Published On: Thu, Aug 18th, 2011

سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کیلئے نئے صوبے بناناچاہتی ہیں

Share This
Tags

یہ بات مقام افسوس ہے کہ قومی جماعتیں کہلانے والی پاکستان کی چار بڑی سیاسی جماعتیں سندھیت، پنجابیت، مہاجریت اور پختونیت کے پرچم لیے کھڑی ہیں

ایم ارشد
سیاسی جماعتوں اگرچہ آئندہ انتخابات کی تیاریاں تقریباً تقریباً شروع کر دیں اور سیاست کا مرکزی نقطہ اس وقت نئے صوبوں کے قیام سے متعلق بحث بن چکی ہے۔ ماہرین اگر چہ اس وقت ملک میں نئے صوبوں کے قیام کی تشکیل انتہائی ناگزیر قرار دے رہے ہیں تاہم انکے مطابق سیاسی جماعتیں اس عمل کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔
یہ حقیقت بھی ہے کہ پیپلزپارٹی کی تمام توجہ مسلم لیگ (ن )کو کمزور کرنے کیلئے سرائیکی صوبے پر مرکوز ہے تو مسلم لیگ (ن) عدلیہ کے فیصلوں میں حکومتی تاخیر اور بڑھتی ہوئی بدعنوانی کے تاثر کا بھر پور فائدہ اٹھاکر جلد از جلد نئے انتخابات کیلئے راہ ہموار کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ گوکہ اس وقت ملک میں سرائیکی، ہزارہ اور بہاولپور کو صوبہ بنائے جانے کیلئے منظم طریقے سے تحاریک چلائی جا رہی ہیں۔سرائیکی صوبے کی حمایت میں وزیراعظم کے علاوہ دیگر قیادت کے بیانات معمول بن چکے ہیں۔ اس سے یہ تاثر واضح ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کسی بھی صورت نئے صوبے کی تشکیل کیلئے تیار ہے۔ بظاہر حکمراں جماعت کی قیادت کے بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی رواں ماہ میں سرائیکی صوبے کے حوالے سے اعلان کردے گی تاہم ماہرین کے مطابق پنجاب میں صوبے کے قیام کیلئے اسے قومی اسمبلی و سینیٹ میں دو تہائی اور پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنا ہو گی۔ حکومت کو اس کیلئے پہلے مرحلے میں پنجاب اسمبلی سے صوبے کی قرارداد منظور کرانی ہو گی جس میں اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اگرچہ بہتر انتظامیہ اور عوامی مسائل کے حل کیلئے ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ نئے صوبے بنائے جائیں تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نئے صوبے کے قیام سے متعلق عام سوچ یہی ہے کہ اس عمل سے ملک کمزور ہوگا اور جب بھی ملک کے کسی علاقے سے ایسا مطالبہ کیا جاتا ہے تو بہت سے لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ اگر پنجاب میں نئے صوبوں کی بات کی جائے تو مسلم لیگ (ن) کو برا لگتا ہے۔ ہزارہ کو صوبہ بنانے کی بات ہوتی ہے تو اے این پی اور دیگر جماعتیں اسے ملک کے خلاف سازش قرار دیتی ہیں اور اگر کراچی کی بات کی جائے تو پیپلزپارٹی اور دیگر قوم پرست جماعتوں کی جانب سے سخت بیانات آنے لگتے ہیں، حالانکہ نئے صوبوں کے حامی مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت میں قیام کے وقت 13 صوبے تھے اور 7 یونٹ (آزاد)کو ملا لیا جائے تو 35 صوبے بنتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار شاہنواز فاروقی کے مطابق آج پاکستان میں ہر طرف لسانی اور صوبائی تعصبات کے سانپ پھنکارتے پھررہے ہیں۔ سندھ میں آصف علی زرداری نے اپنی ٹوپی کو سندھی تشخص اور سندھی ثقافت کی علامت کے بجائے سندھی تعصب کا استعارہ بنادیا ہے۔ سندھ کے سینئر وزیر ذوالفقار مرزا نے کراچی میں مہاجروں اور ایم کیو ایم کے خلاف تقریر کی۔ یہ تقریر آصف زرداری کی قیادت میں کام کرنے والی پیپلز پارٹی کی سیاست بازی کا عکس اور آئندہ انتخابات جیتنے کی حکمت عملی کا حاصل ہے۔ اس حکمت عملی کا لب لباب یہ ہے کہ اب سیاست اہلیت اور خدمت کی بنیاد پر نہیں، لسانی اور صوبائی تعصب کی بنیاد پر کرنی ہی، اور دیہی سندھ کے لوگوں کو قوم پرستی کے بخار میں مبتلا کیے رکھنا ہے۔ نواز لیگ ملک کی دوسری بڑی جماعت ہے۔ اس وقت اس جماعت کے دو چہرے ہیں۔ میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف۔ میاں نوازشریف کا چہرہ امریکہ نواز ہے۔ شہبازشریف کا چہرہ امریکہ مخالف۔ نوازشریف جرنیلوں کے خلاف ہیں اور میاں شہبازشریف جنرل کیانی کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ نوازشریف وفاق کی علامت ہیں اور میاں شہبازشریف ’’پنجاب کی علامت‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ لوڈشیڈنگ کے سلسلے میں پنجاب سے زیادتی ہورہی ہے اور اسے جان بوجھ کر لوڈشیڈنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ بات انہوں نے اْس وقت کہی جب ملک کی صنعتی شہہ رگ کراچی میں آٹھ سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ میاں شہبازشریف کی ’’صوبائیت‘‘ کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے پنجاب کی تقسیم کے خیال پر ردعمل میں سندھ کی تقسیم کا تصور پیش کیا اور ثابت کیا کہ ان کی نفسیات ’جیسے کو تیسا‘ کے خیال سے آگے نہیں جارہی۔ میاں شہبازشریف کی صوبائیت کا تازہ ترین شاہکار ان کا یہ بیان ہے کہ پنجاب میں جان بوجھ کر چینی کی قلت پیدا کی جارہی ہی، اور اگر پنجاب کو چینی کی مناسب مقدار میں فراہمی کو یقینی نہ بنایا گیا تو وہ کھلی منڈی سے چینی اٹھا لیں گے۔ تجزیہ کیا جائے تو میاں شہبازشریف کی نفسیات اْس دور کی یاد دلارہی ہے جب میاں نوازشریف پنجاب بینک اور پنجاب ٹی وی کے تجربے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ غور کیا جائے تو میاں شہبازشریف کے بیانات میں اتنا پنجاب پنجاب ہورہا ہے کہ ان کی شخصیت پنجابی قوم پرست کی شخصیت بنتی جارہی ہی، اور یہ بھی اقتدار کا تماشا ہی، آئندہ انتخابات کا کھیل ہے۔
ایم کیو ایم کا معاملہ تو بالکل ہی واضح ہے۔ وہ خود کو متحدہ قومی موومنٹ کہتی ہی، لیکن جیسے ہی پیپلزپارٹی سے اس کی کشمکش شروع ہوئی کراچی کی دیواروں پر مہاجر صوبے کے نعرے نمودار ہوگئی، اور ذوالفقار مرزا کے بیان کے خلاف ایم کیو ایم کا ردعمل 124 انسانوں کو نگل گیا۔ لیکن ایم کیو ایم کا کمال یہ ہے کہ اپنے پس منظرکے باوجود اسے ہمیشہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ پیپلزپارٹی گزشتہ 22 برسوں میں تین بار اقتدار میں آئی ہے اور تینوں بار اس نے ایم کیو ایم کو شریکِ اقتدار کیا ہے۔ یہی معاملہ نواز لیگ کا ہے۔ وہ دوبار اقتدار میں آئی ہے اور اس نے دونوں بار ایم کیو ایم کو اقتدار کے کیک سے مناسب حصہ فراہم کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان تینوں کے درمیان آخر تعصبات کے سوا کیا قدر مشترک ہی؟ یہی قدرِ مشترک انہیں تمام تضادات کے باوجود ہم آہنگ کرتی ہے۔
اس سلسلے میں اے این پی کا ذکر ناگزیر ہے۔ اے این پی گزشتہ انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے بروئے کار نہ آنے سے اقتدار میں آئی، اور اس کے اقتدار کی جڑیں پختون قوم پرستی میں پوری طرح پیوست ہیں۔ یہ عصر حاضر میں پاکستان کی چار بڑی جماعتوں کی سیاست کا عالم ہے۔ اس سیاست میں لسانی اور صوبائی تعصبات مرکزی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ اور اس کی اصل حقیقت کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں تعصبات کی سیاست مسجد میں شراب کا کاروبار کرنے کی طرح ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے اور تعصبات کی سیاست لاالہٰ الا اللہ کی نفی ہے۔
پاکستان میں تعصبات کی سیاست کرنے والے خود کو جدید، لبرل اور روشن خیال کہتے ہیں، لیکن یہ لوگ نہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں، نہ ہی وہ عصرِ حاضر سے ہم آہنگ ہیں۔ عصر حاضر کا مرکزی رجحان عالمگیریت ہے۔ اس تصور نے یورپی اتحاد اور افریقی اتحاد جیسے تجربات پیدا کیے ہیں۔ لیکن ایک ایسے دور میں جب لامذہبیت بھی اتحاد پیدا کررہی ہی، پاکستان کی چار بڑی جماعتیں سندھیت، پنجابیت، مہاجریت اور پختونیت کے پرچم لیے کھڑی ہیں۔ کیا یہی جدیدیت ہی؟ کیا یہی روشن خیالی ہے؟
Displaying 1 Comments
Have Your Say
  1. Bulbul says:

    Nice .mai is bat sai mutfik ho .lsaneat or koom prsti ke siast sirf apnai ap ko iktadar mai rkhnay ka bahana hai.khuda hm ko lsaneat or kom prsti sai bchay

Leave a comment