؤسنگ اسکیم پر ہوئے۔
دیگر اضافی اخراجات میں وی وی آئی پی گلف اسٹیم ایئرکرافٹ کو اپ گریڈ کروانے اور دوبارہ ادائیگی پر 13 کروڑ 40 لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔
1.1 ارب روپے کی رقم وزیرخزانہ کی خصوصی سبسڈیز کے طور پر ایک سیکیورٹی ایجنسی کو ادا کی گئی۔
حکومت نے 19 ارب روپے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو، 4 ارب روپے کے الیکٹرک کو اور 15 ارب روپے آپریشن ضرب عضب کے لیے فراہم کیے۔
43 کروڑ کی رقم لیبیا میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی وطن واپسی پر خرچ کی گئی، اور 40 کروڑ کی رقم اسلام آباد میں قازغستان اور تاجکستان کے سفارتخانوں کی تعمیر اور زمین کی الاٹمنٹ پر خرچ ہوئی۔

فیکٹ رپورٹ

Leave a comment