Published On: Wed, Aug 27th, 2014

پاک بھارت بات چیت منسوخ ہونے کی وجہ کیا ہے؟

Share This
Tags
مودی اچھی طرح جانتے ہیں کہ نواز شریف گھریلو محاذ پر حکومت مخالف مظاہروں کی وجہ سے کئی طرح کی مشکلات میں گھرے ہیں،اس لئے بھارت نے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کیلئے یہ کھیل کھیلا
وسیم شیخ
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اپنی حلف برداری تقریب میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو بلا کر وزیراعظم نریندر مودی نے دنیا میں جتنی تعریف پائی تھی اب پاکستان سے بات چیت منسوخ کرنے کے ان کے فیصلے نے دنیا کواتنا ہی حیران کر دیاہے۔ نواز شریف جب ہندوستان گئے تھے تو انہوں نے نہ تو کشمیر کا مسئلہ اٹھایا تھا اور نہ ہی وہ کسی حریت لیڈر سے ملے تھے۔حریت لیڈروں سے بات چیت نہ کرنے کی وجہ سے اس بے بات چیت کے لئے زمین تیار ہوئی لیکن ہندوستان کے تازہ فیصلے سے بات چیت کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔
ہندوستان کے اس فیصلے کی وجہ کیا ہے؟
مودی حکومت نے پاکستان سے مزاکرات ختم کرنے کا فیصلہ حریت رہنما شبیر شاہ اور دہلی میں پاکستان ہائی کمشنر عبدالباسط کی ملاقات کے بعد کیا ہے۔ اس قدم سے دونوں ممالک کے درمیان خارجہ سیکریٹریوں کی بات چیت منسوخ ہو گئی ہے بلکہ رکی ہوئی بات چیت کی بحالی کے امکانات پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے لیکن اس pkکی وجوہات کیا ہیں؟ یہ مودی حکومت کی ناتجربہ کاری ہے یا پھر وہ کسی دباؤ میں ہیں۔ ہندوستان وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان ہائی کمشنر کی حریت لیڈروں سے ملاقاتیں، ناقابل قبول ہیں اور یہ اس مثبت سفارتی عمل کو کمزور کرتی ہیں جس کی شروعات وزیراعظم نریندر مودی نے بطور وزیراعظم اپنی مدت کے پہلے دن کی تھی۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایسی ملاقاتوں کو ہندوستان کے اندرونی معاملات میں پاکستان کی مداخلت قرار دیا ہے لیکن تاریخ کو ٹٹولا جائے تو اس سے پہلے بھی دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے موقع پر حریت لیڈروں کی ملاقاتیں پاکستان کے ہائی کمشنر وزیر خارجہ اور یہاں تک کہ صدر سے بھی ہوتی رہی ہے اور ہندوستان نے کبھی انہیں سفارتی مذاکرات کے ایجنڈے میں رکاوٹ نہیں مانا ۔
پرانا ہے یہ سلسلہ
15 اپریل 2005 ء کو ہندوستان کے وزارت خارجہ سے جب پوچھا گیا کہ دہلی میں وزیراعظم سے ملنے سے پہلے حریت لیڈروں سے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی ملاقات پر ہندوستان کو کیا کوئی مسئلہ ہے ؟ اس پر انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان لیڈر آتے ہیں وہ حریت رہنماؤں سے ملتے ہیں، ہم ایک جمہوری ملک ہیں، ہمیں اس طرح کی ملاقاتوں سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اس سے پہلے آگرہ میں اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور پرویز مشرف کی سربراہی اجلاس سے پہلے حریت لیڈروں نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے دئیے گئے ضیافت میں حصہ لیا تھا۔ یہی نہیں دہلی میں 2012ء میں ہوئی دونوں ممالک کی داخلہ سطحی بات چیت سے پہلے حریت لیڈر پاکستانی ہائی کمشنر سے ملے تھے۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھی ان سے ملاقات کی تھی جب کہ نومبر 2012ء میں ایشیا یورپ میٹنگ میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے امور خارجہ کے مشیر نے بھی حریت رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت وزیر خارجہ سلمان خورشید نے سرتاج عزیز کی حریت لیڈروں سے اس ملاقات پر تنقید کی تھی لیکن حکومت نے اسے طول نہیں دیا تھا۔
پھر آخردباؤ کیا ہے؟
تو پھرسوال یپ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی ہی ایک ملاقات کو بہانہ بنا کر مودی حکومت کی ضرورت سے زیادہ ردعمل کو کیسے سمجھا جائے؟ کہا جا سکتا ہے کہ کنٹرول لائن پر بار بار جنگ بندی کے مبینہ خلاف ورزی کے واقعات کی وجہ سے حکومت پر دباؤبڑھا لیکن وزیر دفاع اس کا ذکر اس ماہ کے آغاز میں اسی وقت ہی کر چکے ہیں جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ دونوں ممالک کے خارجہ سیکریٹریوں کی کسی معاملے پر بات ہو گی۔ مودی کے فیصلے کی اصل وجہ اعتماد کی کمی اور سفارتی محاذ پر تجربہ کی کمی ہو سکتی ہے وہیں ان پر مختلف مسائل کو لے کر سنگھ پریوار کا دباؤ بھی ہو سکتا ہے۔ کانگریس نے بھی اس مسئلے کو اچھالا اور پھر الیکٹرانک میڈیا نے بھی خوب دکھایا۔ مودی اچھی طرح جانتے ہیں کہ نواز شریف گھریلو محاذ پر حکومت مخالف مظاہروں کی وجہ سے کئی طرح کی مشکلات میں گھرے ہیں، باوجود اس کے ہندوستان نے یہ فیصلہ لیا ہے۔ یہی نہیں نواز شریف جب مودی کی حلف برداری تقریب میں حصہ لینے کے لئے دو دن کے ہندوستان آئے تو انہوں نے نہ تو کشمیر کا مسئلہ عوامی طور پر اٹھایا تھا اور نہ ہی وہ کسی حریت لیڈر سے ملے تھے۔
اپنے دورہ بھارت کے دوران نواز شریف حریت لیڈروں سے شاید جان بوجھ کر ہی نہ ملے ہوں لیکن ممکن ہے کہ وہ دونوں ممالک کی کسی بھی بات چیت سے پہلے حریت رہنماؤں اور پاکستانی ہائی کمشنر کی ملاقات کی روایت کو توڑ کر پاکستان میں اپنی پریشانیاں اور نہیں بڑھانا چاہتے ہوں۔ مودی حکومت نے اپنے قدم پیچھے ہٹا کر مستقبل میں بات چیت کو لے کر اچھے معیار طے کر دئیے ہیں۔ اتنے اونچے کہ وہ متعلقہ ہی نہ ہوں۔ اونچے اس لیے بھی کیونکہ پاکستان میں کسی لیڈر کے لئے عوامی طور پر یہ کہنے کا تصور کرنا ہی مشکل ہے کہ وہ حریت کے رہنماؤں سے نہیں ملے گا اور غیر متعلقہ اس لئے کہ اس طرح کی ملاقاتوں سے جموں کشمیر میں سیاسی علاقاتی اور فوجی جمہود میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔
***

 

Leave a comment