جنرل صاحب! ذرا بچ کے۔۔۔ کھیل شروع ہو گیا ہے
جیسے ہی ہوش سنبھالا دادی نے پہلی کہانی سنائی: ’بہت دنوں کی بات ہے کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔۔۔‘
جب حرف پہچاننے لگا تو بچوں کے رسالے میں پہلی ہی کہانی یہ پڑھی: ’ایک دفعہ کا ذکر ہے ایران پر ایک عادل بادشاہ کی حکمرانی تھی۔۔۔
مسجد میں ابا کے ساتھ پہلا قدم رکھا تو منبر پر بیٹھے مولوی صاحب کا یہ جملہ سب سے پہلے کانوں سے ٹکرایا: ’بے شک وہ سات آسمانوں اور سات زمینوں کا شہنشاہ کہ جس کے سامنے اس جہان کے تمام بادشاہ سجدہ ریز ہیں۔۔۔
ماں کو جب لاڈ آتا تو کہتی: ’تم تو میرے شہزادے ہو ۔۔۔‘ محلے میں کوئی بابا کوئی عجیب و غریب بات کرتا تو فوراً کوئی نوجوان لقمہ دیتا: ’بزرگو تسی وی نرے بادشاہ ہو ۔۔۔‘ کسی کی سخاوت یا فضول خرچی کا ذکر مقصود ہوتا تو یہ سننے کو ملتا: ’اس کا کیا پوچھتے ہو میاں اس نے تو بادشاہوں والی طبیعت پائی ہے۔‘
کیا ہمارے آدھے سے زائد لطائف بادشاہوں اور درباروں سے منسوب نہیں؟ ہمارے روزمرہ میں کیا شاہ و گدا، شہ کا مصاحب، شہ مات، امیرِ شہر، شاہ پرست، شاہی ٹکڑے، شاہی مرغ چھولے، شاہی باورچی، معجونِ شاہی، شاہی بازار، شاہی محلہ، استبدادِ شاہی، شاہی غیظ و غضب، بادشاہی مسجد، عالی جاہ، حضور والا، جہاں پناہ، سلطان، مغلئی دستر خوان، مغلئی تال، مغل بچے کا لاکھوں بار تذکرہ نہیں ملتا؟
بادشاہت کہاں ختم ہوئی؟ وہ تو عام آدمی کی نس نس میں منتقل ہو چکی ہے۔ نظام کوئی سا بھی لے آئیے بادشاہ کی تلاش جاری رہتی ہے۔۔۔ ایسا نجات دھندہ جو آنا فاناً سب ٹھیک کر دے ۔اوپر نیچے دائیں بائیں کہیں سے بھی آئے مگر آ جائے ۔۔۔
عمومی رویہ یہ ہے کہ جس کے پاس ذرا سا بھی اختیار ہے، وہ اپنی زات میں بادشاہ ہے ۔ پٹواری سے صدرِ مملکت تک سب کو چیک کر لیں۔سردار چھوٹا ہو کہ بڑا ، زمیندار ادنیٰ ہو کہ اعلیٰ ، تھانیدار سے سپاہی تک، جنرل سے حوالدار تک، مالک سے مزدور تک۔ بس موقع ملنے کی دیر ہے کہ اندر سے ایک بادشاہ برآمد ہو جاتا ہے۔ کون سی ایسی جماعت ہے جس کا لیڈر اپنے قول و فعل میں بادشاہ نہ ہو؟ کسی کا کہیں بس نہ چلے تو گھر کے اندر ہی شوقِ حکمرانی جھاڑ لیتا ہے۔
ان حالات میں جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق سراسر خسارے کا سودا اور خوشامد سکہ رائج الوقت ہے۔ طبیعت کی مطلق العنانی جتنی بھی سفاک ہو خوشامد کے آگے ریت کا ڈھیر ہے۔
مگر یہ راز ہر بادشاہ صرف چاروں شانے چت ہونے کے بعد ہی جان پاتا ہے کہ خوشامد وہ حسینہ ہے جس کے شہوت انگیز ہونٹوں میں صرف زہر بھرا ہے۔ خوشامد اچھے بھلے انسان کو وہ روایتی کوا بنا دیتی ہے جو لومڑی کو گانا سناتے سناتے اپنا نوالہ بھی گنوا بیٹھتا ہے۔ خوشامد وہ لباس ہے جسے جولاہے کے روپ میں آنے والے ٹھگ بادشاہ کو زیبِ تن کروا کے اس کا عریاں جلوس نکلوا دیتے ہیں۔
انگریز کس قدر اصول پسند مشہور تھا۔ مگر ہوا کیا؟ خوشامدیوں نے خطابات، زمینیں اور عہدے پائے اور غیر خوشامدیوں کے حصے میں پھانسی کا پھندا اور کالے پانی کی سزا آئی۔ تقسیم سے پہلے ایک جلسہِ عام میں کسی جوشیلے نے قائدِ اعظم شہنشاہِ اعظم کا نعرہ لگایا تو جناح صاحب نے خطاب روک کے وہ ڈانٹ پلائی کہ اس کے بعد کسی نے جناح صاحب کو بادشاہ کا خطاب دینے کی جرات نہیں کی۔( لیکن جناح صاحب کے اس رویے کو عمومی رویہ نہیں کہا جاسکتا)۔
کیا جواں سال بھٹو نے سکندر مرزا کو محسنِ پاکستان قرار دیتے ہوئے تاریخ میں جناح صاحب سے اوپر کا مقام الاٹ ہونے کی نوید نہیں سنائی تھی؟ اور مرزا کا بستر گول ہوتے ہی اسی الاٹمنٹ آرڈر پر ایوب خان کا نام چسپاں نہیں کیا تھا؟ کیا ایوب خان سے چوہدری خلیق الزماں نے دائمی صدر اور پیر علی محمد راشدی نے شہنشاہِ پاکستان بننے کی درخواست نہیں کی تھی؟ اور جب ایوب خان واقعی ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں بھاری عوامی پتھر سے ٹکرا کر منہ کے بل گرے تو کوئی خلیق الزماں یا راشدی کہیں آس پاس کسی نے دیکھا؟
فخرِ ایشیا، علی کی تلوار، تیسری دنیا کے بے مثال رہنما اور مولانا کوثر نیازی کے ’دیدہ ور‘ کے ساتھ کیا ہوا۔ ملتان گیریزن میں بھٹو کا شاہی استقبال کرنے والے کور کمانڈر ضیا الحق نے دورویہ افسر کھڑے کر کے ایسی والہانہ تالیاں بجوائیں مدبرِ اعظم چپر غٹو ہو گئے اور اپنے ہی ہاتھ سے اپنے انجام پر دستخط کر دیے۔
خود ’امیر الومنین ضیا الحق ‘ کے کتنے چھاتہ بردار ان کی برسی پر اکٹھے ہوتے ہیں؟ اپنے وقت کے شیرِ پنجاب غلام مصطفی کھر آج کہاں ہیں؟ ’دیکھو دیکھو شیر آیا‘ سن کے نواز شریف آج بھی سرور میں آ جاتے ہیں اور دہلی تا پالم بچ جانے والی سلطنت کا دکھ بھی بھول جاتے ہیں۔
کیا یاد نہیں کہ پاکستانی اتاترک پرویز مشرف کو گجرات کے چوہدری برادران بیس بار باوردی صدر منتخب کروا رہے تھے۔ آج یہ اتاترک ہر ٹی وی چینل کی رونق بننے کو تیار ہے۔ محسنِ پاکستان قدیر خان کا کیسا غلغلہ تھا؟ مگر وقت کے ہاتھوں وہ بس ایک ہفتہ وار کالمسٹ رہ گئے۔ ’کون بچائے گا پاکستان عمران خان عمران خان ‘کے نعرے نے خان صاحب کو کنٹینر پر تو چڑھا دیا مگر اترنا انھیں خود ہی پڑا۔ اور ابھی دو برس پہلے تک کیا ایک زرداری سب پے بھاری نہیں تھا؟
تازہ محاصرہ جنرل راحیل شریف کا ہو چکا ہے اور پوری کوشش ہے کہ ان کی توجہ اصل کام سے ہٹا کر مردِ آہن، نجات دہندۂ پاکستان اور نپولینِ عصر کے غلغلے میں اس عجائب گھر تک پہنچا دیا جائے جہاں بے شمار اکبرِ اعظموں کی تصاویر پر مالا لٹک رہی ہے۔ دعا ہے جنرل صاحب پیشہ ور پاپوش برداروں کے ہجوم اور ہر طاقت ور کی بگھی کے سامنے ناچنے والے جدی پشتی رقاصوں کے طائفے سے بچ بچا کر ’ضربِ عضب‘ سے بھی کڑی ’خوشامدانہ پلِ صراط‘ کو کامیابی سے پار کر جائیں۔
ورنہ تو جس نے ان ہلکوں کو ہلکا لیا وہ خود ہلکان ہو کر گیا۔۔۔
وسعت اللہ خان