Published On: Thu, Jan 29th, 2015

لال مسجدکے مولانا عبدالعزیز کے جرائم کیا ہیں؟

Share This
Tags
مولانا عبدالعزیز لال مسجد کے سابق خطیب مولاناعبداللہ کے بیٹے اور عبدالرشیدغازی کے بھائی ہیں۔ 1998ء میں مولاناعبداللہ کے قتل کے بعد مولانا عبدالعزیز اپنے والد کے جانشین کے طور لال مسجد کے خطیب بنے۔ مولاناعبداللہ جنرل ضیاء الحق کے بہت قریب تھے۔ پرویز مشرف کے دور میں جب وزیرستان آپریشن کے بعد مولانا عبدالعزیز اور اْن کے چھوٹے بھائی عبدالرشیدغازی پرحکومتی عمارتوں میں دہشت گردی کا الزام لگا اوراسکے علاوہ حکومت نے عبدالرشید غازی کی بارود سے بھری گاڑی پکڑ کرمیڈیا والوں کے سامنے پیش کی تو دونوں بھائیوں کو گرفتار کرنے کے بجائے ضیاء الحق کے بیٹے اور مشرف کابینہ کے وزیر اعجاز الحق کی سفارش پر اْنہیں بری کردیا گیا، یہ پرویز مشرف کی بہت بڑی غلطی تھی، اگر اْس وقت دونوں بھائیوں کو نہ چھوڑا جاتا تو شاید بدنام زمانہ لال مسجد آپریشن نہ ہوتا۔ درون پردہ کیا ہوا، معلوم نہیں لیکن اعجاز الحق کی سفارش کے بعد دیگر ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کر دےئے گے۔ ان ملزمان میں قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے چند افراد کے علاوہ ایک دو ازبک جنگجوؤں کے نام بھی لیے جاتے رہے۔ جن کے بارے میں یہ تصدیق ہو چکی تھی کہ ان تمام افراد کا لال مسجد آنا جانا تھا۔ حکومت نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا تو پتہ چلا کہ عبدالرشید غازی کے وزیرستان میں بسنے والے دہشتگردوں سے قریبی روابط تھے۔ گویا لال مسجد اور مولانا عبدالعزیز کا دہشتگردوں سے بہت پرانا تعلق ہے۔
abdul azizپرویز مشرف کے دور میں ہی اسلام آباد میں مساجد کی شہادت پرمولانا عبدالعزیز کے زیر انتظام چلنے والے مدرسے جامعہ حفصہ کی طالبات نے چلڈرن لائبریری پر جب قبضہ کیا تو اس کے بعد سے حکومت اور مولانا عبدالعزیز کے درمیان حالات کشیدہ ہوگئے۔ 2007ء میں عبدالعزیز نے ملک میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ جولائی 2007ء میں حالات اس وقت بہت سنگین رخ اختیار کر گئے جب رینجرز اور لال مسجد کے طلبا کے درمیان پہلی مرتبہ تصادم ہوا۔ جس کے بعد حکومت نے لال مسجد کے خلاف آپریشن کا اعلان کر دیا اور لال مسجد کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ مولانا عبدالعزیز جن کا دعوی تھاکہ اْن کے خون کے قطرے سے اسلامی انقلاب کی پہلی لہر اٹھے گی خود اپنے شاگردوں اور اپنے خاندان کے تمام افراد کو چھوڑ کر لال مسجد سے برقعہ پہن کر فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے کہ سیکورٹی اہلکاروں نے اْن کو گرفتار کر لیا۔ مولانا کبھی ٹی وی کے سامنے نہیں آتے تھے۔ لیکن حکومت نے دوبارہ برقعہ پہنا کر باقاعدہ اُن کا انٹرویو لیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ مولانا ٹی وی پر روز آنے کے مرض میں مبتلا ہیں۔
اسلام آباد کی کچہری میں ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کی عدالت میں لال مسجد کے عبد الرشید غازی کے بیٹے اور مولانا عبدالعزیزکے بھتیجے ہارون الرشید نے جنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کا آرڈر لینے کے لئے درخواست دائر کی تھی جسے انہوں نے رد کردیا تھا اور اپنے حکم میں لکھا تھا کہ یہ سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ اسکے تھوڑے دن بعد ہی کچہری میں نامعلوم افراد کی فائرنگ اورخودکش حملے کے نتیجے میں 13افراد جاں بحق اور 25سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ ایک عینی شاہدکے مطابق دہشت گردوں کی تعداد دس سے زائد تھی،انہوں نے مختلف اطراف سے حملے کئے۔ حملہ آوردہشت گردوں نے رفاقت اعوان کی عدالت پر ہلا بولا اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی،اس دوران ایک حملہ آور نے سیشن جج رفاقت اعوان کی عدالت کے سامنے خود کو اڑادیا جس کی وجہ سے رفاقت اعوان بھی جاں بحق ہو گئے۔بتایا جاتا ہے کہ مولانا عبدالعزیزکے بھتیجے ہارون الرشید کی درخواست مسترد ہونے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کو دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں، یہ ہی وجہ ہے کہ آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے میڈیا کو بتایا تھا کہ کچہری حملوں کی تحقیقات کررہے ہیں، اگر ضرورت پڑی تو لال مسجد والوں کو بھی تفتیش میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
پشاورمیں دہشت گردوں نے 132ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں اور 16گھرانوں کے بچے اپنی ماوں یا باپ سے محروم ہوگئے۔ پشاور میں ماؤں کی گود یں اجڑنے کے صرف چار دن بعد اپنے جمعہ کے خطبے میں شقی القلب مولاناعبدالعزیزکا کہنا تھاکہ تحریک طالبان نے فضائی حملوں کے جواب میں 132 بچوں کو قتل کیا، طالبان کا یہ اقدام قابل فہم ہے، حکمراں جیساکریں گے اس کا ردعمل بھی ویساہی ہوگا، حکومت بھارت اوربنگلہ دیش سمیت دنیابھرسے علمائے کرام کو بلالے، میں اس معاملے پر ان سے مناظرہ کروں گا اور ثابت کروں گاکہ یہ آپریشن غیر شرعی ہے۔مولانا عبدالعزیز کی پشاور کے واقعے کے بعد بھی دہشت گردوں کی کھلی حمایت کرنے پر اسلام آباد کی سول سوسائٹی نے لال مسجد کے سامنے مظاہرہ کیا اور مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا، جواب میں لال مسجد کے ناجائز خطیب نے مظاہرین پر حملے کی دھمکی دی۔ سول سوسائٹی کے مسلسل مظاہرے اور اْنکی ایف آئی آر درج ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کی ایک عدالت نے مولانا عبدالعزیز کے نا قابل ضمانت وارنٹ جاری کردیے ہیں، تاہم مولانا عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ وہ نہ تو گرفتاری دیں گے اور نہ ہی ضمانت کرائیں گے۔ مولانا عبدالعزیز کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمائش کی کہ پہلے پرویز مشرف کو گرفتار کیا جائے، پھروہ گرفتاری دے دیں گے۔
وزیراعظم نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ ایک باپ ہونے کے ناتے اُ نہیں احساس ہے کہ والدین اپنے بچوں کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں، والدین کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا کہ اپنے بچوں کے جنازے کو کندھا دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 6سال کی بچی خولہ میری بیٹی تھی جو ٹیسٹ دینے گئی اور واپس نہیں آئی، حذیفہ بھی میرا بیٹا تھا جو ناشتے کے بغیر گھر سے نکلا اور واپس نہیں آیا، پوری دنیا بچوں کے والدین کے غم میں برابر کی شریک ہے، دہشت گردوں نے قوم کے معصوم بچوں کونشانہ بنا کر ہمارے مستقبل کے سینے میں خنجر گھونپا ہے، ہم اپنے معصوم بچوں کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دینگے۔جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ اسلام آباد انتظامیہ کا ملازم مولانا عبدالعزیز بچوں پر حملے کا جواز پیش کرتا ہے لیکن جب حکومت اسے روک نہیں سکتی تو دہشت گردوں کے خلاف جنگ کیسے لڑے گی۔اسلام آباد کی سول سوسائٹی نے مولانا عبدالعزیز کے ماضی اور ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کے قتل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ مولانا عبدالعزیز کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے والے جج کو سیکیورٹی مہیا کی جائے۔
مولانا عبدالعزیز کے اس واضع انکار پر کہ وہ یکطرفہ طور پر دہشتگردوں کی مذمت نہیں کریں گے، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے حکومت اورمسلح افواج سے مطالبہ کیا ہے کہ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کو گرفتارکیاجائے،جامعہ حفصہ کو فی الفور بند کیا جائے اورلال مسجد کو مسجد ضرار کا نمونہ قرار دیا اور اُسے ڈھانے کا مطالبہ کیا۔ الطاف حسین کے لال مسجدکوڈھانے کے مطالبے کی حمایت تو نہیں کی جاسکتی لیکن مذہبی رہنماوں سے ایک سوال ضرور ہے کہ جو لوگ اُن دہشتگردوں سے جوانسانی جانوں کے علاوہ 30 سے زیادہ مساجد کونقصان پہنچاچکے ہیں اْن سے ہمدردی رکھنے والوں کو کیا کہیں گے؟ مولانا فضل الرحمان نے الطاف حسین کو پیغام بھیجا ہے کہ الطاف حسین، مولانا عبدالعزیز کے خلاف بیانات دیکر ایک اور محاذ کھڑا نہ کریں جبکہ اس محاذکو کھڑا کرنے کی پوری ذمہ داری مولانا عبدالعزیز پر آتی ہے۔ مولانا عبدالعزیز کیوں نہیں کہتے کہ پشاور میں طالبان دہشت گردوں نے جو کچھ کیا ہے وہ درندوں کا فعل تو ہوسکتا ہے انسانوں کا نہیں اور درندوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، لہذااُس میں اگر مگر کی کوئی گنجایش نہیں جیسا کہ مولانا عبدالعزیز کر رہے ہیں۔ مولانا عبد العزیز جو پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتا، یہ طالبان دہشت گردوں کا ایک ایسا نمائندہ ہے جو ملک کے دارلخلافہ میں بیٹھ کرنہ صرف طالبان بلکہ داعش کے ایجنٹ کے فرایض انجام دئے رہا ہے۔ اگر نواز شریف واقعی معصوم بچوں کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہتے اوردہشت گردوں سے نجات چاہتے ہیں تو اْنہیں سب سے پہلے لال مسجد سے دہشتگردوں کا خاتمہ کرنا ہوگا اور مولانا عبدالعزیزکو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دلوانا ہوگی۔
تحریر: سید انور محمود
ادارہ کا مضمون نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ اس موضوع پر مولانا عبدل العزیز یا لال مسجد کے ترجمان کچھ کہنا چاہیں تو یہ صفحات حاضر ہیں۔

Leave a comment