Published On: Mon, Jul 6th, 2015

پاکستان میں خیالات پر بات نہیں کی جاتی، افراد پر توجہ دی جاتی ہے، ایک غدار کی باتیں

Share This
Tags
امریکہ کے شہر نیویارک کے مرکزی علاقے میں واقع عوامی ہال انسانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان اس غدار کی تقریر سننے کے لئے بیتاب تھے۔ اسٹیج سج چکا تھا۔ ہر طرف تالیوں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ غدار جب تقریر کرنے کے لئے کرسی سے اٹھ کر اسٹیج پر پہنچا تو ہزاروں نوجوانون نے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا۔ تقریر کے تعارفی کلمات میں غدار نے کہا۔ ’’مجھے میرے اپنے ملک میں غدار کہا جاتا ہے لیکن اس کافر سرزمین پر میں ایک پروفیسر ہوں۔ یہاں کے انسان میری بہت عزت کرتے ہیں۔ حاضرین آپ مجھے غدار کہیں ،امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی ائے کا ایجنٹ سمجھیں یا کچھ اور، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ صرف اتنی سی گزارش ہے کہ میرے خیالات کو غور سے سنیں۔ کہا جاتا ہے کہ جو اچھے ذہن ہوتے ہیں وہ خیالات پر بات کرتے ہیں۔ جو ان سے کمتر ہوتے ہیں، وہ افراد پر بات کرتے ہیں۔ پاکستان کے انسانوں کے بارے میں بات کی جائے تو وہاں خیالات پر بات نہیں کی جاتی، افراد پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ پاکستان کا معاشرہ افراد میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ فلاں اس میں یہ خرابی ہے۔ فلاں اچھا ہے۔ فلاں برا ہے۔ بس یہی باتیں عوام میں اور خواص میں سننے کو ملتی ہیں۔ کون کیا کہہ رہا ہے؟ اس سے نفرت اور حسد کئے بنا اس کے خیالات کو سننا چایئے کیونکہ خیالات اہم ہوتے ہیں۔ اگر پاکستان میں نیا جہاں پیدا کرنا ہے تو وہ خیالات سے پیدا ہوگا، سنگ وخشت سے نہیں۔ اگر کوئی 1767ء میں کہتا کہ ایک نظریہ امریکہ ہے، جس ajmal shabirطرح پاکستان میں ایک نظریہ پاکستان ہے اور جو نظریہ امریکہ سے اختلاف کرے گا وہ غدار ہے۔ اور جونظریہ امریکہ سے غداری کرے گا اس پر ’غداری ‘کا مقدمہ چلے گا۔ اور اگر اس سے کچھ زیادہ بات ہوگئی تو پھر اس کو گولی مار دی جائے گی۔ ملک بدر کردیا جائے گا۔ ملک میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اور جیسے پاکستان میں کہا جاتا ہے، ’اس کی زبان کھینچ لی جائے گی‘۔۔۔ اگر یہ سب کچھ نظریہ امریکہ کے ساتھ ہوتا تو آج امریکہ میں کوئی تبدیلی نہ آتی۔ کوئی امریکہ کا رخ نہ کرتا اورامریکہ میں کہیں پر بھی کوئی غیر ملکی نہ ہوتا۔ پرانے قانون کے مطابق صرف یورپ کے انسان ہی امریکہ کی شہریت لے سکتے۔ امریکہ امریکہ اس وجہ سے بنا کہ وہاں نئے نئے خیالات اور معاملات پر بحث و مباحثہ جاری رہا۔ اب بھی امریکہ میں بہت سے جدید مسائل پر آزادانہ بحث جاری ہے۔ یقیناًوہاں پر ایسی چیزوں پر بات ہورہی ہے جو نئے خیالات ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں معاشرہ بدلتا جارہا ہے۔ ساتھ ساتھ قانون بھی بدلتے جارہے ہیں۔ قانون کے بدلنے کے ساتھ ساتھ امریکی اور یورپی معاشروں کی ہیئت اور کیفیت بھی بدلتی جارہی ہے۔ غدار اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار کئے جارہا تھا۔ اسے معلوم تھاکہ وہ امریکہ میں ہے۔ وہ محفوظ ہے، اسے کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔
تقریر جاری رکھتے ہوئے غدار نے کہا کہ ’’انیس سو انچاس میں جب چین میں انقلاب آیااور کمیونسٹوں نے چین پر اپنی ھکومت قائم کر لی تو امریکہ نے اس وقت اعلان کردیا تھا کہ انہیں چین میں کمیونسٹوں کی حکومت قبول نہیں۔ اس وقت امریکہ نے چین کو تسلیم نہ کیا۔ 1949ء سے 1974ء تک امریکہ نے چین کو تسلیم نہ کیامگر پھر انیس سو چوہتر میں نہ صرف قبول کیابلکہ چین سے اس قدر اچھے تعلقات قائم کر لئے کہ آج امریکہ کا قریب ترین دوست چین ہے۔ اس کے نتیجے میں اب چین میں بھی تبدیلی آگئی ہے۔آج دنیا کے ارب پتیوں کی فہرست میں زیادہ تر افراد کا تعلق چین سے ہے۔ یہ تبدیلی امریکہ اور چین میں اس طرح آئی ہے کہ وہاں خیالات پر بحث جاری رہی ہے۔ خیالات پر بحث جاری نہ رہتی تو آج امریکہ اور چین دنیا کے طاقتور ملک نہ ہوتے۔ امریکہ کے سابق صدر رچرڈ نکسن نے 1968ء میں صدارتی انتخابات لڑنے سے قبل ایک مقالہ لکھا تھاجس میں انہوں نے کہا تھا، ’’چین ایک ارب لوگوں کا ملک ہے۔امریکہ کب تک اسے تسلیم نہیں کرے گا۔امریکہ کو چین کو تسلیم کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔اس طرح امریکی مصنوعات کو ایک ارب کی منڈی مل جائے گی۔اس منڈی میں سستی اور معیاری چیزیں بننا شروع ہوجائیں گی جو امریکہ میں عوام کو کم قیمت پر میسر آسکیں گی۔ نکسن کے اس مقالے کے بعدہنری کسنجر نے 1970ء میں امریکہ کا خفیہ دورہ کیا۔اس دورے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ہنری کسنجر کے اس دورے کی وجہ سے چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات قائم ہوئے تھے۔ غدار کا کہنا تھا کہ جب تک عوام پاکستان میں اس کھلی بحث کو شروع نہیں کریں گے کہ پاکستان کا مفاد کیا ہے ؟بحث یہ ہونی چایئے کہ مفاد ہے کیا؟مفاد پہلے سے طے نہیں کیا جانا چاہیئے۔ پاکستا ن کے لئے اچھا راستہ کیا ہے، اس پر گفتگو جاری رہنی چاہیئے۔غدار نے آواز بلند کرتے ہوئے کہا ’’پاکستان اس وقت کہاں کھڑا ہے۔پاکستان ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔پاکستان کی آبادی دنیا کے چھ بڑے ملکوں میں شامل ہے۔ پاکستان کی بیس کروڑ آبادی میں بارہ کروڑ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اکیس سال سے کم عمر آبادی کا بیالیس فیصد حصہ کسی اسکول نہیں جاتا۔ اس وقت پاکستان میں اسکول انرولمنٹ اٹھاون فیصد ہے جب کہ اس کے مقابلے میں بھارت کی بیانوے فیصد،بنگلہ دیش کی چھیانوے فیصد،سری لنکا کی اٹھانوے فیصد ہے۔ میں غدار ہوں اس وجہ سے یہ باتیں کرتا ہوں۔ یہ باتیں کرتا ہوں تو مجھے جاسوس کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میں نظریہ پاکستان کا دشمن ہوں۔ اسی طرح اگر میں مذہب پر اپنے خیالات ظاہر کرتا ہوں تو ارتداد کا مرتکب ہوجاتا ہوں۔ پاکستان میں آزاد فکر اور آزاد بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ صرف اچھی اچھی باتیں کرنے سے پاکستان میں کچھ اچھا ہونے والا نہیں ہے۔ پاکستانیوں کو مسئلہ سمجھنا پڑے گا۔ تشخیص کے بغیر علاج ممکن نہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔یہ نئے نئے نظریات اور خیالات کا دور ہے‘‘ ۔ حاضرین توجہ سے اس کی باتیں سنے جارہے تھے۔ غدار نے مزید کہا کہ اقبال ہائیڈل برگ یونیورسٹی اور کیمبرج کے تعلیم یافتہ تھے۔ جناح سولہ سال کی عمر میں برطانیہ وکالت پڑھنے گئے۔ اس زمانے میں بھی تو لوگ باہر سے پڑھ کر آتے تھے اور ان کی بڑی عزت ہوتی تھی لیکن اب جو باہر سے تعلیم حاصل کرکے آئے وہ غدار ہے، غیر ملکی ایجنٹ ہے۔ جو کوئی باہر سے نیا خیال لیکر آجائے، وہ مذہب کا دشمن بنادیا جاتا ہے۔۔۔ او بھائی وہ کون ہے، اس کو چھوڑیں، ۔آپ اس کے خیال اور اس کی دلیل پر غور کریں۔ اس کے افکار پر دھیان دیں۔ غدار نے پراعتماد لہجے میں کہا۔ 1947ء میں جو علاقہ اب پاکستان ہے، اس کا لٹریسی ریٹ سولہ فیصد تھا۔ جو علاقہ اب بھارت میں ہے، 1947ء میں اس کا لٹریسی ریٹ اٹھارہ فیصد تھا۔ آج بھارت کا لٹریسی ریٹ پچھتر فیصد ہے جبکہ پاکستان کا پچپن فیصد۔ 1947ء سے لیکر اب تک ہماری توجہ ہمیشہ یہ رہی ہے کہ ہم بھارت سے مقابلہ کس طرح کریں ؟ایک ملک کس طرح بنتا ہے۔ اس میں ایک ہوتی ہے اس کی عسکری صلاحیت، اس کی معیشت، اس میں معاشرے کی یکجہتی۔۔۔ پھر تعلیم اور اس تعلیم کی کوا لٹی۔۔۔ پاکستان کی ایک یونیورسٹی ایسی نہیں ہے جو دنیا کی دو سو یونیورسٹیوں میں شامل ہو۔ لیکن پاکستان دنیا کی آبادی کے لحاظ سے چھ بڑے ملکوں میں ایک ہے۔غدار کے فکری خیالات کا سلسلہ جاری تھا۔ امریکہ میں رہائش پذیر پاکستان کے نوجوان جو اس وقت اس ہال میں موجود تھے، غدار کے خیالات سے مستفید ہورہے تھے۔ غدار نے پانی کا ایک گھونٹ پیا اور پھر کہا ۔۔۔ دنیا میں جو خیالات جنم لے رہے ہیں، اس میں کتنا فیصد کس ملک سے آرہا ہے۔ آج دنیا کی ذہنی پیدوار میں پاکستان کا حصہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔دنیا میں ایک سو بانوے ملک ہیں اور پاکستان ذہنی پیداوار میں کہیں ایک سو پچاسویں نمبر پر آتا ہے۔ کتنی کتابیں پاکستان میں لکھی جاتی ہیں اور کتنی پڑھی جاتی ہیں؟ معاشرے کو اجتماعی طور پر اس کے تمام پہلوؤں سے دیکھا جائے۔ پاکستان نے اپنی آزادی کے سرسٹھ سال نیشن پاور کا ایک پہلو بنانے میں گزار دیئے، سارے وسائل عسکری طاقت کو مضبوط بنانے میں جھونک دیئے، ساری توجہ دفاع پر لگادی گئی۔ پاکستان میں بحث کی اجازت دینی ہوگی۔اگر ایک ملک کا ایک ادارہ مضبوط ہے اور باقی کمزورتو وہ قوم انہی مسائل سے دوچار ہوگی جن سے اس وقت پاکستان دوچار ہے۔ پاکستان کا جو بحران ہے وہ خیالات کا بحران ہے۔پاکستان کا بحران یہ ہے کہ پاکستانی اختلافات میں نہ ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں۔ اور پاکستان کا آخری بحران یہ ہے کہ پاکستان میں خیالات کی بجائے افراد اور اداروں پر بات کی جاتی ہے۔او بھائی برے سے برا شخص بھی عقل کی بات کرے تو توجہ دو اور اچھے سے اچھا آدمی بھی جھک مارے تو اس کی بات کو سنی ان سنی کرد۔۔۔
غدار اور امریکی ایجنٹ نے طنزیہ انداز میں کہا۔یہ جو ہم اپنے آپ کو خوش کرنے کے لئے ڈائیلاگ بولتے ہیں۔پاکستان شب قدر کو بنا تھا۔یہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔کوئی اسے توڑ نہیں سکتا۔او بھائی یہ پاکستان ایک دفعہ تو ٹوٹ چکا ہے۔یہ باتیں کرکے پاکستانی حقائق سے پیچھا چھوڑاتے ہیں۔غدار کی تقریر کا اختتام ہوا تو تمام حاظرین نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔ نیویاک کا عوامی ہال خالی ہوگیا۔ تمام پاکستانی واپس لوٹ گئے۔ غدار بھی اپنی منزل کی طرف پلٹ گیا۔۔۔

اجمل شبیر

Leave a comment