Published On: Wed, Jul 15th, 2015

ثبوت ملے نہیں ، اس لیے ٹی وی چینلز خاموش، ایگزیکٹ اسکینڈل کہاں گیا ؟

Share This
Tags
چند دن پہلے تک پاکستان میں خبروں کا سب سے بڑا موضوع ایگزیکٹ ایشو تھا۔ہر روز ایف آئی اے کی تحقیقات، گرفتاریوں اور برامدگیوں کی خبروں سے ٹی وی چینلز کے تمام بلیٹن اور اخبارات کا پورا پہلا صفحہ بھرا ہوا ہوتا تھا۔ہر چند لمحوں بعد چیختی چنگاڑتی بریکنگ نیوز ٹی وی سیکرینز پر نمودار ہو رہی تھیں۔
ایسے لگ رہا تھا کہ دنیا میں پائی جانے والی تمام بُرائیوں اور خرابیوں کی جڑیں ایگزیکٹ کے دفتر میں سے مل گئی ہیں۔اخبارات نے تو بول اور ایگزیکٹ کے بارے میں حقائق سے عوام کو آگاہ کرنے کے لئے خبروں سے ہٹ کر پورے صفحے کا سپلیمنٹ تک چھاپ دیا۔پھر ہر طرف اچانک خاموشی چھا گئی۔
بریکنگ نیوز اور ہیڈلائنز سے ایگزیکٹ کا ایشو غائب ہو گیا؟؟یہ اس لئے ہوا کہ اب خبریں ایگزیکٹ کے حق میں آنا شروع ہوگئی تھیں،جنھیں بلیک آوٹ کیا جا رہا ہے۔axact-it-company
ایف آئی اے کے ڈی جی نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں کھل کر کہہ دیا کہ تمام تر تحقیقات کے باوجود ایگزیکٹ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے۔
صورتحال یہ ہے جن کے دفتر سے لاکھوں جعلی ڈگریوں کی برامدگی کی خبریں چلائی گئی تھی، اُن پر ایف آئی اے فرد جرم عائد کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔جج صاحب کی بار بار تنبیہ پر بھی چالان پیش نہیں کیا جا رہا۔
اب تو جج صاحب نے ایف آئی اے کو آخری مہلت دی ہے، اگر دس دن کے اندر چالان جمع نہ کرایا تو عدالت عبوری چالان پر ہی ٹرائیل شروع کر دے گی۔ کمزور کیس کی وجہ سے گرفتار ملازمین کی اکثریت جیل سے رہا ہو چکی ہے۔
اب وہ میڈیا مالکان جو اپنی ایمپائرز کو للکارنے کے جرم میں ایگزیکٹ اور بول سے وابستہ ہر فرد کو پھانسی پر لٹکوانا چاہتے تھے۔ ان کی رہائی کی خبریں کیوں نشر یا شائع کریں گے۔
یہ صورتحال صرف ایگزیکٹ ایشو تک محدود نہیں ہے۔ اخبارات ہوں یا چینلز دونوں کا معیار ایک ہے۔ کس خبر کو نمایاں کرنا ہے اور کس کو شائع نہیں کرنا اس کا فیصلہ اخبار یا چینل مالک کے کاروباری مفاد یا اُس کی ذاتی پسند نا پسند پر ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر پاکستان میں موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے صارفین کے بدترین استحصال کے بارے میں کوئی خبر کسی اخبار یا چینل پر نہیں چل سکتی ہے، کیوں کہ فون کمپیناں اشتہارات دیتے وقت پابند کرتی ہیں کہ اُن کے خلاف خبر نہیں چلائی جائے گی۔
یہ حال پاکستان کے ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کا ہے۔ جسے میڈیا ایک ایسا ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے۔ جو روزانہ ملک اور قوم کی بہتری کے لئے کچھ نا کچھ کرتا رہتا ہے۔ لیکن کسی اخبار اور ٹی وی چینل میں کبھی اُن لاکھوں لوگوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں ٓآ سکی، جن کی زمینوں پر اس نے قبضے کیے ہیں۔ بغیر معاوضہ ادا کیے انہیں ان کے اجداد کی زمینوں سے زبردستی بے دخل کر دیا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو قاری اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے اخبار خریدتا ہے یا کیبل کی فیس ادا کرتا ہے، اُس کو اخبار یا چینل مالک کے کاروباری مفادات یا ذاتی پسند ناپسند پر مبنی مواد دیکھنے پر مجبور کیوں کیا جا رہا ہے؟
قاری یا ناظر کو حقائق جاننے سے دلچسبی ہوتی ہے، جس کے لئے وہ اپنی محنت سے کمائی ہوئی رقم خرچ کرتا ہے۔ لیکن میڈیا مالکان اُس کا استحصال کر رہے ہیں۔
افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ بےچارا قاری اس استحصال کی کسی فورم پر شکایت بھی نہیں کر سکتا۔ کیا یہ آزادی اظہار پر قدغن نہیں ہے؟؟؟ آئین میں آزادی اظہار کی جو ضمانت دی گئی ہے وہ یہاں آکر کیوں بے بس ہو جاتی ہے؟؟ اس پر صحافتی تنظیموں، سول سوسائٹی اور ممبران پارلیمنٹ کو سوچنا ہوگا۔

مہتاب عزیز

Leave a comment