Published On: Tue, Jul 28th, 2015

اقتدار کی بندر بانٹ: مقامی حکومتوں کے ہاتھ کیا آئے گا؟

Share This
Tags
پنجاب میں ایک نیا انتخابی میلہ لگنے کو ہے۔ حلقہ بندیاں اسی ماہ مکمل ہو جائیں گی اور ووٹر لسٹیں اگست میں۔ ابھی کچھ معاملات میں بے یقینی حائل ہے جیسے انتخابات ایک ہی روز ہوں گے یا مرحلہ وار لیکن بے چین امیدواروں کے رنگ برنگ ہورڈنگ بورڈ جگہ جگہ نظر آنے شروع ہو گئے ہیں۔ اور اگر صرف انہی کو دیکھ کر اندازہ لگائیں تو لگتا ہے نواز لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان دنگل خوب جمے گا۔
دنگل کے تماشائیوں کے پیسے تو پورے ہو جائیں گے لیکن اس کے بعد جو کچھ ہو گا وہ شاید اس سے بھی زیادہ دلچسپ ثابت ہو۔
یہ انتخابات اقتدار کی نچلی عوامی (یعنی گاؤں، محلے کی) سطح پر منتقلی کے لئے ہو رہے ہیں۔ کم از کم اس نئے نظام کے خالقوں کی تحریری نیت تو یہی ہے۔ چاروں صوبوں نے اپنی اپنی دانست کے مطابق اس کے لئے الگ الگ صوبائی قانون بنائے ہیں۔
پنجاب کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 خاصہ دلچسپ اس لئے بھی ہے کہ اس کو پڑھتے ہوئے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آیا یہ قانون اقتدار نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لئے بنایا گیا یا پھر اس کا مطالبہ کرنے کی جسارت کرنے والوں کو ناکام بنانے کے لئے۔
ایسا نہیں ہے کہ میں خوامخواہ اس میں کوئی سازش ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ اس قانون کا متن اتنا واضح اور صاف ہے کہ اس میں میری اپنی کسی تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لانے کی گنجائش ہی نہیں۔ آپ خود ملاحظہ کر لیں:

بڑی کرسی پر کون بیٹھے گا؟
قانون کے مطابق ہر ضلع کا ایک چیئرمین ہو گا، بڑے شہروں کے لئے اس عہدے کو میئر کا نام دیا گیا ہے۔ ان کا انتخاب اس ضلع یا شہر کی تمام یونین کونسلوں کے منتخب چیئرمین اور دیگر ممبران جمہوری طریقے سے کریں گے۔
میئر کی ذمہ داریوں میں شامل ہو گا کہ وہ تجاویز دے، ہدایات جاری کرے، تقریبات میں شرکت کرے اور کاموں کی نگرانی کرے۔

لیکن کام کرے گا کون؟ecp
چیف آفیسر تمام میونسپل سروسز کا انچارج ہو گا۔ قانونی مسائل، تعلقات عامہ، ملازمین کے معاملات اور دیگر عملی کام جیسے خریدو فروخت اس کے زیر انتظام ہوں گی۔
چیف آفیسر حکومت پنجاب تعینات کرے گی اور وہ لوکل گورنمنٹ بورڈ کو جواب دہ ہو گا جو لاہور میں سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کے زیر اہتمام ایک خودمختار (اور غیر منتخب) ادارہ ہو گا۔

چیف آفیسر کہیں ڈپٹی کمشنر کا نیا نام تو نہیں؟
کرسی دیکھنے میں تو شاید میئر ہی کی بڑی ہو گی لیکن چیف آفیسر کی یقیناً زیادہ مضبوط اور گھومنے والی ہو گی۔

تعلیم، صحت: منتخب حکومت کا داخلہ منع ہے!
ہسپتال میں ڈاکٹر حاضر ہیں یا نہیں؟ دوائی مل رہی یا دلاسہ؟ سکول میں بچے پڑھ رہے ہیں یا گائے، بھینس بندھے ہیں؟
آپ کے خیال میں یہ مسئلے آپ کا منتخب مقامی نمائیندہ حل کر پائے گا؟
ایسا سوچنا بھی نہ، ضلع کے تعلیم اور صحت کے تمام معاملات سے منتخب نمائیندوں کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
اس نیک کام کے لئے لوکل گورمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت علیحدہ اتھارٹیز قائم کی جائیں گی۔ ہر ضلع میں ایک ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی اور ایک ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی بنے گی۔
جن کے تنخواہ دار سربراہ حکومت پنجاب براہ راست متعین کرے گی اور یہ اپنے اپنے شعبوں کے مختار کُل ہوں گے اور ان کا منتخب مقامی حکومتوں سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
اور اگر ان میں سے کسی کے خلاف آپ کو کوئی شکایت کرنی بھی پڑی تو صوبائی حکومت یا کمشنر، ڈپٹی کمشنر کے ذریعے کرنی پڑے گی۔
ترقیاتی فنڈ تو ملیں گے ہی نا؟
ضرور ملیں گے لیکن اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ان پر اختیار منتخب مقامی نمائندوں کا ہو گا تو اس غلط فہمی کو بروقت دور کر لینے میں ہی آپ کا فائدہ ہے۔
قانون کے تحت ایک لوکل گورنمنٹ کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس کے چیئرمین صوبائی وزیر لوکل گورنمنٹ ہوں گے جبکہ ممبران میں دو ایم پی اے حکومتی اور ایک اپوزیشن کا ہو گا۔
ان کے علاوہ صوبائی حکومت کے نامزد کردہ دو غیر منتخب ٹیکنو کریٹس بھی اس میں شامل ہوں گے اور سیکرٹری لوکل گورمنٹ پنجاب اس کمیشن کے بھی سیکرٹری ہوں گے۔
یہ کمیشن مقامی حکومتوں کے نمائندوں اور علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے کے درمیان وقتاً فوقتاً میٹنگز کروائے گا اور انہی میٹنگز میں یہ طے پائے گا کہ علاقے کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز کہاں اور کیسے خرچ کئے جائیں گے۔
عملی طور پر اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ان فنڈز پر اختیار قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کو ہی حاصل رہے گا۔ “ہاں”
مقامی حکومتوں کے نمائندوں، میئر وغیرہ کو کمیشن یہ بتا دیا کرے گا دستخط یا نشانِ انگوٹھا کہاں لگانا ہے۔

نافرمانی کی سزا
لوکل گورنمنٹ قانون میں اس امر کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی کہ منتخب مقامی حکومتیں فعال اور موئثر ہو سکیں لیکن مسلم لیگ (نواز)، جس نے یہ نیا قانون بنایا ہے، کو شاید پھر بھی خدشہ ہے کہ مقامی حکومتیں الیکشن جیتنے کے نشے میں اپنی من مانی کرنے کی جسارت کر سکتی ہیں۔
اس کا سدِباب کرنے کی ذمہ داری بھی لوکل گورمنٹ کمیشن کو سونپی گئی ہے۔
کمیشن کے اختیار میں ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کی کارکردگی پر نظر رکھے، چھاپے مارے، تحقیقات کرے اور حکومت کو سفارش کرے کہ فلاں میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین کو برطرف کریا جائے۔
کمیشن کی پہرے داری کو سہل بنانے کے لئے اسے سول کورٹ کے مساوی اختیارات دیئے گئے ہیں۔
یعنی جن مقامی نمائندوں کو عوام نے منتخب کیا ہو گا ان کی برطرفی کا اختیار کمیشن کو حاصل ہو گا۔ جیسے کچھ عرصہ قبل تک عوام کی منتخب کردہ اسمبلیوں کو توڑنا صدر کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوا کرتا تھا۔

حسرت ان غنچوں پہ ہے ۔ ۔ ۔
یوں تو مقامی حکومتوں کی عمر پانچ سال طے کی گئی ہے یعنی ستمبر 2015 میں منتخب ہونے والے مقامی نمائندے 2020 تک اقتدار میں رہ سکتے ہیں لیکن موجودہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی معیاد جون 2018 میں پوری ہوجائے گی۔
یوں ایم این اے اور ایم پی اے مقامی نمائندوں سے پہلے رخصت ہو جائیں گے۔
اب بڑوں کی غیر موجودگی میں چھوٹے کیا گُل کھلاتے ہیں خاص طور پر عام انتخابات 2018 کے دوران، یہ بھی ایک پریشانی تھی جس کا حل لوکل گورمنٹ ایکٹ کی آرٹیکل 126 میں مہیا کر دیا گیا ہے۔
اس شق کے مطابق صوبائی حکومت عام انتخابات سے قبل مقامی حکومتوں کو تحلیل کرنے کی مجاز ہے اور ان حکومتوں کے خاتمے کے بعد ان کے تمام اختیارات صوبائی حکومت کے تعینات کردہ ایڈمنسٹریٹرز کے حوالے کر دیئے جائیں گے۔
تمام بحث کا لب لباب یہ ہے کہ انتخابات کا میلہ تو سجے گا لیکن منتخب مقامی حکومتیں مکمل طور پر بے اختیار اور صوبائی بیورو کریسی کے رحم وکرم پر ہوں گی اور پھر ابھی وہ سنبھل بھی نہ پائیں گی کہ ان کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔

رپورٹ: طاہر مہدی

Leave a comment