Published On: Sun, May 3rd, 2015

بول ٹی وی میں لانچنگ سے قبل ہی دراڑیں پڑ گئیں، کئی بڑے نام واپسی کیلئے تیار

Share This
Tags
ابھی نئے چینل بول ٹی وی کا آغاز ہونے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے لیکن دھوم دھام سے بنائی گئی ٹیم میں دراڑیں پڑنے لگی ہیں۔ بول ٹی وی کی سب سے پہلی تقرری ندیم رضا کی تھی اور بدقسمتی سے پہلی فائرنگ بھی انہی کی ہوئی۔ اس کے بعد تو گویا پتے جھڑنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وسیم بادامی نے بطور ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ جوائن کیا اور پھر اپنا خیمہ لپیٹ کر نکل گئے۔ ان کے بعد عاصمہ شیرازی کی رخصتی بھی عمل میں آئی اور ذرائع کے مطابق وہ آج کل جیو اور سماء سے رابطے کر رہی ہیں تاکہ نئی ملازمت کا بندوبست کیا جاسکے۔ جیو کے الیکشن سیل کے انچارج افتخار احمد جو جاتے ہوئے جیو انتظامیہ کو رسمی طور پر مطلع کرنے کا تکلف بھی نہ کر پائے تھے، ان کے بول جوائن کرنے کے فوراً بعد انتظامیہ سے اختلافات شروع ہوگئے۔ بول کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی اپنے شریک کار صحافیوں سے پہلے دن ہی ان بن ہوگئی تھی جو کئی تنازعات کا باعث بنی اور آج کل موصوف اپنا بستر کاندھے پر اٹھائے بول کے دروازے سے باہر لپکنے کو تیار کھڑے ہیں اور جنگ جیو کے ذرائع کے مطابق واپس آنے کیلئے رابطے بھی کر رہے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال سمیع ابراہیم کی ہے جنہوں نے صحافی سے اینکر پرسن کا سفر واشنگٹن سے دنیا نیوز کے ذریعے شروع کیا اور وہاں سے چینل 24 میں چلے گئے۔ مارچ کے اواخر میں بول کی انتظامیہ نے جو تقریب منعقد کی تھی اس میں بول جوائن کرنے والے تین نمایاں چہرے
kashf abbasi.jpg 1
کاشف عباسی نے جب اے آر وائی انتظامیہ کو بول میں جانے کی ‘‘دھمکی’’ دی تو مالکان کو انہیں نئی لینڈ کروزر دے کر روکنا پڑا
دکھائے گئے یعنی مبشر لقمان‘ عامر لیاقت اور سمیع ابراہیم۔ سمیع ابراہیم نے جب بول جوائن کیا تو یقین دلایا تھا کہ یہ ان کی آخری نوکری ہے لیکن اب انہوں نے بول چھوڑ کر اے آر وائی کی چوکھٹ پر سجدہ کرتے ہوئے اے آر وائی کی انتظامیہ کو بھی یہی یقین دلایا ہے کہ یہ ان کی آخری نوکری ہے۔ دلوں کا حال خدا جانے لیکن ایسی یقین دہانیاں صحافتی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ کچھ عرصہ قبل امریکی ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں سی این این کے زیراہتمام منعقدہ کانفرنس میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے جو اس وقت اے آر وائی کے ساتھ منسلک تھے جنگ کے نمائندے عظیم ایم میاں اور جیو کے ساتھ منسلک سمیع ابراہیم سے سوال کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جنگ اور جیو گروپ کا ہر شخص اے آر وائی میں آنا چاہتا ہے تو سمیع ابراہیم نے فخر کے ساتھ سینہ ٹھونکتے ہوئے کہا کہ ہر آدمی کی بات میں نہیں جانتا لیکن دو آدمی کبھی جنگ اور جیو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ شاہد مسعود نے سوال کیا کہ وہ آدمی کون ہیں تو سمیع صاحب نے جواب دیا ‘‘میر شکیل الرحمان اور محمد سمیع ابراہیم۔’’ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج وہی سمیع ابراہیم اے آر وائی کے دستر خوان سے فیض یاب ہو رہے ہیں اور ڈاکٹر شاہد مسعود دوبار جیو جوائن کرنے کے بعد چھوڑ بھی چکے ہیں۔ بول ٹی وی کے ‘‘میٹ دی ٹیم’’ پروگرام میں جس دوسرے اینکر کی رونمائی کی گئی‘ وہ مبشر لقمان ہیں جن کے بارے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ایک بار بول چینل میں جاکر واپس اے آر وائی میں آگئے تھے اور اب انہوں نے بزنس پلس جوائن کرلیا ہے جہاں سے انہوں نے بطور اینکر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ ذرائع کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ بزنس پلس کو جوائن کرنے کا فیصلہ دراصل عدت کی حیثیت رکھتا ہے جس کے اختتام پر وہ ایک بار پھر بول سے رجوع کریں گے۔ دوسری جانب صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ بول ٹی وی نے صحافتی صنعت میں جو اکھاڑ پچھاڑ کی ہے اس کے باعث صحافیوں کو بھی اپنی قیمتیں بڑھانے کا چسکا لگ گیا ہے۔ ہر اینکر اپنی بولی لگوا رہا ہے اور مالکان کو پریشر میں لا رہا ہے۔ اسی صورتحال میں ایک معروف نام کاشف عباسی کا بھی ہے جنہوں نے جب اے آر وائی انتظامیہ کو بول میں جانے کی ‘‘دھمکی’’ دی تو مالکان کو انہیں نئی لینڈ کروزر دے کر روکنا پڑا۔ بول ٹی وی نے اپنی سکرین روشن کرنے سے پہلے پوری انڈسٹری میں اتھل پتھل کا جو عمل شروع کیا تھا اس کے نتائج اب خود بول کی انتظامیہ کے سامنے بھی آنے لگے ہیں اور بہت سے ‘‘بدھووں’’ کے لوٹ کر آنے کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔bol
Displaying 1 Comments
Have Your Say
  1. Akram sohail says:

    BOL is actually a dumping ground for all people “JO POLNEY KA KAAM “kartey thy.In kee boltey band karney kay liay BOL chalaya ghaea

Leave a comment