Published On: Fri, Apr 22nd, 2011

لشکراسلام کا وجود خطرے میں ہے؟

تنظیم کے سربراہ منگل باغ آج کل نامعلوم مقام پر روپوش ہیں

تنظیم کے وجود کو خطرات

رفعت اللہ اورکزئی
پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں حکومت کی حامی سمجھی جانے والی کالعدم مذہبی تنظیم لشکر اسلام میں دھڑے بندی اور زخہ خیل قبیلے کی طرف سے اس کی حمایت ترک کر دینے سے بظاہر اس تنظیم کے وجود کو خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔خیبر ایجنسی میں مقامی سطح پر قدرے مضبوط اس شدت پسند تنظیم کے سربراہ منگل باغ آج کل نامعلوم مقام پر روپوش بتائے جاتے ہیں۔تنظیم کے مخالف دھڑوں کا دعویٰ ہے کہ منگل باغ افغانستان فرار ہوگئے ہیں تاہم سرکاری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔تنظیم کو دھڑے بندی اور قبائلی لشکر کشی کا سامنا حال ہی میں اس وقت کرنا پڑا جب لشکر اسلام نے زخہ خیل قبیلے کے ایک سرکردہ عالم دین مولانا ہاشم کو اغواء کرنے کے بعد بے دردی اور بے عزتی سے قتل کر دیا۔
مولانا ہاشم دور افتادہ پہاڑی علاقے وادی تیراہ میں ایک بااثر عالم دین کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ اس سے پہلے مولانا ہاشم وقتاً فوقتاً منگل باغ اور ان کے حامیوں کے غیر اسلامی کاموں کی مخالفت بھی کرتے رہے جس سے تنظیم کو مقامی سطح پر حمایت کھو دینے کا خدشہ تھا۔مولانا ہاشم کی ہلاکت کے بعد زخہ خیل قبیلے سے تعلق رکھنے والے لشکرِ اسلام کے کئی کمانڈروں نے تنظیم کا ساتھ چھوڑ کر ایک الگ دھڑا بنا لیا۔اس کے ساتھ لشکرِ اسلام کے حامی سمجھے جانے والے زخہ خیل قبیلے نے بھی منگل باغ کی نہ صرف حمایت ترک کر دی بلکہ اس کے خلاف قبائلی لشکر بھی بنا لیا اور تنظیم کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی بھی کی۔ قبائلی لشکر نے لشکرِ اسلام کے جنگجوؤں کو اپنے علاقے سے بے دخل بھی کر دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ زخہ خیل قبائلی لشکر کو حکومت کی بھر پور مدد و حمایت حاصل ہے۔
لشکرِ اسلام کا مرکزی ہیڈ کوارٹر گرانہ زخہ خیل قبیلے کے حدود میں واقع ہے۔ وہاں سے بھی منگل باغ اور ان کے حامیوں کو نکال دیا گیا ہے اور اب اس علاقے اور مرکز پر زخہ خیل قبیلے کا کنٹرول بتایا جاتا ہے۔لشکر اسلام کی انتہائی حریف سمجھی جانے والی حکومت کی ایک اور حامی تنظیم انصار الاسلام نے بھی منگل باغ سے بدلہ لینے کے لیے اس جنگ میں در پردہ زخہ خیل قبیلے اور حکومت کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔
پشاور میں انصار الاسلام کی طرف سے ایک پریس کانفرنس بھی منعقد کی گئی جس میں منگل باغ پر الزام لگایا گیا کہ وہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں اور وہاں سے ملک کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔لیکن یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت نے انصار الاسلام کو بھی کالعدم تنظیم قرار دیا تھا تاہم اس کے باوجود تنظیم کے عہدیدار پشاور میں بغیر کسی رکاوٹ کے اخباری کانفرنس کرنے میں کامیاب رہے۔مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ خیبر ایجنسی کے زیادہ تر علاقوں سے منگل باغ کے حامیوں کو نکال دیا گیا ہے جبکہ ان کی نجی جیلوں پر بھی قبضہ کر لیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان جیلوں میں تاوان کے لیے اغوا کییگئے کئی مغویوں کو آزاد کرا لیا گیا ہے۔
لشکر اسلام خیبر ایجنسی کی سطح پر قدرے بڑی تنظیم بتائی جاتی ہے۔ پہلے یہ تنظیم حکومت کی حامی سمجھی جاتی تھی۔ اس تنظیم نے شروع میں کبھی براہ راست حکومت یا سکیورٹی فورسز کے کاموں میں مداخلت نہیں کی بلکہ منگل باغ تو اکثر اوقات میڈیا سے گفتگو میں یہ بات بار بار دہرایا کرتے تھے کہ ’ ہم اپنی حکومت اور فوج کے خلاف مزاحمت نہیں کر سکتے۔تاہم مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے منگل باغ کے بعض اقدامات نے انھیں حکومت کی حمایت سے بظاہر محروم کر دیا ہے۔ ان کے مطابق اس سے پہلے لشکرِ اسلام خیبر ایجنسی میں دیگر غیر مقامی شدت پسند تنظیموں کو سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتی تھی لیکن اب کہا جا رہا ہے لشکرِ اسلام نے حال ہی میں حکومت کی شدید مخالف سمجھے جانے والی کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے اتحاد کر لیا ہے۔
اس سے پہلے لشکرِ اسلام اور تحریک طالبان کے مابین کئی مرتبہ جھڑپیں بھی ہوئیں جس کی وجہ سے دونوں جانب سے ہلاکتیں بھی ہوچکی ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ منگل باغ شاید اس وجہ سے حکومت کی کتابوں میں ان کا پسندیدہ کمانڈر تھا کیونکہ وہ کسی اور بڑی عسکری تنظیم کو خیبر ایجنسی میں جمنے کا موقع نہیں دیتا تھا۔ تاہم اب تحریک طالبان سے اتحاد کی وجہ بھی شاہد یہی ہے کہ لشکرِ اسلام دھڑا بندی کی وجہ سے کمزور ہوگئی ہے۔ یہ دونوں تنظیمیں بنیادی طورپر دیوبندی مسلک سے بتائی جاتی ہے۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ لشکرِ اسلام نے افغانستان میں لڑنے والے جہادیوں کے ساتھ روابط استوار کر لیے ہیں اور وہاں ان کے کمانڈر لڑتے بھی رہے ہیں۔خیبر ایجنسی کے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ منگل باغ اور اس کی تنظیم اس وقت شدید خطرات میں گھیری ہوئی ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ دوباہ پہلے والی طاقت حاصل نہیں کر سکے۔ لیکن اکثر افراد اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ یہ خلاء کوئی اور شدت پسند تنظیم بھی پر کر سکتی ہے۔

Leave a comment