Published On: Mon, Jul 13th, 2015

انصار عباسی صاحب! جنرل کیانی کے بھا ئیوں کامران کیانی اورامجد کیانی نے50کروڑ نہیں بلکہ 62کروڑ 40لاکھ کی کرپشن کی،نیب کے نوٹس

Share This
Tags

نیب کے نوٹس، لیکن کامران کیانی ملک سے باہر۔۔۔ایک اہم ترین کیس کی کہانی۔۔۔

سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے بھا ئیوںکی کرپشن کے گرد نیب کا گھیرا دن بدن تنگ ہو رہا ہے ۔فیکٹ میں جنرل کیانی کے بھا ئیوںکی کرپشن اور نیب کی انکوائری اور سمن دے کر طلب کئے جانے کی خبر 7مئی کو اپنے قار ئین کو دے چکا ہے تاہم ملک کے معروف صحافی انصار عباسی نے دوبارہ روزنامہ جنگ اوردی نیوز میں یہ خبر شا ئع کر دی ہے ۔ تاہم ان کی خبر کے حوالے سے کچھ حقا ئق سامنے لانا ضروری ہیں ۔
اس سے پہلے یہ بات بتاتے چلیں کی جنرل کیانی اور ان کے بھا ئیوںکی کرپشن کے معاملات فیکٹ ہیNAB-Pakistan سب سے پہلے سامنے لایا تھا ، ورنہ اس سے پہلے صرف افواہوں میں باتیں ہوتی تھیں۔ فیکٹ نے اس بارے میں سب سے زیادہ اور مستند تفصیلات شا ئع کیں ۔ انصار عباسی کی خبر بالکل درست تھی تاہم انہوں نے لکھا کہ جنرل کیانی کے بھا ئیوںنے50کروڑ کا غبن کیا ۔ یہ درست نہیں ہے بلکہ غبن کی رقم اس سے زیادہ ہے۔ یہ رقم 62کروڑ 40لاکھ روپے ہے جس کے بارے میں فیکٹ  7مئی 2015کو تفصیلات دے چکا ہے ۔ ہم یہاں انصار عباسی کی خبر کا متن بھی دے رہے ہیں کیونکہ ان کی خبر میں بھی بہت سے حقا ئق ہیں جن کا پتہ چلنا بہت ضروری ہے ۔
انسار عباسی کے مطابق ڈی ایچ اے اسلام آباد کے الاٹمنٹ سرٹیفکیٹس کی غیر قانونی فروخت کے کیس میں تفتیش کیلئے قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کامران کیانی کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ کامران کیانی کے خلاف نیب نے باضابطہ انکوائری شروع کر دی ہے۔ ان کی کمپنی الیسیم ہولڈنگز پاکستان لمیٹڈ پر ڈی ایچ اے فارم ہائوسز پروجیکٹس کے سرٹیفکیٹس کی الاٹمنٹس فروخت کرنے کا الزام ہے۔ یہ پروجیکٹ پہلے زیر غور تھا لیکن بعد میں اسے ختم کر دیا گیا تھا۔ الیسیم ہولڈنگز کے خلاف انکوائری کی اجازت 29 اپریل 2015ء کو دی گئی تھی اور اس کیس میں مبینہ طور پر 50 کروڑ روپے کے غبن کا الزام ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب نے گزشتہ ہفتے کامران کیانی کو نوٹس جاری کیے تھے۔ انہیں تفتیش میں شامل ہونے کیلئے کہا گیا ہے۔ نیب کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کامران کیانی کو پولیس کے ذریعے نوٹس بھجوایا گیا ہے۔ نیب کو معلوم ہوا ہے کہ کامران کیانی فی الوقت پاکستان میں نہیں ہیں لیکن جیسے ہی وہ وطن پہنچیں گے؛ انکوائری میں شامل ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈی ایچ اے اسلام آباد نے پہلے فارم ہائوس اسکیم شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کیلئے ایڈن کمپنی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جو اس اسکیم کیلئے زمین حاصل کرتی۔ لیکن، چونکہ زمین کا مطلوبہ رقبہ حاصل نہ کیا جا سکا، اسلئے ڈی ایچ اے نے یہ اسکیم چھوڑ ختم کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ ایڈن کمپنی نے زمین کے حصول کیلئے کامران کیانی کی کمپنی الیسیم ہولڈنگز کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اس کیلئے ایک فارمولا طے کیا گیا تھا جس کے تحت 32 کنال زمین کے مالک کو فارم ہائوس فراہم کیا جاتا۔ ایسے تمام مالکان کو الاٹمنٹ سرٹیفکیٹ جاری کیا جانا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈی ایچ اے کی جانب سے یہ اسکیم ختم کرنے کے باوجود، زمین کے مقامی مالکان کو اتھارٹی کے 180 سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے حالانکہ یہ زمین کبھی خریدی یا پھر حاصل ہی نہیں کی گئی تھی۔ اس سے ڈی ایچ اے پر بھاری ذمہ داریcorruption عائد ہوئی کہ پروجیکٹ ختم کیے جانے کے باوجود، 180 سرٹیفکیٹ جاری ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ تقریباً 120 سرٹیفکیٹ واپس لے لیے گئے لیکن اب بھی 50 کے قریب سرٹیفکیٹ متعلقہ مالکان کے پاس ہیں جو اب زمین کا قبضہ چاہتے ہیں۔ نیب کے ایک سینئر افسر نےبتایا ہے کہ کامران کیانی کو تمام سرٹیفکیٹس واپس لینا ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ تمام سرٹیفکیٹس واپس مل گئے تو معاملہ حل ہوجائے گا۔ بصورت دیگر ہمیں الیسیم ہولڈنگز کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ نیب کی جانب سے جنرل کیانی کے بھائیوں کے خلاف شروع کیا جانے والا یہ پہلا کیس ہے۔ سابق آرمی چیف کی ساکھ بہت اچھی تھی اور وہ قابل احترام بھی تھے لیکن ان کے بھائیوں کے رویے کی وجہ سے انہیں بطور آرمی چیف دورانِ ملازمت بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق جنرل کیانی کے چھوٹے بھائی کامران کیانی جے کے بی کنسٹرکشنز کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں۔ لاہور کے رنگ روڈ کا پروجیکٹ اسی کمپنی کے پاس تھا۔ کامران کیانی میڈیا کی نظروں میں 2009 اور 2010ء کے دوران اس وقت آئے جب اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ جنرل کیانی اتنے اچھے ہیں کہ جب انہوں نے اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے انہیں بتایا کہ ان کے بھائی کامران کیانی کی کمپنی کا کام معیار کے مطابق نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ کام کسی اور کے سپرد کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ کامران کیانی نے کھلی بولی میں یہ پروجیکٹ حاصل کیا تھا اور انہوں نے اپنے بھائی اور اس وقت کے آرمی چیف کا اثر رسوخ استعمال نہیں کیا تھا۔ اس کے برعکس، جنرل کیانی نے اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب سے کہا تھا کہ وہ کامران کیانی کو ان کا بھائی ہونے کی وجہ سے کوئی رعایت نہ دیں۔

فیکٹ رپورٹ

Displaying 1 Comments
Have Your Say
  1. verda says:

    ہمیں باہر بیٹھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ آکر تمام تر ثبوتوں کے باوجود بڑے لوگ کیسے باہر آ جاتے ہیں ۔ پاکستان میں واقعی ایک خونی انقلاب کی ضرورت ہے جس میں تمام سیاست دانوں اور کرپٹ لوگوں کو سڑکوں پر گھسیٹ کر مارا جائے۔ تب ہی اس ملک کے حکمرانوں کو عوام کا خیال آ ئے گا اور پاکستان کی حالت بدلے گی ۔
    وردہ عمران،سویڈن

Leave a comment