Published On: Wed, Jun 22nd, 2011

پاکستان جل رہا ہے اور حکمران بانسری بجا رہے ہیں

Share This
Tags

ہم من حیث القوم روز حادثوں کو سانحوں میں بدلتا دیکھ رہے ہیں اور حکومت سے توقعات وابستہ کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں اگر معاشرے کے عناصر فعال ہو کر آگے بڑھیں اور اپنی ذمہ داری ادا کریں اور اس ظلم کے خلاف ایک منظم تحریک بپا کریں

 


مشہور مقولہ ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا نے میں مصروف تھا اور واقعی ہر دور کے نیرو کے پاس اپنی اپنی بانسری ہوتی ہے اور بانسری کا یہ شغل انہیں جلتے درو دیوار کب دیکھنے دیتا ہے. یہ نیرو اپنی دلچسپیوں کی بانسری کے سروں میں ایسے منہمک ہیں کہ بڑے سے بڑا انہیں خواب غفلت سے چونکانے میں ناکام رہتا ہے. ہماری خود پسند اور زردار قیادتیں عوامی احساسات اور امنگوں سے کوسوں فاصلے پر ہیں، نہ یہ اجتماعی غموں کو محسوس کرتی ہیں نہ ان غموں کے مداوے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں?. ابھی ایبٹ آباد کے زخم رس رہے تھے ہر کوئی دوسرے سے سوال کر رہا تھا جواب کسی کے پاس نہیں تھے. کتنے حقائق تھے کتنی کہانیاں تھیں قوم بے بسی سے حکمرانوں کی سمت دیکھ رہی تھی کہ وہ انہیں حقائق بتائیں گے اور پھر انہی اندھیروں میں ٹامک توئیاں مارتی قوم کو مہران بیس کا ضرب کاری سہنا پڑا. پھر اندیشے اور وسوسے اور 02 مئی کوغیرت اور حمیت کے لٹ جانے کا نوحہ کرتا یہ قومی وجود عجیب ضعف کا شکار ہو گیا. یوں لگا پیروں کی قوت صلب کر کے کسی نے ہاتھوں میں بیساکھی تھما دی ہو. ہولے ہولے کانپتے اس وجود کو خروٹ آباد کے سانحے نے گویا مفلوج کر کے رکھ دیا. وہ غریب الدیار خاندان تین عورتیں اور دو مرد اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلاتے رہے ہاتھ جوڑتے رہے زندگی کی بھیک مانگتے رہے رشوت خور سرحدی محافظوں نے اپنی شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے جس بے دردی سے انہیں بھونا اس نے ساری دنیا میں پاکستان کی جس طر ح بدنامی کی اور غیر ملکی چینلز نے اس واقعہ کو خوب خوب اچھالا،قیقتا ایک نا قابل یقین اور لرزہ دینے والا واقعہ.
ابھی اس واقعہ پر بھی کمیشن بن ہی رہے تھے اور تحقیقات کے دائرے وسیع ہو ہی رہے تھے اور ان سرحدی محافظوں کے بارے میں جو انکشافات ہو رہے تھے وہ اجتماعی زندگی کے دلدل کا عجب منظر تھا کہ اچانک کیمرے نے ایک منظر عکس بند کر لیا. ساری دنیا نے بار بار وہ منظر دیکھا اور کونسی آنکھ تھی جسمیں آنسو امڈ نہ آئے ہوں. ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور دل و دماغ میں’’نہیں نہیں’’ کا شور بپا تھا گاؤں کا وڈیرہ تو ہاری کے ساتھ یہ ظلم کر سکتا تھا. کوئی مخباط الحواس آدمی درندگی کی اس انتہا تک پہنچ سکتا ہے. اس شہر کے باسی تو جانتے تھے کہ انسانی جان کتنی ارزاں ہے کیسے خوف اور وحشت کے دیرے ڈالے ہوئے ہیں خزاؤں کا راج ہے اس شہر پر. لیکن وہ جنہیں قوم ‘‘محافظ’’ کہتی اور سمجھتی ہے جنکی عظمتوں کے نغمے گائے جاتے ہیں وہ جو وطن پر جان نچھاور کرتے تھے تو پوری قوم ان پہ جان نچھاور کرتی تھی جو یہ جانتے تھے کہ مقانلہ ہمیشہ مسلح دشمن سے کیا جاتا ہے وہ بھی اس وقت جب دشمن للکارے!!! اور جو اس عظیم دین کے پیروکار ہیں جو یہ تعلیم دیتا ہے کہ دوران جنگ یا دشمن کی سر زمین پر قبضہ کی صورت میں ہرے بھرے درختوں کو بھی نہ کاٹو، اور جو ہتھیار پھینک دے اسے پناہ دو، جو زخمی ہو جائے اس سے ہمدردی کرو عورتیں اور بچے دشمن کے بھی ہوں تو رحم کے مستحق ہیں. وہ فوج جسکی پیشہ ورانہ مہارت ان اعلٰی ترین اخلاقی اوصاف پر ہوئی ہو. ایک نہیں دو نہیں چھ رینجرزکی یہ کاروائی ایک نہتے نو جوان کے ساتھ جو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہا تھا۔کیا انکی تربیت میں یہ بات شامل نہیں مجبوراً قانون کی خلاف ورزی پر گولی چلانا بھی پڑے تو کمر سے اوپر نہیں ماری جاتی؟
سرفراز شاہ گر مان بھی لیا کہ بڑا مجرم بھی تھا تو بڑے بڑے مجرم تو شہر کی سڑکوں چاراہوں پر دندناتے پھرتے ہیں۔ اس شہر میں جتنی چوری، ڈکیتی، اغوا اور قتل کی وارداتیں ہوتی ہیں اگر یہ محافظ واقعی محافظ ہوتے تو کیا آج شہر یونہی لاوارث ہوتا؟ مجرموں کے ہاتھوں مغوی ہوتا؟ سب جانتے ہیں کہ بڑی بڑی اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، ڈکیتی کی وارداتیں کس کی سر پرستی میں ہو تی ہیں؟؟؟ وہ نہتا دھان پان سا نوجوان جس نے زندگی کے دو عشرے کی بہاریں ہی دیکھی تھی بے رحمی سے کلاشنکوف کے سائے میں ہاتھ جوڑ کر زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے اور رینجرز کے کڑیل نوجوان فٹ بال کی طرح اسے ایک دوسرے کے قدموں میں دھکیل رہے ہیں۔ بیک وقت جن کلاشنکوف کے رخ اس نہتے نوجوان کی طرف تھے کاش ان توپوں کے رخ نخوت کے ان جذبات کے ساتھ کبھی اصل مجرموں کی سمت بھی ہوتے تو کبھی ریمنڈ ڈیوس یوں سر عام قتل کی وارداتیں کر کے عزت سے رخصت نہ ہوتا. بلیک واٹر کے مجرموں کو جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کے ساتھ یہی قوم کے محافظ ہر چوکی پر سیلوٹ پیش کرتے ہیں ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ کو ایک بار پھر پاکستان کی عسکری قوتوں پر انگلی اٹھانے کا موقع مل گیا۔
دنیا کا کونسا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مجرم سے اسکا جرم تک نہ پوچھا جائے، اسے کسی عدالت میں پیش نہ کیا جائے اسے صفائی کا موقع نہ دیا جائے ایسی سفاکی ایسی درندگی؟؟؟؟؟ کیا ان چھ رینجرز اہلکاروں میں سے کوئی بھی کسی بچے کا باپ نہیں تھا کہ لمحہ بھر کو شفقت پدری اس اقدام کی راہ میں حائل ہو جاتی۔جس نخوت کے ساتھ رینجرز اہلکاروں نے ہاتھ اٹھا کر فائرنگ کا حکم دیا اس فاتحانہ شان سے یوں لگا کہ دشمن کی کسی چوکی پر قبضہ کر لیا ہو۔ گولی اس کے سینے کو چھلنی کر گئی آن کی آن میں خون کی ندی بہہ گئی۔ آہ قوت اور طاقت کا یہ استعما ل نہ معلوم کب کب اور کہاں کہاں اس انداز میں ہوا ہوگا. وہ تو بھلا ہو اس کیمرے کی آنکھ کا جو معیز اور مغیث کو محفوظ کر لیتی ہے جو سرفراز شاہ کے خون کی سرخی کو محفوظ کر لیتی ہے. جو خروٹ آباد کی معصوم شہید ہونے والی خاتوں کا اٹھا ہوا ہاتھ محفوظ کرلیتی ہے اور سرحدی محافظوں کا جیب میں ہار ڈالتا ہوا ہاتھ محفوظ کر لیتی ہے ورنہ کون جانے کہ قوت اور طاقت کا استعمال کب /کہاں / کس انداز میں ہوتا رہا ہے؟؟؟؟؟
اپنے بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر وہ نوجوان دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر التجا کرتا ہے ‘‘مجھے اسپتال لے چلو’’ اسکے یہ آخری الفاظ بھی ڈیجیٹل کیمرے نے محفوظ کر لئے۔ ہسپتال جانے کی اس خواہش میں اسکے زندہ رہنے کی خواہش چھپی ہوئی تھی. اسکو بھی تو زندگی ایک بار ملی تھی۔.وہ بھی تو اپنی ماں کا سپنا تھا۔
کون ساجرم اس پر ثابت ہوا تھا؟؟؟اور کون ساجرم ہے جس کی سزا یہ کربناک موت ہے ؟؟؟
وہ ساری ہمتیں مجتمع کر کے خون کے اس دلدل میں ایک بار پھر اٹھ کر دیکھتا ہے لیکن اب اسکی آنکھوں میں دنیا کا یہ بے رحم چہرہ دیکھنے کی تاب نہیں رہی وہ دوبارہ سینے کے بل اسی سرخ گرم لہو میں (جو کچھ دیر پہلے اسکی جوان رگوں میں گردش کر رہا تھا اسے حرارت نخش رہا تھا ) گر جاتا ہے اور ہمیشہ کے لئے اس بے رحم دنیا سے ناطہ توڑ کر دور دور تک فضاؤں میں بہت سے سوال چھوڑ جاتا ہے !!!!
معاشرے میں ظلم کا دور دورہ ہے اور زبردست اسی طرح زیر دستوں کے مال و متاع ہی نہیں ان کی جانوں کو بھی کھلونا سمجھتے ہیں. جہاں روز اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہو رہی ہوں اور اب لاکھوں نہیں کڑوروں میں تاوان وصول کیا جا رہا ہے، جہاں نوجوان صحافی سر راہ اغوا کر کے قتل کئے جا رہے ہوں، جہاں لا پتہ افراد کی فہرست میں ہر آنے والے دن میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہو لیکن ‘‘بے قصوروں ’’ کو پکڑنے کے ماہر ان محافظوں کے ہاتھ کبھی عادی مجرموں تک نہیں پہنچتے.
ایبٹ آباد کا سانحہ ہو یا خروٹ آباد کا حال ہی میں جان کی بازی ہارنے والے سلیم شہزاد کا معاملہ ہو یا سرفراز شاہ کا، کمیشن بنتے رہیں گے، تجزیے ہوتے رہیں گے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس نوعیت کے معاملات میں معاشرے اپنے فرائض سرگرم طور پر ادا نہیں کرتے۔ابھی حال ہی میں تیونس میں جو شورش کی لہر اٹھی حکمرانوں کے خلاف اس کے پس پردہ ایک نوجوان کے ساتھ ہو نے والی زیادتی ہی تو تھی۔ ہم من حیث القوم روز حادثوں کو سانحوں میں بدلتا دیکھ رہے ہیں اور حکومت سے توقعات وابستہ کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں اگر معاشرے کے عناصر فعال ہو کر آگے بڑھیں اور اپنی ذمہ داری ادا کریں اور اس ظلم کے خلاف ایک منظم تحریک بپا کریں کیونکہ باطل پر حق کی چوٹ ہی سے کمزور کرتی ہے اس موقع پر ہماری اجتماعی ذمہ داری دو چند ہو جاتی ہیں کہ خیر کی قوتوں کو مجتمع کرنے پر اپنی ساری صلاحتیں لگا دیں کیونکہ اللہ کے عذاب جب آتے ہیں تو قوموں پر آتے ہیں اور عافیت اس میں ہے کہ اپنی حجت تمام کر کے اپنے رب کے حضور سر خرو ہو کر پیش ہوں کیونکہ وقت کی ریت مٹھی سے نکلتی جا رہی ہے ہمارا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے ۔وقت جس جدوجہد کا متقاضی ہے اگر ہم نے اسکا حق ادا نہ کیا تو آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
افشاں نوید

Leave a comment