Published On: Sat, Feb 21st, 2015

حکومت پنجاب میں پنچایتی نظام لانے کی خواہاں

Share This
Tags
وزیراعظم کی قائم کردہ نیشنل لیگل ریفارمز کمیٹی کے سربراہ چودہری محمد اشرف گجر ایڈووکیٹ نے گذشتہ ماہ پنچایتی نظام کے قیام پر غوروغوض کے لیے اجلاس طلب کیا۔ جس کا مقصد عوام کو سستا اور فوری انصاف مہیا کرنا اور دیوانی مقدمات کا جلد تصفیہ ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے دوسرے دور میں بھی پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس مجریہ 1998 میں ترمیم کر کے صوبہ بھر میں پنچایتی نظام قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ترمیم شدہ آرڈیننس کے مطابق دیہات کی سطح پر پنچایت اور بڑے شہروں میں زونل میونسپل کارپوریشنیں قائم کی جانی تھیں۔18 اپریل 1998 کو منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے قبل اس نئے پنچایتی نظام کے متعلق عوامی اور سیاسی حلقوں میں شکوک و شبہات جنم لینے لگے۔سیاسی حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت ’’نچلی سطح پر جمہوری عمل‘‘ کو اپنی گرفت میں لینا چاہتی ہے جبکہ حکومت کا موقف تھا کہ پنچایتی نظام اپنے روایتی مزاج کے مطابق کام کرے گا اور اس سے مقامی مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے میں مدد ملے گی۔
پنچایتی نظام کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ نظام سکندر اعظم کے ساتھیوں160نے ہمارے یہاں رائج کیا تھا۔ہندوستان کی سماجی زندگی میں اسJirga1 نظام کا کردار بڑا فعال رہا۔پنچایت جدید معنوں میں ایک جیوری تھی جو گاؤں کے اچھی شہرت رکھنے والے،ایماندار،معاملہ فہم اور خداترس ارکان پر مشتمل ہوتی تھی۔یہ جیوری گاؤں کے جھگڑوں کا باہمی رضامندی سے فیصلہ کرتی۔اس کے علاوہ مالی لین دین،قرض،زمین و پانی کی تقسیم،شادی بیاہ اور وراثت کے معاملات بھی طے کرتی تھی۔ یہ ’’ادارہ‘‘ ہمیشہ تغیرات زمانہ سے محفوظ رہا۔اس کی کامیابی کی بنیادی وجہ اس کا سادہ اور کم خرچ ہونا تھا۔پنچایت کے پاس فوجداری اختیارات کم تھے البتہ دیوانی معاملات کو نمٹانے کے اختیارات زیادہ تھے۔فریقین کو باقاعدہ اپیل کا حق حاصل تھا۔پنچایتی نظام کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر مہاتما گاندھی نے آزادی کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ ’’بھارت کی آزادی کی ابتدا نچلی سطح سے ہو گی۔ہر گاؤں پنچایت ری پبلک ہو گا۔اگر ہماری آزادی عوام کی آواز ہے تو پنچایت کو مکمل آئین کا حصہ بننا چاہیے۔پنچایت کے پاس جتنے اختیارات ہوں گے اتنا ہی لوگوں کے حق میں بہتر ہو گا‘‘۔بھارتی حکومت نے گاندھی جی کے بیان کی روشنی میں 1954 تک تمام صوبوں میں پنچایتی نظام نافذ کر دیا۔قیام پاکستان کے بعد مغربی پاکستان میں باقاعدہ پنچایت ڈائریکٹریٹ قائم کیا گیا۔پنچایتوں کے معاملات پر نظر رکھنے لیے پنچایت افسر اور اسسٹنٹ پنچایت افسر تعینات ہوتے تھے۔پنچایت میں کئے گئے فیصلوں کی قانونی حیثیت ہوتی تھی۔
سیاسی ماہرین کے مطابق پنجاب میں ’’پریا‘‘ اب بھی موثر ہے جس طرح کے پی کے میں ’’جرگہ‘‘ اور سندھ میں ’’کچہری‘‘ ’’ایک گاؤں کی حکومت‘‘ کی صورت میں کام کر رہی تھی۔پریا کے تمام ارکان کا انتخاب چونکہ لوگوں کی مرضی سے ہوتا تھا اس لیے اس کے فیصلے نہایت موثر ہوتے تھے۔ان ماہرین نے یاد دلایا کہ صدر جنرل ضیاالحق کے دور میں بھی مسجد کمیٹیاں،امانت کمیٹیاں اور زکوۃٰ کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں مگر یہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ان کمیٹیوں کے تمام ارکان حکومت خود نامزد کرتی تھی۔سیاسی ماہرین نے پنچایتی نظام کے نفاذ کے ممکنہ حکومتی مقاصد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس نظام کے ذریعے حکومت نہری نظام کو پرائیوٹائز کرنے کی راہ ہموار کر رہی ہے اور جاگیرداروں کو براہ راست اپنے کنٹرول میں لانا چاہتی ہے۔سیاسی ماہرین کے مطابق ن لیگ جونیجو حکومت کی طرز پر اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو فنڈز دینے کی بجائے اس نئے نظام کے ذریعے نوازنا چاہتی ہے اور یوں اپنی پولیٹیکل گراؤنڈ کو مضبوط بنا کر بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو توقع کے مطابق دیکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ان دانشوروں کے مطابق انگریز نے جو مخبری کا نظام برصغیر میں 1922 میں160رائج کیا تھا وہ دوبارہ اس نئے نظام کے ساتھ یہاں بھی شروع ہو جائے گا۔مغلیہ دور میں جس طرح اس نظام کے ذریعے لگان وصول کیا جاتا تھا اسی طرح موجودہ حکومت زرعی ٹیکس وصول کرے گی۔

محمد فیصل سلہریا
[email protected]

Displaying 1 Comments
Have Your Say
  1. ahmad says:

    intresting
    akbar

Leave a comment