Published On: Sun, Nov 1st, 2015

میڈیا کے انکشافات ،چیئرمین پیمرا کے طور پر ابصارعالم کی تعیناتی اور کامران خان کا مقدمہ

Share This
Tags
کامران خان بلاشبہ پاکستان کے چند بہترین ٹی وی میزبانوں میں شمار کیے جانے کے قابل ہیں۔ وہ طبعی صحافت سے ایک طویل وابستگی میں اُس بنیادی تربیت سے گزرے ہیں جو خبر کی تہہ داریوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ kamran & asarپاکستان کی نجی ٹیلی ویژن دنیا کا یہ المیہ ہے کہ یہاں اکثر ٹی وی میزبان سیاست و صحافت کے بنیادی پسِ منظر سے ہی ناآگاہ ہیں۔ یہ چمکتی اشیاء کو سونا باور کرانے کی ایک جھوٹی دنیا ہے۔ اُن میں کامران خان اُن معدودے چند افراد میں شامل ہیں جن کا پسِ منظر ٹی وی کی چمکتی دنیا سے بھی پہلے صحافت کا رہا ہے۔ مگر آج 26 اکتوبر کو کامران خان جب اپنے پہلے ہفتہ وار پروگرام کے ساتھ ٹی وی کے چمکتے دمکتے پردے پر جلوہ گر ہوئے تو اُن کی پہلی خبر زلزلہ نہیں تھی بلکہ چیئرمین پیمرا کے طور پر ابصار عالم کی تعیناتی اور صحافت سے حکومت تک سفر کرنے والے افراد تھے۔کامران خان جب اس موضوع کو زیر بحث لا رہے تھے تو اُس وقت تک زلزلے سے168 افراد کے جاں بحق ہونے کی خبر سامنے آ چکی تھی۔ وہ خبر جو لحظہ لحظہ منکشف ہو رہی تھی ، اُسے مکمل نظر انداز کرتے ہوئے کامران خان نے آخر کیوں ابصار عالم کو موضوع بنایا؟ ظاہر ہے کہ یہ بلاوجہ نہ تھا ۔ بلکہ اس کا بھی ایک پس منظر ہے۔
پہلا پسِ منظر تو خود کامران خان اور ابصار عالم کے تعلقات کا ہے۔ کامران خان جب جیو ٹی وی پر اپنا یہ مشہور پروگرام کرتے تھے ، تب ایک طویل عرصے تک ابصار عالم جیو کے اسلام آباد میں بیورو چیف کے طور پر اُن کے پروگرام کی زینت بنتے رہے۔ پھرڈائریکٹر نیوز کے طور پر ابصار عالم دنیا ٹی وی سے وابستہ ہو گیے۔ جہاں منیجنگ ڈائریکٹر کے منصب پر یوسف بیگ مرزا تعینات تھے۔ یوسف بیگ مرزا جو صحافتی دنیا میں “وائی بی ایم “کے مخفف سے پہچانے جاتے ہیں ، ٹی وی کی صنعت کا سب سے اہم موضوع ہے جس نے پاکستان کی صحافت کو گھٹیا لوگوں کی ایک کھلی منڈی اور آوارہ ذہنوں کی ایک ناکارہ بستی بنانے میں شعوری حصہ لیا ہے ۔ مگر یہ ایک الگ موضوع ہے جس کے ساتھ تاریخ وار اور واقعات کے ساتھ انصاف کیا جائے گا ۔ اس لیے اسے کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔
آمدم بر سرِ مطلب! ابصار عالم جب دنیا ٹی وی سے وابستہ ہوئے تو منیجنگ ڈائر یکٹر کے طور پر یوسف بیگ مرزا دنیا ٹی وی میں خبری مواد پر مکمل گرفت کی جنگ جیت چکے تھے۔ جہاں کے مالک میاں عامر محمود کے لیے یہ دنیا بالکل نئی تھی۔ جس میں وہ اپنی جانکاری کی بدولت نہیں بلکہ دولت ہی کی بدولت اپنے پاؤں جما رہے تھے۔ اُن کا رویہ صحافت میں بالکل وہی تھا جو سیاست میں آصف علی زرداری کاتھا۔ آصف علی زرداری اپنی بے اندازا دولت کے سبب یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ پورے انتخابات کوہی خرید سکتے ہیں اور میاں عامر کا خیال یہ تھا کہ وہ جیو کو دولت کے بل پر گراسکتے ہیں۔ آج تک دونوں ہی اس میں ناکام ہیں۔
کامران خان کو صحافت کے اُن ناموں سے ضرور دلچسپی تھی جو مختلف اوقات میں اقتدار کی راہداریوں میں اپنے مردے لے گیے تھے۔

 ابصار عالم دنیا سے ’’فراغت‘‘ ملنے کے بعد اپنا مقدمہ یوسف بیگ مرزا اور میاں عامر محمود کے خلاف عدالت ِ عظمیٰ لے گیے تھے۔ جو خود یوسف بیگ مرزا کے دنیا ٹی وی چھوڑنے کے بعد بھی کا فی عرصے تک دونوں کو پریشان کرتا رہا۔

کامران خان نے اپنے پروگرام کے پہلے حصے میں یہ تو بتایا کہ ابصار عالم “ہمارے “(دیکھیے کامران خان کا دنیا کے لیے یہ “ہمارے” کا لفظ کب تک رہتا ہے) چینل دنیا سے بھی وابستہ رہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ وہاں کس سلوک کے ساتھ رہے؟ اور اُنہوں نے یہاں سے نکلنے کے بعد اس چینل کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ چیئر مین پیمرا ابصار عالم دنیا سے ’’فراغت‘‘ ملنے کے بعد اپنا مقدمہ یوسف بیگ مرزا اور میاں عامر محمود کے خلاف عدالت ِ عظمیٰ لے گیے تھے۔ جو خود یوسف بیگ مرزا کے دنیا ٹی وی چھوڑنے کے بعد بھی کا فی عرصے تک دونوں کو پریشان کرتا رہا۔ یہ مقدمہ دراصل ٹیلی ویژن کی اندرونی دنیا کی بدمعاملگیوں کی تفصیلات بتاتا ہے۔ جسے کسی اور وقت الگ سے موضوع بنایا جائے گا۔ یہاں تو صرف یہ نشاندہی کرنا مقصود ہے کہ صحافت کی تابناک دنیا میں حقیقی صحافیوں کے نزدیک اقتدار کی راہداریوں میں تانک جھانک کبھی بھی کوئی پسندیدہ عمل نہیں رہا اور اس کے لیے ماضی کی دی گئی مثالیں دراصل کوئی رہنما مثالیں نہیں بلکہ شرمناک مثالیں ہیں۔مگر کامران خان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
یوسف بیگ مرزا نے پاکستان کی صحافت کو گھٹیا لوگوں کی ایک کھلی منڈی اور آوارہ ذہنوں کی ایک ناکارہ بستی بنانے میں شعوری حصہ لیا ہے۔
چنانچہ کامران خان نے جب اس مسئلے کے حوالے سے ایک اور متنازع قلمکار ایاز امیر کو ہی گفتگو کے لیے مدعو کیا تو اُنہوں نے کم ازکم یہ بات تو پوری ایمانداری سے بیان کرنا چاہی کہ اُنہیں ڈان کے نہایت اصول پسند مدیر احمد علی خان نے ڈان میں چھپنے والے اُن کے مستقل کالم کو تب جگہ دینے سے انکار کر دیا تھا جب وہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑ کر ایک جماعت سے وابستہ ہوئے۔ کامران خان نے اس کی تفصیلات میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ کیونکہ یہ صحافت کی اُن اُجلی روایتوں کی عکاسی کرتی ہے جس میں صحافی کا کردار سیاسی مفادات سے آلودہ ہونے کی صورت میں ناقابل قبول ہو جاتا ہے۔ مگر کامران خان کو صحافت کے اُن ناموں سے ضرور دلچسپی تھی جو مختلف اوقات میں اقتدار کی راہداریوں میں اپنے مردے لے گیے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے ماضی قریب کے کرداروں کا ذکر کیا جن میں نجم سیٹھی ، ملیحہ لودھی، عرفان صدیقی اور کامران شفیع وغیرہ شامل ہیں۔ کامران خان نے اپنے ابتدایئے میں یہ تک کہہ دیا کہ حکومتیں صحافیوں کواس لیے شریک اقتدار کرنا چاہتی ہیں کہ اُن کی حالات پر نظر ہوتی ہے۔ یہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے جو حضرت کامران خان نے اپنے ابتدایئے میں کہا ہے۔اول تو دنیا بھر کی تحقیقاتی رپورٹیں انکشاف کرتی ہیں کہ صحافی وہ بے خبر مخلوق ہوتے ہیں جنہیں سرمایہ دار معاشرے میں چند ایک معاملات میں خبروں کی حد تک ملوث رکھ کر اصل حقائق اور مسائل سے عوام کو بے خبر رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مرکزی ذرائع ابلاغ کے اس کردار پر نوم چومسکی کی ایک پوری کتاب موجود ہے۔ اسی طرح ایڈورڈ سعید نے اس ضمن میں جتنا کام کیا ہے وہ تین کتابوں پر پھیلا ہوا ہے۔ پھر تیسری دنیا میں یہ امر بالکل واضح ہے کہ یہاں بدعنوان حکومتیں صحافیوں کوشریک اقتدار رکھ کر اپنے نظام میں اُن کے مفادات کو بڑھاتی ہیں تاکہ وہ اُن کے لیے کہیں پر بھی نقصان دہ نہ بن سکیں۔ شاید یہی وجہ رہی ہو گی کہ آج زلزلے میں ہلاک ہونے والے 168 افراد “آج کامران خان کے ساتھ” کی پہلی خبر نہ بن سکے مگر ابصار عالم کی چیئرمین پیمرا تعیناتی کی پچھلے ہفتے کی خبر اولین بننے کی مستحق سمجھی گئی۔ کہیں دنیا ٹی وی کی انتظامیہ کو کوئی خوف تو دامن گیر نہیں کہ اس طرح ابصار عالم کو تمام ٹیلی ویژن پر نگرانی کا حق جو مل گیا ہے؟
باسط علی

Leave a comment