اسامہ کی ہلاکت میں مدد ینوالےایجنٹ ڈاکٹرشکیل کوچھوڑاجائے ورنہ
اوبامہ نے پاکستان کو دھمکی دینے کے بعد اسلا م آباد کے امریکی سفارت خانے کو رہا کروانے کے احکامات جا ری کردئیے ، معاملے پر دونوں ملکوں میں پھر تناؤ عروج پر پہنچ گیا، بے موسم ٹیکہ مہم کا راز جاننے میں ناکامی کے بعد آئی ایس آئی کا ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کرنے سے انکار، واقعہ پاکستانی انٹیلی جنس کے لئے طمانچے سے کم نہیں ، اہم انکشافات
نمائندہ فیکٹ
سی آئی اے کے ایجنٹ آپ کے دروازے پر ہیں۔حیران نہ ہوں ، یہ ممکن ہے ، وہ سیلز مین کی شکل میں ہوسکتے ہیں۔ وہ کورئیر بوائے کے روپ میں ہوسکتے ہیں۔ وہ کسی سروے کے نام پر آسکتے ہیں، وہ کہیں بھی آسکتے ہیں، کبھی بھی جاسکتے ہیں، کیونکہ سی آئی اے کا دماغ دنیا میں سب سے تیز چل رہاہے۔ اس کا ثبوت ہے مشن ایبٹ آباد ، جہاں سی آئی اے نے یکم مئی کی شپ ایک سنسنی خیز آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور اس آپریشن سے جڑی کڑیاں اب آہستہ آہستہ دنیا کے سامنے آرہی ہیں۔
دراصل ایبٹ آباد کی وزیرستان حویلی میں اسامہ کی موجودگی کا شک ہونے کے بعد سی آئی اے نے اس علاقے مین جعلی ٹیکہ مہم چلائی تھی تاکہ حویلی میں موجود بچوں کے ڈی این اے کے نمونہ حاصل کئے جاسکیں، اس کام کے لئے خیبر پختونخواہ کے ایک میڈیکل افسر ڈاکٹر شکیل آفریدی کی خدمات لی گئی تھیں ، جو اب پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی تحویل میں ہیں اور امریکہ اپنے پاکستانی ایجنٹ کی رہائی کیلئے زرداری حکومت پر دباؤ ڈال رہا ہے ، جس کیلئے شاہد اب پاکستان میں رہنا مشکل ہو، اس کے لئے اسے امریکی شہریت کا تحفہ بھی مل جائے گا۔ دراصل جب سی آئی اے نے اسامہ کے سب سے پراعتماد جہادی ساتھی ا بو احمد الکویتی کا سراغ لگایا اور اس کو وزیرستان حویلی کا مکین پایا ، تو حویلی میں موجود بچوں کے ڈی این اے نمونہ حاصل کرنے کا فیصلہ ہوا، تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کہیں حویلی میں اسامہ کے اہل خانہ تو نہیں۔ سی آئی اے نے بہر حال اس بات کا ا عتراف نہیں کیاہے کہ یہ جعلی ٹیکہ مہم کس حد تک کامیاب رہی۔ وزیرستان حویلی میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ساتھ ایک نرس گئی تھی ، مگر کیا وہ ڈی این اے نمونے حاصل کر سکی، اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے مگر نئے انکشاف نے ایک بار پھر امریکہ اور پاکستان کو آمنے سامنے کر دیا ہے۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں جو تلخی پیدا ہوئی تھی ، اس کی نئی کڑی ڈاکٹر شکیل آفریدی ہے۔ اب امریکہ چاہتا ہے کہ اسامہ کے خلاف اس کی خفیہ جنگ اور حتمی مشن میں مدد گار شخص کو آئی ایس آئی ہراساں نہ کرے اور ڈاکٹر آفریدی کو رہا کردیا جائے، مگر اس وقت پاکستانی حکومت اور آئی ایس آئی کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ عوام میں اپنی ساکھ بہتر بنائی جائے۔
ڈاکٹر آفریدی کی گرفتاری نے امریکہ اور پاکستان میں تناؤ پیدا کردیا ہے۔ آئی ایس آئی نے ڈاکٹر کو گرفتار کرنے کے بعد ان غداروں کی صف میں کھڑا کیا ہے ، جنہوں نے اسامہ کی موت میں امریکہ کیلئے کام کیا تھا۔ ڈاکٹر آفریدی نے مارچ میں ایبٹ آباد کا رخ کیا تھا اور شہر میں اس بات کی تشہیر کی گئی تھی کہ ڈاکٹر مفت ٹیکے لگا رہے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ایبٹ آباد ہیلتھ سروسز نے ڈاکٹر آفریدی سے کوئی سوال نہیں کیا‘ جبکہ ڈاکٹر آفریدی نے محکمہ صحت کے نچلی سطح کے ملازمین کو اس مہم میں تعاون کرنے کے لئے معاوضہ بھی ادا کیا۔ سی آئی اے کی چال کامیاب رہی اور ڈاکٹر آفریدی کو ایبٹ آباد میں اسامہ کی حویلی میں داخلے کا اجازت نامہ مل گیا۔ مگر پردے کے سبب ڈاکٹر آفریدی احاطے میں رہے، جبکہ ایک خاتون ڈاکٹر کو گھرکے اندر بھیجا گیا۔ دراصل یہ کھیل بہت قاعدے کے ساتھ ہوا، جس کے سبب کوئی شک نہیں کر سکا۔ سی آئی اے کے زرخرید ڈاکٹر نے پہلے ایبٹ آباد کے ارد گرد غریب بستیوں کارخ کیا اور ٹیکہ مہم چلائی ۔ہیپا ٹائیٹس بی کا ٹیکہ لگانے کے نام پر ڈاکٹر آفریدی بلال ٹاؤن میں اسامہ کی حوایلی پہنچے اور سنسنی خیز انداز میں اسامہ کے بچوں کے نمونے لے کر ڈی این اے کیلئے سی آئی اے کے حوالے کر دےئے، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹیکہ مہم کا وقت بالکل جد اتھا۔ اس کے باوجود انتظامیہ اس پر توجہ نہ دے سکی۔ غریبوں کیلئے ٹیکہ مہم کا بلال ٹاؤں میں اہتمام حیرت ناک تھا۔ کیونکہ یہ علاقہ بہت مہنگا ہے، جہاں بیشتر کوٹھیاں ہیں۔ مقامی انتطامیہ نے یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی کہ ایبٹ آباد میں خیبر پختونخواہ کا سرجن کیا کر رہا ہے۔ اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ ٹیکہ لگا کر کس طرح ڈی این اے نمونہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ خاتون ڈاکٹر یا نرس کو اس قسم کی تربیت دی گئی ہو کہ ٹیکہ لگانے کے بعد سرنچ میں کچھ خون نکال لیا جائے۔ جس خاتون کو ٹیکہ لگانے کیلئے اسامہ کی حویلی میں بھیجا گیا تھا ، اس کا نام مختار بی بی تھا۔ ڈاکٹر آفریدی اس حویلی کے داخلی دروازے پر کھڑے تھے ۔ ان کے بیگ میں ایک الیکٹرانک آلہ تھا، مگر اس کی نوعیت معلوم نہیں ہوسکی۔ یہ الیکٹرانک آلہ ڈاکٹر نے حویلی میں چھوڑ دیا تھا یا پھر سی آئی اے کو ڈی این اے کا نمونہ مل گئے تھے ۔ اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکاہے۔ اتنا ضرور معلوم ہوا ہے کہ مختار بی بی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ وہ کس کیلئے کام کر رہی ہے اور کون ہے نشانہ پر ۔ اب اس معاملے نے ایک بار پھر پاکستان اور امریکہ کو آمنے سامنے کر دیا ہے۔ پاکستان کے ایک سنیئر انٹیلی جنس افسر نے ڈاکٹر آفریدی کی گرفتاری پر کہا کہ کسی بھی ایسے شخص کو گرفتار کرنا ضروری نہیں ہوگا، جو دوسرے ملک کی خفیہ ایجنسی کیلئے کام کر رہا ہو۔
آئی ایس آ ئی نے جب ڈاکٹر آفریدی کو شکنجے میں لیا تو امریکہ کو لگا کہ اس کیلئے عظیم خدمت انجام دینے والا پریشانی کا شکار ہے تو اوبا مہ انتطامیہ نے بڑے صاف لفظوں میں حکم دیا کہ ڈاکٹر اور اس کے خاندان کو چھوڑ دو، امریکا انہیں شہریت دے گا۔تاہم پاکستان کے انکار کے بعد اس تنازعہ نے ایک بار پھر دونوں ملکوں میں ٹکرا ؤ کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ پاکستان کے لئے یہ کم ذلت کی بات نہیں تھی کہ داخلی سکیورٹی کو نظر انداز کرکے امریکا نے ایبٹ آباد میں خطرناک مشن کو انجام دیا۔ اس کے بعد امریکی دباؤ میں اسامہ کے اہل خاندان سے سی آئی اے افسران کو پوچھ گچھ کر نے کا موقع دینا پڑا۔ اب اوبامہ انتظامیہ کے مزید دباؤنے پاکستان کو چراغ پا کر دیاہے۔ زرداری حکومت کو لگ رہا ہے کہ وہ جتنا جھک رہی ہے، اتنا ہی دباؤ بڑھ رہاہے، اس لئے پاکستان کے وزیر دفاع نے اب یہ دھمکی دی ہے اگر امریکا کا یہی موقف رہا تو افغانستان کی سرحدوں پر تعینات ایک لاکھ فوج کو ہٹا لیا جائے گا اگر ایسا ہوتا ہے تو دہشت گرد مخالف جنگ کیلئے یہ ایک المیہ ثابت ہوگا۔ دراصل سی آئی اے کو اس بات کا پختہ یقین نہیں تھا کہ حویلی میں اسامہ موجود ہوگا۔ اس نازک آپریشن سے قبل سی آئی اے نے آخری چال چلی تھی ۔ ڈاکٹر آفریدی سے خیبر میں رابطہ قائم ہوگیا تھا اور انہیں اعتماد میں لے کر ٹیکہ مہم شروع ہوئی تھی۔ سی آئی اے نے بہر حال اب تک اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے ۔ لہذا اس مہم کے تحت اسامہ کے بچوں کے ڈی این اے نمونہ ملے یا نہیں ۔ اس وقت پاکستان کے سرکاری حلقوں میں ہلچل مچی ہوئی گئی کیونکہ آپریشن اسامہ کے بعد یہ ٹیکہ مہم بی کسی طمانچے سے کم نہیں ، کیونکہ پاکستانی انٹیلی جنس بے موسم ٹیکہ مہم کا راز نہ جان سکی۔
ڈاکٹر آفریدی کے اہل خانہ کیا کہتے ہیں:
ڈاکٹر آفریدی کی گرفتاری نے اس کے اہل خانہ کو ششدر کر دیا ، یہاں تک کہ ان کی اہلیہ نے کہا کہ وہ ایسے شخص نہیں ہیں، وہ زرخرید نہیں ہیں ، مگر میں حیرت میں ہوں ، ایسا کیسے ہوا؟ انہوں نے یہ کام کیوں کیا! مجھے اب بھی یقین نہیں آتا ہے۔ ڈاکٹر آفریدی کو15مئی کے بعد پشاور سے اٹھایاگیا ، جہاں وہ کسی رشتہ دار کی تدفین میں گئے تھے ۔ امریکہ کو ڈ اکٹر آفریدی کی گرفتاری کی خبر ملی ، تو اوبامہ انتظامیہ نے سفارت خانہ کو ہدایت جاری کیں اور کہا کہ ڈاکٹر کے ساتھی سی آئی اے ایجنٹوں کو بھی رہا کروایا جائے، جسے آپریشن اسامہ کے سلسلے میں گرفتارکیا گیا ہے۔ جب ڈاکٹر آفریدی کئی دنوں تک گھر نہیںآئے، تو اہل خانہ کو شبہ ہوا کہ طالبان نے ڈاکٹر آفریدی کا اغوا کر لیا ہے، مگر اب یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ڈاکٹر آفریدی آئی ایس آئی کی حراست میں ہیں۔ ڈاکٹر آفریدی کی بیگم کا کہنا ہے کہ ان کے شوہرکے گمشدہ ہونے کے بعد سرکاری سطح پر ان کی تلاش کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی پولیس میں معاملہ درج کرایا، حالانکہ ایک سرکاری ملازم کے لاپتہ ہونے کی شکایت اس محکمے کو درج کرانی چاہئے تھی ۔
ڈاکٹر آفریدی نے سی آئی اے کے مشن کو کس بنیاد پر قبول کیا اور اس مشن مین وہ کس حد تک کامیاب رہے ، اس بارے میں سی آئی اے نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ اب پاکستان میں بے موسم کی ٹیکہ مہم شک کے دائر ے میں رہے گی یا سرکاری سطح پر اس قسم کی مہم کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔