کیا قومی کرکٹ ٹیم عالمی کپ جیت پائے گی؟
کرکٹ کو گیم آف جنٹلمین کا نام دیا گیا ہے ہر چار سال بعد اس کا میگا ایونٹ منعقد ہوتا ہے جس میں عالمی چیمپئن کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اب تک اس کے دس عالمی مقابلے منعقد ہو چکے ہیں جس میں آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز، پاکستان، انڈیا اور سری لنکا کی ٹیمیں کامیاب و کامران ہو چکی ہیں۔ آسٹریلیا نے سب سے زیادہ چار مرتبہ، ویسٹ انڈیز اور بھارت نے دو دو مرتبہ جبکہ پاکستان اور سری لنکا نے ایک ایک مرتبہ عالمی کپ ٹورنامنٹ جیتنے کا اعزاز حاصل کر رکھا ہے۔ 11 ویں عالمی کپ کا میلہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں 14 فروری سے سجنے جا رہا ہے۔ یکم فروری کے پہلے ہفتے میں تمام ٹیمیں اپنا پڑاؤ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ڈال لیں گی، اس مرتبہ عالمی چیمپئن کا تاج کس ملک کے سر سجتا ہے اس بات کا فیصلہ 29 مارچ کو ہونے والے فائنل میچ میں ہوگا۔ میگا ایونٹ کے آغاز سے تقریباََ ایک ماہ قبل تمام ممالک نے اپنے اپنے 15 رکن حتمی سکواڈ کے نام فائنل کر کے کرکٹ کی عالمی تنظیم کو بھجوا دیئے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی گذشتہ دنوں سلیکشن کمیٹی کی سفارش پر 15 کھلاڑیوں کے ناموں کی فہرست آئی سی سی کو بھجوا دی ہے۔ چیف سلیکٹر معین خان کی زیر صدارت کام کرنے والی سلیکشن کمیٹی کے لئے یہ ایک مشکل ٹاسک تھا جس کے لیے چیف سلیکٹر معین خان سمیت تمام ارکان نے بہترین کھلاڑیوں کا چناؤ کیا۔ سلیکشن کمیٹی کے علاوہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان اور ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی کو بھی اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے جنہوں نے سلیکشن کمیٹی کو فری ہینڈ دیا۔ سابق چیئرمین اور موجودہ پی سی بی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے چھ ماہ قبل جو غیر جانبدارانہ سلیکشن کمیٹی تشکیل دی تھی اس نے ان کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے کھلاڑیوں کا انتخاب کرتے ہوئے علاقائی تعصب کو بلائے طاق رکھا۔ نجم سیٹھی کا گورننگ بورڈ میں مثبت کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں پوری قوم پر امید ہے کہ جب نجم سیٹھی آئی سی سی صدر کا عہدہ سنبھالیں گے تو پاکستان کا سبزہلالی پرچم مزید سربلند کرنے کے لیے وہ کئی اچھے عملی اقدامات کریں گے۔
عالمی کپ ٹورنامنٹ کھیلنا ہر کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے سلیکشن کمیٹی کے لیے یہ بڑا ہی مشکل کام تھا کہ وہ کسے ٹیم میں رکھے اور کسے ٹیم سے ڈراپ کرئے۔ موجودہ 15 رکنی سکواڈ بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ اگر اس میں کسی کھلاڑی کو جگہ نہیں بھی مل سکی ہے اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ اس کھلاڑی کی کرکٹ ختم ہو گئی ہے۔ ایک سال بعد ٹی ٹونٹی کا عالمی کپ ٹورنامنٹ ہونا ہے وہ کھلاڑی مزید محنت کریں انشاااللہ انہیں بھی قومی سکواڈ میں جگہ مل جائے گی۔ بہر کیف کرکٹ حلقوں کی جانب سے سلیکشن کمیٹی کے فیصلے کو سراہا گیا ہے۔ اس مرتبہ ایک اچھی بات یہ بھی ہوئی کہ سلیکشن کمیٹی کے ارکان نے پی سی بی ہیڈ کوارٹر میں ڈیرے ڈالنے کی بجائے کراچی میں اکھٹے ہو کر تمام فیصلے کئے۔ اعلان کردہ 15رکنی سکواڈ کو بہت زیادہ تجربہ کار نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں شامل ایک بھی بلے باز کو میگا ایونٹ میں سنچری بنانے کا اعزاز حاصل نہیں ہے۔ کپتان مصباح الحق 84 رنز کے ساتھ ٹاپ سکورر ہیں جبکہ 7 کھلاڑی ایسے ہیں جنہیں پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کے سکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ جنید خان 2011 ء کے عالمی کپ کے موقع پر قومی سکواڈ کا حصہ ضرور تھے لیکن انہیں کوئی میچ کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ چار سال بعد ہونے والے اس ایونٹ میں جنید خان کا شمار پاکستان کے اہم ترین باؤلرز میں ہوتا ہے۔ بوم بوم شاہد خان آفریدی میگا ایونٹ کھیلنے والے قومی سکواڈ کے سب سے تجربہ کار کھلاڑی ہیں جو 2015 ئمیں اپنا پانچواں اہم ایونٹ کھیلنے جا رہے ہیں۔ میگا ایونٹ کی تیاری کے لئے پی سی بی نے کھلاڑیوں کے فزیکل فٹنس ٹیسٹوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے تیسرے مرحلے میں ابھی 8 سے 10 کھلاڑیوں کا ٹیسٹ ہونا باقی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان جن کی کوششوں سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے دروازے کھلنا شروع ہو گئے ہیں، کا کہنا ہے کہ انہوں نے سلیکشن کمیٹی کے کسی کام میں کوئی مداخلت نہیں کی ہے۔ انہوں نے بھی ورلڈ کپ کے سکواڈ کو بہترین قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے کھلاڑی ون یونٹ ہو کر کھیلے تو میگا ایونٹ میں اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ 1992ء کے عالمی کپ ٹورنامنٹ میں بھی پاکستان ٹیم میں زیادہ سٹار کھلاڑی نہیں تھے۔ کپتان عمران خان کو یقین تھا کہ وہ نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم سے نتائج حاصل کر سکتے ہیں لہذا انہوں نے ورلڈ کپ جیت لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سلیکشن کمیٹی نے کپتان مصباح الحق اور ہیڈ کوچ وقار یونس کے ساتھ مشاورت کر کے ٹیم کا انتخاب کیا ہے۔
عالمی کپ کھلاڑیوں کی فزیکل فٹنس پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے جس کے مطلوبہ معیار کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیر اہتمام کھلاڑیوں کی فزیکل فٹنس کو بہتر بنانے کے لیے ٹیسٹوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ تین مراحل میں قومی کھلاڑیوں کی فزیکل فٹنس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ 60 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور مزید اسے 70 فیصد تک لے جایا جائے گا۔ میگا ایونٹ کے لیے منتخب کھلاڑیوں میں سے بعض کھلاڑیوں کا فزیکل فٹنس ٹیسٹ ابھی رہتا ہے جس کا انعقاد 13 جنوری سے شروع ہونے والے تربیتی کیمپ سے پہلے کر لیا جائے گا۔ اعلان کردہ 15رکنی ٹیم 2 اوپنرز، 5 مڈل آرڈرز بیٹسمین، 2 سپنرز اور5 فاسٹ باولرز پر مشتمل ہے۔ کھلاڑیوں میں کپتان مصبا ح الحق، احمد شہزاد، محمد حفیظ، سرفراز احمد، یونس خان، حارث سہیل، عمر اکمل، صہیب مقصود، شاہد آفریدی، یاسر شاہ، محمد عرفان، جنید خان، احسان عادل، سہیل خان اور وہاب ریاض شامل ہیں۔ قومی ٹیم اپنا پہلا میچ بھارت کے خلاف ایڈیلیڈ میں 15 فروری کو کھیلے گی جبکہ ورلڈ کپ سے قبل نیوزی لینڈ کے خلاف دو ایک روزہ میچوں کی سیریز رکھی گئی ہے جس سے کھلاڑیوں کو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے موسم میں ایڈجسٹ ہونے میں مدد ملے گی۔ چیف سلیکٹر معین خان کا کہنا ہے کہ بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم منتخب کی گئی ہے۔ احمد شہزاد اور محمد حفیظ ٹیم میں بطور اوپنر کھیلیں گے جبکہ سرفراز کو ریزور اوپنر کے طور پر رکھا گیا ہے۔ورلڈ کپ کی تیاری کے لئے پاکستان کرکٹ ٹیم کا مختصر دورانیہ کا تربیتی کیمپ 13جنوری سے قذافی سٹیڈیم لاہور میں شروع ہوگا۔ پانچ روزہ کیمپ کے لیے کھلاڑیوں کو 12 جنوری کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ تربیتی کیمپ کے اختتام پر قومی ٹیم طے شدہ شیڈول کے مطابق دو ون ڈے میچز کھیلنے کے لئے 21جنوری کو نیوزی لینڈ روانہ ہوگی۔ ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل قومی ٹیم 9 ایک روزہ میچز کھیلے گی جس میں ورلڈ کپ وارم اپ میچز بھی شامل ہیں۔ ورلڈ کپ کی تیاری کے لئے قذافی سٹیڈیم لاہور میں بنائی گئی وکٹوں پر نیٹ لگانے کا آغاز ہو گیا جبکہ تربیتی کیمپ کے باقاعدہ آغاز سے قبل لاہور میں موجود کھلاڑیوں نے پریکٹس کا آغاز کر دیا ہے۔
چودھری اشرف