کرپشن پرائیرفورس اہلکارکا کورٹ مارشل ،وکیل دیا گیا نہ چارج شیٹ فراہم کی گئی، ائیر فورس پرالزام، اہلیہ ہائیکورٹ پہنچ گئی
پاکستان ائیر فورس کی قائم کردہ فوجی عدالت میں انصاف کے تقاضے مبینہ طور پر پورے نہ کیے جانے پر فضائیہ کے ایک اہلکار کی بیوی نے لاہور ہائیکورٹ میں اپنے خاوند کے خلاف فوجی عدالت کی کارروائی روکنے کی اپیل کی ہے۔
راولپنڈی بنچ کے سامنے دائر کی گئی درخواست میں پاکستانی فضائیہ کے سویلین اہلکار سہیل اشرف کی بیوی نے عدالت سے کہا ہے کہ راولپنڈی میں قائم اس فوجی عدالت نے نہ تو ان کے شوہر کو وکیل کی سہولت دی ہے اور نہ ہی الزامات کی تفصیل (چارج شیٹ) فراہم کی ہے۔ اس کے باوجود ملزم کے خلاف بدعنوانی کے الزام میں کورٹ مارشل کی کارروائی جاری ہے۔
پاکستانی فضائیہ کے سینیئر ٹیکنیشن سہیل اشرف کے خلاف نور خان ایئر بیس میں بدعنوانی اور غبن کے الزامات کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کی جا رہی ہے۔
عدالت میں دائر کی گئی آئینی درخواست میں سہیل اشرف کی زوجہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ سہیل اشرف 2013 میں اچانک لاپتہ ہوگئے تھے اور ایک سال بعد والدہ کی وفات پر انھیں کڑے پہرے میں ایک دن کے لیے فضائیہ کے اہلکار گھر لائے تھے جس کے بعد وہ پھرغائب کر دیے گئے تھے۔پٹیشنر کے مطابق چند مہینے پہلے جب انھوں نے سول عدالت میں مقدمہ کیا تب عدالت کو فضائیہ کے حکام نے بتایا کہ سہیل اشرف کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کی جا رہی ہے۔
قیصرہ سہیل کے مطابق اس دوران انھیں اور ان کے بچوں کو ملزم سے ملنے نہیں دیا گیا اور نہ ہی کورٹ مارشل کی خفیہ کارروائی کے دوران انھیں وکیل کی خدمات دی گئی ہیں یا الزامات کی تفصیل فراہم کی گئی ہے۔اس صورت حال میں سہیل اشرف کسی طرح بھی کورٹ مارشل کی کارروائی میں اپنا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
سہیل اشرف 2013 میں اچانک لاپتہ ہوگئے تھے اور ایک سال بعد والدہ کی وفات پر انھیں کڑے پہرے میں ایک دن کے لیے فضائیہ کے اہلکار گھر لائے تھے جس کے بعد وہ پھر ’غائب‘ کر دیے گئے تھے۔
قیصرہ سہیل نے لاہور ہائیکورٹ سے اپیل کی ہے ان کے شوہر کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کو غیر قانونی قرار دے کر ان کی رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ نے حال ہی میں فوجی عدالتوں کے دائرۂ کار میں اضافے کے خلاف درخواستوں پر سماعت مکمل کرنے کے بعد ان پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
وفاقی حکومت نے گذشتہ سال پشاور سکول پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد قومی ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالتوں کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے انھیں عام شہریوں کے خلاف بھی مقدمات قائم کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے خلاف دلائل دینے والے سینیئر وکلا نے ان عدالتوں کے بارے میں کم و بیش انہی خدشات کا اظہار کیا تھا جو سہیل اشرف کی بیوی نے لاہور ہائیکورٹ کے سامنے رکھے ہیں۔
رپورٹ: آصف فاروقی