Published On: Mon, Jun 22nd, 2015

خوش آمدید ماہ صیام ! مسائل و احکامات رمضان المبارک، روزہ کن چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے؟

Share This
Tags
رمضان المبارک کے روزے رکھنا اسلام کا تیسرا فرض ہے۔ جو اس کے فرض ہونے کا انکار کرے مسلمان نہیں رہتا اور جو اس فرض کو ادا نہ کرے وہ سخت گناہ گار اور فاسق ہے۔
روزے کے لیے نیت شرط ہے، دل کے ارادے کو نیت کہتے ہیں، اگر روزے کا ارادہ نہ کیا اور تمام دن کچھ کھایا پیا نہیں تو روزہ نہیں ہوگا۔
جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے:
(1) کان اور ناک میں دوا ڈالنا (2) قصداً منہ بھر کے قے کرنا (3) کلی کرتے ہوئے حلق میں پانی چلا جانا (4) عورت کو چھونے وغیرہ سے انزال ہوجانا (5) کوئی ایسی چیز نگل لینا جو عام طور پر نہیں کھائی جاتی جیسے لکڑی، لوہا، گیہوں کا دانہ وغیرہ (6) کسی خوشبودار چیز، بیڑی، سگریٹ اور حقے کا دھواں قصداً ناک یا حلق میں پہنچانا (7) بھول کر کھا پی لیا اور یہ خیال کیا کہ اس سے روزہ ٹوٹ گیا ہوگا پھر قصداً کھا پی لینا (8) رات سمجھ کر صبح صادق کے بعد سحری کھالینا (9) غروب آفتاب سے پہلے غلطی سے روزہ افطار کرلینا۔ ( نوٹ: ان سب چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر صرف قضا واجب ہوتی ہے، کفارہ لازم نہیں ہوتا)
وہ چیزیں جن سے روزہ ٹوٹتا نہیں، مگر مکروہ ہوجاتا ہے:
بلا ضرورت کسی چیز کو چبانا یا نمک وغیرہ چکھ کر تھوک دینا، ٹوتھ پیسٹ یا منجن یا کوئلے سے دانت صاف کرنا بھی روزے کی حالت میں مکروہ ہیں۔
تمام دن حالت جنابت میں بغیر غسل کیے رہنا۔
فصد کرانا یا کسی مریض کے لیے اپنا خون دینا۔
(4) غیبت کرنا ہر حال میں حرام ہے۔
روزہ میں لڑنے جھگڑنے اور گالی دینے سے بھی روزہ مکروہ ہوجاتا ہے۔
(وہ چیزیں جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور مکروہ بھی نہیں ہوتا)
٭ مسواک کرنا ٭ سر پر تیل لگانا ٭ آنکھوں میں دوا یا سْرمہ ڈالنا ٭ خوش بو سونگھنا ٭ گرمی اور پیاس کی وجہ سے غسل کرنا ٭ انجکشن لگوانا ٭ بھول کر کھانا پینا ٭ خود بخود قے آجانا ٭ سوتے ہوئے احتلام ہوجانا ٭ دانتوں میں سے خون نکلے، مگر حلق میں نہ جائے تو روزے میں خلل نہیں آتا ٭ اگر خواب میں یا صحبت سے غسل کی حاجت ہوگئی اور صبح صادق ہونے سے پہلے غسل نہیں کیا اور اسی حالت میں روزہ کی نیت کرلی تو روزہ میں خلل نہیں آیا۔
(وہ عذر جن سے رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے)
 ramzanبیماری کی وجہ سے روزے کی طاقت نہ ہو، یا مرض بڑھنے کا شدید خطرہ ہوتو روزہ نہ رکھنا جائز ہے، لیکن قضا لازم ہے۔
جو عورت حمل سے ہو اور روزہ میں بچہ کو یا اپنی جان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھے، بعد میں قضا کرے۔
جو عورت اپنے یا کسی کے بچے کو دودھ پلاتی ہے، اگر روزے سے بچہ کو دودھ نہیں ملتا اور تکلیف پہنچتی ہے تو روزہ نہ رکھے پھر قضا کرے۔
مسافر شرعی کے لیے اجازت ہے کہ روزہ نہ رکھے، پھر اگر کچھ تکلیف و دقت نہ ہو تو افضل یہ ہے کہ سفر ہی میں روزہ رکھ لے اگر خود اپنے آپ کو یا اپنے ساتھیوں کو اس سے تکلیف ہوتو روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔
بحالت روزہ سفر شروع کیا تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔
کسی کو قتل کی دھمکی دے کر روزہ توڑنے پر مجبور کیا جائے تو اس کے لیے توڑ دینا جائز ہے پھر قضا کرلے۔
کسی بیماری یا بھوک پیاس کا اتنا غلبہ ہوجائے کہ کسی ماہر طبیب کے نزدیک جان کا خطرہ لاحق ہوتو روزہ توڑ دینا جائز، بلکہ واجب ہے اور پھر اس کی قضا لازم ہے۔
عورت کے لیے ایام حیض و نفاس کے دوران روزہ رکھنا جائز نہیں۔ لیکن بعد میں قضا کرے۔ (نوٹ) قضا روزوں میں اختیار ہے کہ متواتر رکھے یا ناغہ کرکے رکھے۔
سحری: روزہ دار کو صبحِ صادق سے پہلے سحری کھانا مسنون اور باعثِ برکت و ثواب ہے۔ نصف شب کے بعد جس وقت بھی کھائیں سحری کی سنت ادا ہوجائے گی، لیکن بالکل آخر شب میں کھانا افضل ہے۔ سحری سے فارغ ہوکر روزہ کی نیت دل میں کرلینا کافی ہے، زبان سے بھی ادا کرے تو افضل ہے۔
اِفطار: آفتاب کے غروب ہونے کا یقین ہوجانے کے بعد افطار کریں۔ کھجور سے افطار کرنا افضل ہے۔ افطار کے وقت دْعائے مسنون پڑھیں۔
تراویح: رمضان المبارک میں عشاء کے فرض اور سنت کے بعد 20 رکعت سنت مؤکدہ ہے۔ تراویح کی جماعت سنت علی الکفایہ ہے۔ محلے کی مسجد میں جماعت ہوتی ہو اور کوئی شخص علیحدہ اپنے گھر میں اپنی تراویح پڑھ لے تو سنت ادا ہوجائے گی، اگرچہ مسجد اور جماعت کے ثواب سے محروم رہا اور اگر محلہ ہی میں جماعت نہ ہوئی تو سب کے سب ترک سنت کے گنہگار ہوں گے۔ تراویح میں پورا قرآن مجید ختم کرنا بھی سنت ہے۔ کسی جگہ حافظِ قرآن سنانے والا نہ ملے یا ملے مگر سنانے پر اجرت و معاوضہ طلب کرے تو چھوٹی سورتوں سے نماز تراویح ادا کریں، اْجرت دے کر قرآن نہ سنیں کیوں کہ قرآن سنانے پر اجرت لینا اور دینا حرام ہے۔ اگر ایک حافظ ایک مسجد میں تراویح پڑھا چکا ہے تو اس کو دوسری مسجد میں اسی رات تراویح پڑھانا درست نہیں۔ جس شخص کی دوچار رکعت تراویح کی رہ گئی ہو تو جب امام وتر کی جماعت کرائے اس کو بھی جماعت میں شامل ہوجانا چاہیے، اپنی باقی ماندہ تراویح وتر کے بعد پوری کرے۔ قرآن کو اس قدر جلد پڑھنا کہ حروف کٹ جائیں سخت گناہ ہے۔ جمہور علماء کا فتویٰ یہ ہے کہ نابالغ کو تراویح میں امام بنانا جائز نہیں۔
اِعتکاف: اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔ اعتکاف کے معنی ہیں ’’جھک کر یک سوئی سے بیٹھے رہنا‘‘ اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں سب سے کٹ کر اﷲ تعالیٰ کے گھر میں یک سو ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کی ساری توجہ اس بات پر مرکوز رہتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے۔ چناںچہ وہ اس گوشۂ خلوت میں بیٹھ کر توبہ و استغفار کرتا ہے۔ نوافل پڑھتا ہے، ذکر و تلاوت کرتا ہے۔ دعا و التجا کرتا ہے اور یہ سارے ہی کام عبادات ہیں۔ اس اعتبار سے اعتکاف گویا مجموعہ عبادات ہے۔ نبی اکرم ﷺ اعتکاف کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ رمضان کے آخری دس دن، رات دن مسجد کے ایک گوشے میں گزارتے اور دنیوی معمولات اور تعلقات ختم فرما دیتے۔ جس سال آپ ﷺ پردہ فرما گئے اس سال آپ نے رمضان میں 10 دن کی بجائے 20 دن اعتکاف فرمایا۔
(صحیح بخاری، الاعتکاف، حدیث: 2044)
اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں رہیں اور سوائے ایسی حاجات ضروریہ کے جو مسجد میں پوری نہ ہوسکیں (جیسے رفع حاجت، غسل واجب اور وضو کی ضرورت) مسجد سے باہر نہ جائیں۔ رمضان کے عشرہ آخر میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی اگر بڑے شہروں کے محلے میں اور چھوٹے دیہات کی پوری بستی میں کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب کے اوپر ترکِ سنت کا وبال رہتا ہے اور کوئی ایک بھی محلے میں اعتکاف کرے تو سب کی طرف سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔ بالکل خاموش رہنا اعتکاف میں ضروری نہیں، بلکہ مکروہ ہے، البتہ لڑائی جھگڑے اور فضول باتوں سے بچنا چاہیے۔ اعتکاف میں کوئی خاص عبادت شرط نہیں، نماز، تلاوت یا دینی کتب کا پڑھنا پڑھانا یا جو عبادت دل چاہے کرتا رہے۔
جس مسجد میں اعتکاف کیا گیا ہے، اگر اس میں جمعہ نہیں ہوتا، تو نماز جمعہ کے لیے اندازہ کرکے ایسے وقت مسجد سے نکلے جس میں وہاں پہنچ کر سنتیں ادا کرنے کے بعد خطبہ سن سکے۔ اگر کچھ زیادہ دیر جامع مسجد میں لگ جائے، جب بھی اعتکاف میں خلل نہیں آتا۔ اگر بلا ضرورت طبعی شرعی تھوڑی دیر کو بھی مسجد سے باہر چلا جائے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا، خواہ عمداً نکلے یا بھول کر۔ اس صورت میں اعتکاف کی قضا کرنا چاہیے۔ اگر آخر عشرہ کا اعتکاف کرنا ہو تو 20 تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد میں چلا جائے اور جب عید کا چاند نظر آجائے تب اعتکاف سے باہر ہو۔ غسلِ جمعہ یا محض ٹھنڈک کے لیے غسل کے واسطے مسجد سے باہر نکلنا مْعتکف کو جائز نہیں۔
شبِ قدر: چوںکہ اس امت کی عمریں بہ نسبت پہلی امتوں کے چھوٹی ہیں، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک رات ایسی مقرر فرما دی ہے کہ جس میں عبادت کرنے کا ثواب ایک ہزار مہینے کی عبادت سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن اس کو پوشیدہ رکھا، تاکہ لوگ اس کی تلاش میں کوشش کریں اور ثواب بے حساب پائیں۔ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شبِ قدر ہونے کا زیادہ احتمال ہے۔
ان راتوں میں عبادت اور توبہ و استغفار اور دعا میں مشغول رہنا چاہیے۔ اگر تمام رات جاگنے کی طاقت یا فرصت نہ ہوتو جس قدر ہوسکے جاگے اور نفل نماز یا تلاوتِ قرآن یا ذکر و تسبیح میں مشغول رہے اور کچھ نہ ہوسکے تو عشاء اور صبح کی نماز جماعت سے ادا کرنے کا اہتمام کرے۔ حدیث میں آیا ہے کہ یہ بھی رات بھر جاگنے کے حکم میں ہوجاتا ہے۔
مسائل زکوٰۃ: اگر کسی کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا ہے یا اس میں سے کسی ایک کی قیمت کے برابر روپیہ ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔ نقد روپیہ بھی سونے چاندی کے حکم میں ہے (شامی) اور سامانِ تجارت اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔ کارخانے اور مِل وغیرہ کی مشینوں پر زکوٰۃ فرض نہیں، لیکن ان میں جو مال تیار ہوتا ہے اس پر زکوٰۃ فرض ہے، اسی طرح جو خام مال کارخانے میں سامان تیار کرنے کے لیے رکھا ہے اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے (درمختار و شامی)۔ سونے چاندی کی ہر چیز پر زکوٰۃ واجب ہے۔
کسی کے پاس کچھ روپیہ، کچھ سونا یا چاندی اور کچھ مالِ تجارت ہے، لیکن علیحدہ علیحدہ بقدر نصاب ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں ہے تو سب کو ملاکر دیکھیں اگر اس مجموعہ کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہوجائے تو زکوٰۃ فرض ہوگی اور اگر اس سے کم رہے تو زکوٰۃ فرض نہیں (ہدایہ)۔ جس قدر مال ہے اس کا چالیسواں حصہ دینا فرض ہے یعنی ڈھائی فی صد مال دیا جائے گا۔ زکوٰۃ ادا ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ جو رقم کسی مستحقِ زکوٰۃ کو دی جائے وہ اس کی کسی خدمت کے معاوضہ میں نہ ہو۔ ادائی زکوٰۃ کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کسی مستحق زکوٰۃ کو مالکانہ طور پر دے دی جائے، جس میں اس کو ہر طرح کا اختیار ہو، اس کے مالکانہ قبضے کے بغیر زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔
( مزید تفصیل کے لیے کسی مستند عالم سے رجوع کیا جائے)
ترتیب نمازِ عید: اول زبان یا دل سے نیت کریں کہ دو رکعت نمازِ عید واجب مع چھے زاید تکبیروں کے ساتھ اس امام کی اقتدا میں ادا کرتا ہوں۔ پھر اﷲ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں اور ثناء پڑھیں پھر دوسری اور تیسری تکبیر میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں اور چوتھی میں باندھ لیں اور جس طرح ہمیشہ نماز پڑھتے ہوں پڑھیں۔ دوسری رکعت میں سورت کے بعد جب امام تکبیر کہے آپ بھی تکبیر کہہ کر پہلی، دوسری اور تیسری دفعہ میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں اور چوتھی تکبیر کہہ کر بلا ہاتھ اْٹھائے رکوع میں چلے جائیں۔ باقی نماز حسب ترتیب پوری کریں اور خطبہ سْن کر واپس جائیں۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کو اس کی صحیح روح کے ساتھ گذارنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے۔ آمین
عبد الباسط
Displaying 1 Comments
Have Your Say
  1. Salahuddin says:

    سوات سے نمائندگی کے لیے حاضر ہوں

Leave a comment