Published On: Mon, Nov 14th, 2011

اپنا اخبار نکالا توشہبازشریف نےسوشل بائیکاٹ کردیا

مجید نظامی نے حاسدین کو اپنے گرد اکٹھا کررکھا ہے

عارف نظامی کا انٹرویو

 

رحمت علی
جناب عارف نظامی نے بہار کی بہت رُتیں دیکھیں مگر جب کبھی خزاں نے اپنے ڈیرے ڈالے تو گھبرائے نہیں بلکہ گلستان کی رعنائی کے لئے قدم آگے بڑھایا اور ’’ پاکستان ٹوڈے‘‘ کے نام سے ایک نیا پودا لگایا۔ اس سے قبل وہ ’’ نوائے وقت ‘‘ ، ’’ دی نیشن‘‘، اور ’’ وقت ٹی وی‘‘ کو کامیابیوں سے ہمکنار کرکے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا منواچکے ہیں ۔ اگرچہ انہیں تحریک پاکستان کے سرگرم رکن اور بانی’’ نوائے وقت‘‘ جناب حمید نظامی مرحوم کا صاحبزادہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے مگر انہوں نے صحافت کی دنیا میں انفرادی حیثیت سے و مقام حاصل کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ کے بانی جناب حمید نظامی مرحوم کے صاحبزادے جناب عارف نظامی اپنے والد مرحوم کے مانند اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارہ ہیں ۔ جنہوں نے ’’ نوائے وقت‘‘ کے ذریعے صحافت اور “دی نیشن” کے ذریعے انگریزی صحافت پر عبور حاصل کیا اور اپنی اس مہارت کو وہ اب اپنے اخبار “پاکستان ٹوڈے” کو بلندیوں کی طرف لیجانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اردو اخبار کی اشاعت بھی ان کے آئندہ منصوبوں میں شامل ہے۔ ان کے بقول صحافت کی دنیا میں وہ چاندی کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ایک کارکن صحافی کی حیثیت سے بھی محنت کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے رپورٹنگ بھی کی، پریس میں مشین مین کی حیثیت سے کام بھی کیا اور ہر قسم کی صحافتی ذمہ داریوں اور امور سے شناسائی حاصل کی۔ اس طرح انہوں نے اپنے لئے ’’ مالک صحافی‘‘ کے بجائے ’’ کارکن صحافی‘‘ کے کردار کو پسند کیا۔ اس سے پہلے وہ ادارہ نوائے وقت میں دی نیشن کے ایڈیٹر تھے۔’’ نوائے وقت‘‘ کیلئے ان کی خدمات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی کمال فراست اور سوجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے’’ وقت‘‘ چینل کا آغاز کیا۔ جس طرح ان کے ولد جناب حمید نظامی مرحوم قائد اعظم وعلامہ اقبال کے افکار ونظریات کو’’ نوائے وقت‘‘ کے ذریعے پھیلا رہے تھے ، جناب عارف نظامی کا مشن بھی ان کے بقول یہی ہے جس سے پہلو تہی کا ان کے نزدیک کوئی تصور نہیں۔ انہوں نے اپنے والد مرحوم کی صحافتی اقدار اپنانے کی کوشش کی ہے اور انکے نقش قدم پر چلنے کی جدو جہد کررہے ہیں ۔ جناب عارف نظامی”پاکستان ٹوڈے” کے اجراء سے پہلے بھی ایک ایسے صحافی تھے جن کی ملکی سیاست ‘ میڈیا اور دیگر منسلک شعبوں پر گہری نظر ہے۔ وہ پاکستانی سیاست‘ صحافت اور معاشرے کے بہتر سے راز اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہیں۔ زیر نظر انٹرویو میں انہوں نے بے لاگ انداز میں مختلف امور کا تجزیہ کیا ہے جو یقیناًقارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوگا۔

سوال: آپ کے والد جناب حمید نظامی نے اپنی گرانقدر خدمات کے ذریعے صحافت کی تاریخ رقم کی، گھر کا ماحول اور والد کی بطور صحافی مشقت ومحنت کے ہوتے ہوئے یوں گمان ہوتا ہے کہ آپ صحافت کے لحاظ سے منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے یہ بتائیے کہ کیا ایک عام آدمی کارکن کی حیثیت سے محنت ومشقت کے ذریعے صحافت آپ کے ہاتھ آئی یا صحافت کا یہ پھل پکا پکایا آپ کی جھولی میں آن گرا؟
جواب : میں چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوا کیونکہ میری عمر ابھی تیرہ برس ہی تھی کہ والد صاحب انتقال کر گئے۔ بعد ازاں میں نے ایک عام شخص کے مانند اپنی تعلیم مکمل کی۔ حالانکہ والد صاحب کی وفات کے بعد مجید نظامی صاحب نے نوائے وقت اپنے ہاتھ میں لے لیاتھا۔ لیکن نوائے وقت کے اقتصادی حالات زیادہ اچھے نہیں تھے۔ بہر حال ایم اے جرنلزم کے بعد میں نے جونیئر رپورٹر کی حیثیت سے نوائے وقت میں کام شروع کیا۔ اس وقت میرے فرائض میں کارپوریشن اور اسمبلی کی Beatsتھیں۔ رفتہ رفتہ پہلے میں نوائے وقت کا ڈپٹی ایگزیکٹو اور پھر ایگزیکٹوایڈیٹر بن گیا۔ جب میں اپنی تعلیم مکمل کررہا تھا تو اس وقت میں پریس میں بھی وقت دیتاتھا، میں نے اپنے ہاتھ سے پلیٹیں بھی لگائیں اور پیپر مین کی حیثیت سے مشین پر بھی کام کیا۔ اس لحاظ سے میں ان نام نہاد اخباری مالکان میں سے نہیں ہوں جو منہ میں سونے کا نوالہ لے کر پیدا ہوئے اور آتے ہی ایڈیٹر بن گئے۔
سوال : آپ کے والد صاحب نے جس مشن کی ابتدا کی، آپ نے اسے سامنے رکھتے ہوئے کیا ترجیحات مقرر کیں؟
جواب : قائداعظم اورعلامہ اقبال کے افکار کے مطابق پاکستان میں جمہوری نظام کا قیام ہی ان کا واحد مشن تھا لیکن وہ ملائیت کے بہت خلاف تھے۔ جماعت اسلامی کے خلاف جس قدر مواد دستیاب ہے وہ ان کے اداریوں پر ہی مبنی ہے۔ دائیں اور بائیں بازو اور قدامت پرست و روپوش خیال کی بحث میں پڑے بغیر حمید نظامی(مرحوم) علامہ اقبال کے افکار اور قائداعظم کے نظریات کے مطابق پاکستان کے داعی تھے ۔ میرا بھی ہی مشن ہے۔
سوال: جناب حمید نظامی اور جناب مجید نظامی کے مانند کیا آپ بھی اس بات کے قائل رہے کہ اخبار کو کسی نہ کسی نظریے کا داعی ہونا چاہئے؟
جواب: میں تو ہمیشہ سے ہی اس بات کا قائل رہا ہوں کہ اخبار کا کوئی نہ کوئی نظریہ ہونا چاہئے ورنہ کوئی دوسرا کاروبار دیکھ لینا چاہئے۔ لیکن ایسے بھی اخبار موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی نظریہ نہ ہونا ہی ہمارا نظریہ ہے۔
سوال : کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا نظریہ نہ ہونا ہی نظریہ ہے ، ان کا اندر سے کوئی نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے اور وہ کسی نہ کسی پالیسی پر کاربند ہوتے ہیں؟
جواب: ضروری نہیں کہ کوئی نظریہ نہ ہو لیکن جو اخبار خود کو معیاری اخباری کہتا ہے اس کا نظریہ تو ضرور ہونا چاہئے، لیکن جب کمرشل ازم ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جائے تو پھر نظریے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
سوال : آپ نے اپنے والد صاحب کے ساتھ تیرہ چودہ سال کا نہایت قلیل سفر طے کیا۔
آپ نے اس دوران کیا سیکھا، کیا پایا اور کیا مشاہدہ کیا؟
جواب: میں نے یہ دیکھا کہ مرے والد محترم (مرحوم) نہایت محنتی تھے۔ صبح چھ بجے اٹھ کر اخبار پڑھتے، اداریہ لکھتے اور گیارہ بجے تک اپنا کام کر کے دفتر چلے جاتے ۔ شام کو اپنے دوستوں کی سماجی محفلوں میں شرکت کرتے اور کھانا کھانے کے بعد اپنے نام آئے ہوئے خطوط کا خود جواب دیتے ۔ ہر کام محنت سے کرتے، ان کا مطالعہ بہت تھا۔ میرے والد صاحب مرحوم اصولوں کے بہت ہی پابند تھے۔ دوٹوک بات کرتے اور کسی کو ابہام میں نہ رکھتے۔ بہر حال میں ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں لیکن ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرتا۔
سوال : کیا ’’ پاکستان ٹوڈے‘‘ کی نظریاتی پالیسی بھی وہی ہے جو’’نوائے وقت‘‘ کی ہے؟
جواب : اس مرحلے پر سوال یہ پیدا ہواتا ہے کہ جو پالیسی آج’’ نوائے وقت‘‘ کی ہے ، آیا کہ یہ وہی پالیسی ہے جو حمید نظامی مرحوم کی تھی ؟ میرے خیال کے مطابق’’ نوائے وقت‘‘ اس پالیسی سے کبھی کبھی روگردانی بھی کرجاتا ہے لیکن جتنی دیر میں ’’ نوائے وقت ‘‘ میں رہا، میں نے مکمل طور پر وفاداری اور ایمانداری کے ساتھ کام کای اور کوشش یہ کی کہ “The Nation” میں بھی وہی پالیسی اپنائی جائے جو حمید نظامی مرحوم نے تشکیل دی تھی لیکن یہاں کام کرنا بہت مشکل ہوگیا کیونکہ یہ پالیسی نہایت الجھی ہوئی تھی ۔ مثلا یہ مسئلہ کہ کیا پاکستان میں طالبان قسم کی حکومت کی حمایت کی جائے ؟ اس پالیسی کی ’’ پاکستان ٹوڈے‘‘ حمایت نہیں کرتا لیکن نوائے وقت میں جمہوریت کا درس دینے کے ساتھ ساتھ اس قسم کی پالیسی کی حمایت بھی کی جاتی ہے اور بعض نام نہاد جہادی تنظیموں کو بھی حق پر سمجھا جاتاہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میرا و اضح مو قف ہے کہ ملک میں جمہوری نظام ہونا چاہئے اور فوج کو اقتدار میں نہیں آنا چاہئے ۔ غالبا’’ نوائے وقت ‘‘ کی بھی ابھی تک یہی پالیسی ہے۔
سوال : اخباری کارکنان کی نظر میں آپ بطور مالک صحافی اور ’’ نوائے وقت‘‘ کے مالک جناب مجید نظامی کی نظر میں آپ کی حیثیت بطور ملازم تھی ۔ اختلافات کیسے پیدا ہوائے؟
جواب: یہ معاملہ چونکہ عدالت میں ہے ، اس لیے اس پر بحث لاحاصل ہے ، مختصر طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ میری طرف سے تو کوئی اختلاف نہیں تھا کیونکہ میں نے ہر سطح پر اختلاف نہ کرنے کی کوشش کی لیکن مجید نظامی صاحب کا رویہ بدلتا چلا گیا۔ دراصل وہ ایسے لوگوں میں گھرے ہوئے تھے کہ جن کی وجہ سے وہ خود کو مجھ سے غیر محفوظ تصور کرتے تھے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی لے پالک بیٹی کو قبول نہیں کیا گیا لیکن ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا، وہ مجھے ہر حالت میں فارغ کرنے پر تلے ہوئے تھے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت میرے گرد حصا ر تنگ کررہے تھے۔ ہمارے درمیان شہباز شریف بہت بڑے پیغام رساں بنے ہوئے تھے ، انہوں نے مجھے کہا کہ آپ فارغ ہوجائیں ، آپ ملازم ہیں ، دو کروڑ روپے لیں اور چلے جائیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ میرا قصور کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ٹی وی شروع کررہے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں کونساٹی وی شروع کر رہا ہوں۔ میں اس ادارے کا ایک وفادار کارکن ہوں اور مجید نظامی صاحب کو اپنے والد صاحب کا درجہ دیتاہوں ، میں وفاداری سے منہ کیوں موڑوں؟ لیکن میاں شہباز شریف بضد رہے‘ اس طرح یہ معاملہ شیر اور بکری کے معاملے کی مانند صورت حال اختیار کرگیا ۔ مجید نظامی صاحب کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اردگرد ایسے لوگ اکٹھے کیے ہوئے ہیں جو میرے بارے میں بدگمانیاں پیدا کرتے تھے اور وہ بہت خوشی سے سنتے ، حتیٰ کہ یقین بھی کرلیتے ہیں۔ ان لوگوں میں اسلام آباد میں متعین ایک منیجر اور کچھ حاسدین شامل ہیں۔ مصیبت یہ تھی کہ برگد کے درخت کے نیچے ایک اور پودا اگ آیا۔ یہ تو درست ہے کہ میرا تشخص حمید نظامی کا بیٹا ہونا بھی ہے ، پھر نوائے وقت اور نیشن کے لحاظ سے بھی میرا ایک تشخص ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ میرا اپنا پروفیشنل کردار بھی کوئی گیا گزرا نہیں ۔ اسے تو کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ بطور صحافی بھی میرا ایک تشخص ہے حالانکہ میں ایسا صحافی ہوں جسے اردو اور انگریزی زبان پر مکمل دسترس حاصل ہے۔ میں نے انہیں ’’ وقت ٹی وی‘‘ قائم کر کے دیا کیونکہ ٹی وی کی مجھے کچھ شد بد ہے ۔ میں اپنے قلم سے اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی مہارت کے ساتھ لکھ سکتاہوں اور لکھ رہا ہوں۔ ان کا یہی اصرار ہے کہ یہ تو’’نیشن‘‘ بھی نہیں چلا سکتا۔ اب جس طرح ’’ نیشن ‘‘ جاری ہے وہ سب کو علم ہے اور جو اس ادارے کی صورت حال ہے ، وہ سب کے سامنے ہے ۔ میں نے حالات سے دل برداشتہ ہو کر ایک طویل خط کے ذریعے مجید نظامی صاحب کو اپنے تفصیلی موقف سے آگاہ بھی کیا۔
سوال : اس سارے معاملے میں کیا میاں شہباز شریف نے مصالحت کی کوشش نہیں کی؟
جواب : شہباز شریف صاحب نے مصالحت کے لیے کوشش کی لیکن مجموعی طور پر ان کا رویہ مجید نظامی صاحب کی حمایت میں تھا۔ ان کا موقف تھا کہ نظامی صاحب جو کہتے ہیں، من وعن مان لیا جائے لیکن انہوں نے مخصوص حدود میں رہتے ہوئے صدق دل سے کوشش کی۔ ادارے سے فارغ ہونے کے بعد ایک دن انہوں نے مجھے ملاقات کے لیے بلایا اور مجھ سے تین گلے کیے۔ پہلا گلا یہ تھا کہ آپ نے ہمارے دشمنوں کے اخبار( میر شکیل الرحمن اور ان کا اخبار جنگ) میں لکھنا شروع کر دیا۔ میں نے عرض کیا کہ حضور والا میر خلیل الرحمن مرحوم ، حمید نظامی مرحوم کے قریب ترین دوست تھے۔ میر شکیل الرحمن کی والدہ نہ صرف میری والدہ کی دوست تھیں بلکہ دونوں کا تعلق وزیرآباد سے تھا ۔ پھر میں نے کہا کہ شکیل الرحمن وہ شخص ہیں کہ جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ مجھ پر کیا افتاد گزری ہے تو انہوں نے نہایت صدق دلی سے مجھ سے کہا کہ میرا ادارہ آپ کا ادارہ ہے ۔ مجھے بھی قدرے Strategic Depth کی ضرورت تھی کہ اس وقت مجھ پر ’’ نوائے وقت‘‘ میں تابڑ توڑ حملے ہورہے تھے۔ کالم پر کالم سیاہ کیے جارہے تھے ، خالد احمد جیسے کالم نگار جنہیں میں جانتا بھی نہیں ، میرے خلاف لکھ رہے تھے۔ میں نے کہا کہ میرے پاس بھی تو کوئی ہتھیار ہونا چاہئے اور میں یہ بھی ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ میری اپنی بھی کوئی حیثیت ہے۔میں ’’ نوائے وقت کے بغیر بھی کہیں لکھ سکتا ہوں ۔
دوسرا گلہ انہوں نے کیا کہ آپ نے ان(مجید نظامی) پر مقدمہ کیوں کر دیا ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ میں ’’ نوائے وقت ‘‘ سے جانے کے بعد دو تین ماہ تک انتظار کیا کہ آپ مصالحت کرادیں گے لیکن آپ نے مصالحت نہیں کرروائی ۔ پھر وہ کہنے لگے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اخبار نکالنے کے لیے زرداری صاحب سے پیسے لیے ہیں۔ ۔۔۔۔! میں نے کہا کہ جناب ادارہ نوائے وقت سے انخلا کے بعد میں تو زرداری صاحب سے خاص طور پر کبھی ملا بھی نہیں تاکہ آپ جیسے کانوں کے کچے لوگوں کے ہاتھ میں کوئی جوا زنہ آجائے لیکن محترم بزرگ بذات کود زرداری صاحب کے پاس گئے اور کہا ، زرداری صاحب ، کیا ایوان صدر میں چائے نہیں ملتی؟ زرداری صاحب نے جنہیں وہ (مجید نظامی) مرد حر کہتے ہیں ، ان کی یہ عزت افزائی کہ کہ انہیں چائے کی دعوت بھی نہیں دی۔ بہر حال یوم حمید نظامی پر میں نے میاں شہباز شریف کو آنے کی دعوت دی تو انہوں نے کہا میں ضرور آؤں گا لیکن عین اس دن مجھے پیغام بھیج دیا کہ میں نہیں آسکتا۔ وہ اس لیے میرے پاس آنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کی سرخیاں ’’ نوائے وقت‘‘ میں لگنا بند نہ ہوجائیں۔ میرا موقف ہے کہ میں شہباز شریف صاحب کا دوست ہوں اور ان کی سرخیاں’’ پاکستان ٹوڈے‘‘ میں بھی لگانے کیلئے تیار ہوں اور لگاتا بھی رہوں ۔ میں ایک ایک آزاد صحافی ہوں اور زرداری صاحب کے علاوہ گیلانی صاحب پر بھی تنقید کرتا ہوں۔ بہر حال میں نے ان کی تینوں باتوں کا مناسب جواب دے دیا۔ مجھے اس امر پر افسوس ہے کہ انہوں نے مجھ سے اس طرح جواب طلبی کی کہ جیسے میں نے کوئی جرم کیا ہے حالانکہ میں کسی کے سامنے جوابدہ نہیں اور ان کے کہنے پر اپنے ذاتی مفادات قربان نہں کرسکتا اور نہ ہی اپنے موقف سے ہٹ سکتاہوں۔ اگر چہ انہوں نے مجھے کسی بات پر مجبور نہیں کیا ۔ لیکن جب سے میں ’’ نوائے وقت‘‘ سے نکلا ہوں ، اس دن سے انہوں نے میرا سوشل بائیکاٹ کیا ہوا ہے ۔ ایک دوبار رسمی طور پر گھر آئے ۔ وہ مجھ سے ملتے ہوئے شرماتے ہیں کہ کہیں بزرگوار(مجید نظامی صاحب) ناراض نہ ہوجائیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے اچھا محسوس نہیں ہورہا کہ ہمارے سیاستدان خاص طور پر شریف برادران ، مشکل وقت میں اپنے ساتھیوں کو بھول جاتے ہیں ۔ جب کراچی کی ATC میں انہیں ہتھکڑیاں لگیں تو خاکساری ہی تھا جو کئی مرتبہ انہیں ملنے کے لیے گیا۔ میں انہیں اس وقت ملنے گیا جب ماڈل ٹاؤن میں ان کے گھر کے قریب کوئی پھٹکتا بھی نہ تھا۔ شریف برادران کی جلاوطنی کے ایام میں حمزہ شہباز شریف ہر ہفتے میرے گھر آتے تھے کہ فلاں کام کروادیں ‘ تایا جان یہ کہہ رہے ہیں ، ابا جان یہ کہہ رہے ہیں ۔ جس دن سے شریف برادران واپس آئے اس دن سے حمزہ شہباز شریف کبھی میرے گھر نہ آئے۔ مجھے تو ان کی یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ لوگ کیسے برا وقت بھول جاتے ہیں۔
سوال : مصالحت کی اس کوشش میں کیا نواز شریف کا بھی کوئی کردار تھا؟
جواب: میاں نواز شریف اس لحاظ سے میاں شہباز شریف سے مختلف شخص ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے نہ صرف میرے ساتھ اظہار ہمدردی کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ جب بھی وہ مجھ سے ملتے ہیں ، بہت ہی خلوص کے ساتھ ملتے ہیں، میں نے انہیں بھی یوم حمید نظامی پر آنے کی دعوت دی لیکن میں ان کواس لحاظ سے داد دیتاہوں کہ انہوں نے نہایت صاف گوئی سے کالم لیا اور کہا کہ بزرگوار (مجید نظامی صاحب ) سے ہمارے ذاتی تعلقات ہیں، میں نہیں چاہتا کہ میں کسی الجھن جیسی صورت حال میں گرفتار ہوجاؤں۔ اس کے باوجود میرے لیے ان کا رویہ بہت ہی ہمدردانہ اور مشفانہ تھا۔
سوال: کیا ان دونوں بھائیوں کے رویوں میں فرق کے ساتھ ساتھ ان کے طرز سیاست میں بھی فرق ہے؟
جواب: میاں صاحب ہوشیار شخص ہیں، من موجی ہیں ، لیکن شہباز شریف صاحب ایک ٹیکنیشن ہیں۔ یعنی شہباز شریفNuts and Bolts کے آدمی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹ صرف میاں نواز شریف کی وجہ سے ہی ملتے ہیں جو سب کے علم میں ہے جس کا اعتراف شہباز شریف بھی کرینگے۔ شہباز شریف ایک ایڈ منسٹریٹر ہیں اور کام کرنا، کام لینا جانتے ہیں ۔ میاں نواز شریف، شہباز شریف کی نسبت دور کی نظر رکھتے ہیں مگر موجودہ دور میں ان کی کارکردگی پر ان کے دوست اور ہمدرد بھی قدرے مایوس ہیں۔

Displaying 3 Comments
Have Your Say
  1. arif nazami sahib zindha bad sir you are great working journalist

  2. فاروق عبداللہ says:

    جناب عارف نظامی صاحب مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ جس طرح علامہ اقبال کا اپنا بیٹا اپنے باپ کے نظریات کا حامی نہیں بالکل اسی طرح آپ بھی اسلامی نظام کے حامیوں کو ملایٔت قرار دے کر نواۓ وقت سے نکل آۓ مجھے اس سے قبل آپ سے ہمدردی تھی لیکن آج کے بعد میں آپ کو ایک سیکولر اپروچ کا حامی قرار دے کر کبھی نہیں پڑھوں گا۔۔۔اب سمجھ آیا کہ مجید نظامی بالکل ٹھیک ہیں اور آپ بالکل غلط ہو۔۔۔

  3. imran says:

    عارف نظامی صاحب آپ شریفوں کو اپنا دوست سمجھتے ہیں جبکہ ان کی نظر میں آپ اور آپ جیسے دوسرے لوگ ایک سیاسی مزدور سے زیادہ کچھ نہیں یہ کھلا راز آپ اپنے ساتھیوں کو بھی بتا دیں حق کی خدمت کرتے تو آج سب کچھ ہاتھ سے جانے کے بعد بھی احساس پچھتاوا آپ کو نہ ہوتا،ان جھوٹے خداٴو ں کے چکموں سے باہر نکلیں خدا را إ

Leave a comment