Published On: Sun, May 22nd, 2011

چودھری نثارعلی خان متنازعہ کیوں بنے؟

ڈی ایچ اے میں دو پلاٹوں کے مالک اپوز یشن لیڈر
نے مالک کو رقم کا کوئی چیک یا ڈرافٹ نہیں دیا
اگر یہ بات درست ہےتو انکوائری ہونی چاہیے

ارشدجاوید
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کے اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان بھی غضب کے سیاست دان ہیں ۔اپنے مفاد کے لئے وہ جب چاہتے ہیں ، نت نئی بیان بازی شروع کر دیتے ہیں جس کا کوئی سر ہوتا ہے نا پیر ۔ تین سالوں میں وہ کوئی ایک عوامی مسئلہ تو حل نہیں کر سکے لیکن قومی اداروں کے خلاف بیان بازی سے وہ اپنی ساکھ ضرور خراب کر رہے ہیں ۔ھالیہ دنوں میں انہوں نے آئی ایس آئی کے خلاف جو بیان بازی کی اسے بھی ملک بھر میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا گیا ۔تاہم پارلیمنٹ میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا نے یہ بتا کر پارلیمنٹرین کو حیران کر دیا کہ انہوں نے چونکہ چوہدری نثار علی خان کا ایک زاتی کام نہیں کیا تھا اس لئے انہوں نے آئی ایس آئی کے خلاف بیان بازی شروع کر دی ۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے اس بیان سے چوہدری نثار کی طبعیت کی ضرور صاف ہو گئی اور وہ چپ چاپ بیٹھے رہے ۔تاہم اب اسلام آباد کے با خبر حلقوں میں چوہدری نثار علی خان کی بابت بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔
با خبر حلقے بتاتے ہیں کہ بہت سے سوالات ایسے ہیں جن سے چوہدری نثار علی خان کی داغ دار ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پرانہوں نے نے محمد باقر رضا کاظمی جن کا تعلق ڈی ایچ اے سے ہے، سے جو پلاٹ نمبر بی سی 127/بی ۔ 127 فیز ٹو اپنے نام فرانسفر کروایا۔اس پلاٹ کی قیمت کی ادائیگی کے بارے میں کئی باتیں کہی جا رہی ہیں تام چو ہدری نثار علی  خان اس بابت خاموش ہیں ۔ انہوں نے آج تک اس رقم کی ٹراسفر کا کوئی چیک، ڈرافت یا بنک ٹو بنک ٹراسفر کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا؟یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ چوہدری نثار علی اگر یہ بتا دیں کہ انہوں نے اس رقم کی ادائیگی کہاں سے کی تو نہ صرف اس سوال کا بلکہ بہت سے سوالوں کے جوابات آسانی سے مل جائیں گے ۔چودھری نثار علی خان اس سے قبل ڈی ایچ اے کے خلاف دھواں دھار تقاریرکیا کرتے تھے۔
چودھری نثار علی خان نے ایک دوسرا پلاٹ 128 بی 27 (فیز ٹو) محمد باقر رضا کاظمی سے اپنا نام ٹرانسفر کروایا ۔ اس پلاٹ کی قیمت کیسے ادا کی گئی یہ بھی ایک راز ہے۔یہ حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس پلاٹ کی قیمت کی ادائیگی کا کوئی ثبوت چیک، ڈرافٹ یا بنک ٹو بنک ٹرانسفر کی شکل میں پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ پلاٹ کسی طرح سے ہتھیا یاگیا ۔
اگر یہ بات درست ہے جس کی انکوائری ہونی چاہیے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی کے ممبر کیلئے تو دیانتدار ہونا اولین شرط ہے کیا ان شواہد کے بعد چوہدری نثار علی خان ان شرائط پر پورا اترتے ہیں۔ ڈی ایچ اے کوادائیگی کئے چوہدری نثار کے نام یہ دونوں پلاٹ ٹرانسفر ہو جانے کا کیا مطلب لیا جائے؟
ان حلقوں نے چوہدری نثار علی خان کے سامنے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ روالپنڈی کے پٹواری جو سابقہ دورمیں راولپنڈی میں زمین کی فرد جاری کرنے کافی کنال دو ہزار روپیہ وصول کرتے تھے اور اب اسی فرد کا 11 ہزار فی کنال وصول کرتے ہیں۔ یہ روزانہ تقریباًط 42 لاکھ روپیہ بنتا ہے یہ روپیہ کہاں جا رہا ہے؟ یہ پٹواری روزانہ کس کی گاڑی میں سوار ہو کر پھرتے ہیں؟ اور ان کی پوسٹنگ ٹراسفر کس کی مرضی سے ہوتی ہے؟ یہ ریونیو افسران کو جواب دہ ہونے کے بجائے عملاً کس کو جواب دہ ہیں؟یہ بھی ایک کھلا راز ہے اور چوہدری نثار یہ بات جانتے ہیں ۔
ان حلقوں کے مطابق محکمہ زراعت پنجاب کے پاس زمینوں کو بہتر بنانے کے لئے جو پیسہ تھا، وہ ساری رقم محکمہ زراعت پنجاب نے چکری میں چوہدری نثار کی ذاتی زمینوں پر خرچ کر دی ہے، جس کا خمیازہ پورے پنجاب کے غریب کسان اور زمیندار بھگت رہے ہیں۔
چودھری نثار علی خان نے قومی اسمبلی کے فلور پر بھی کہا تھا اور سیاسی جلسوں میں اپنی تقاریر میں بھی کہتے رہے ہیں کہ پنجاب میں گورنر راج کے دوران 38 ہزار کنال زمین ایکوائر کی گئی تھی۔۔۔ جو انہوں نے واگزار کروائی۔۔۔۔۔۔ ان حلقوں کے مطابق چودھری نثار علی خان اگر آپ یہ ثابت کر دیں کہ گورنر راج میں 38 ہزار کنال زمین ایکوائر کی گئی تھی اور بعد میں انہوں نے واگزار کرائی تھی؟یہ بات سرا سر جھوٹ ہے ۔
یہ حلقے بتاتے ہیں کہ چودھری نثار علی کی والدہ محترمہ(جنت نصیب) نے ان کی رہائی کیلئے سابق صدر جنرل پرویزمشرف کوایک خط لکھا تھا جس پر جنرل پرویز نے ا نہیں رہا کر دیا ۔ اس خط میں چودھری نثار علی کی والدہ محترمہ نے لکھا تھا کہ جنرل پرویز مشرف صاحب! اگر آپ میرے بیٹے چودھری نثار علی خان کو رہا کر دیں تو یہ دوبارہ کبھی سیاست میں نہیں آئے گا؟ اور اگر کبھی میرا بیٹا سیاست میں آیا تو میں اسے دودھ نہیں بخشوں گی؟
یہ بات ٹھیک ہے یا غلط لیکن سیاست دانوں سے کچھ بعید نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کم از کم پاکستان کی سیاست میں تو کوئی ایسا کمٹیڈ سیاست دان نہیں بچا جس کا دامن صاف ہو۔
پاکستان کا المیہ یہی ہے کہ یہاں سیاستدان عوام سے دھوکے، فریب اور اس طرح کے جھوٹے قصوں سے ووٹ لے کر اسمبلی میں آتے ہیں اور جب ان کی کرپشن اور لوٹ مار کے قصے سامنے آتے ہیں تو وہ اسے اپنا میڈیا ٹرائل کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔وہ جتنا جھوٹ بولتے ہیں تو شائد انہیں یہ معلوم ہی ہو گا کہ بدیانت ہونے اور جھوٹ بولنے پر آئین کے آرٹیکل 62,63 کے تحت بطور ممبر اسمبلی ناہل بھی ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان میں سب کچھ بگڑا ہوا ہے اور چوہدری نثار علی بھی اسی بگاڑ کا نتیجہ ہیں ۔
Displaying 2 Comments
Have Your Say
  1. akbar says:

    fact ke story read kur ka kushi huwai ka koi to hay to ch nisar ka bara main bhe such likeh raha hay verna to ko akhbar aur channal is feroon ka bara main kuch bhe nahee likh sakta. main ch nisar ka halka ka voter hoon aur main ya dawa sa keh sakta hoon ka is halqa maian qadam qadam pur zulam ke dastaiana bekhree puri haian. hay koi jo kucj likh saka. fact ko itna kuch lekhna pur mubarakbad
    Akbar Rawalpindi

  2. Mohammad Sarfraz says:

    چوہدری نثار علی خان کی پاکدامنی کے قصے تو بہت مشہور ہيں کہنے والے کہتے ہيں کہ پورے راولپنڈی ڈويژن کی پوليس کے افسران و سپاہی انکی مرضی سے رکھ جاتے ہيں اور تمام بھرتيوں پر انکو نذرانے ملتے ہيں انکی والدہ محترمہ کی رحلت پر تمام پٹواريوں نے کم از کم دو دو لاکھ انکے گھر پر پہنچا کر تعزيت کی اور نہ جانے کتنے مجبور لوگوں کی زمينوں پر قبضہ کروايا ہر پٹواری انکا ذاتی ملازم ہے تنخواہ سرکاری اور کام جناب چوہدری صاحب کا کيا چيف جسٹس صاحب ازخود نوٹس ليں گے؟

Leave a comment